ٹورونٹو میں مجھے پہلی بار فرصت کے دن رات میسر آئے۔ ایسے میں کتابوں کی ورق گردانی اور ٹورونٹو کے گلی کوچوں کی سیر میرا روز کا معمول تھا۔ آج میں نے اپنے بیٹوں صہیب اور شعیب کے ہمراہ آغا خان میوزیم جانا ہے جس کے ٹکٹ ہم نے آن لائن خرید لیے تھے اور میوزیم کی ڈائریکٹر سے اپائنٹمنٹ بھی طے تھی۔ آغا خان کمپلیکس کے اندر جائیں تو ایک وسعت کا احساس ہوتا ہے۔ ایک طرف اسماعیلی سنٹر اور دوسری طرف میوزیم کی عمارت ہے۔ ان دونوں کے درمیان چہار باغ ہیں۔ چار باغوں کا یہ تصور اسلامی طرزِ تعمیر میں ملتا ہے۔ پانی کی چار نہریں سمجھ لیجیے جو سنگِ مر مر سے بنی ہیں۔ ان شفاف پانیوں میں میوزیم کی عمارت کا عکس لرزتا دکھائی دیتا ہے۔ کھلی جگہ پر لوگ چھوٹے چھوٹے سٹالز لگا رہے تھے‘ والنٹیئر لڑکے اور لڑکیاں جوش و خروش سے کام کر رہے تھے۔
ہم میوزیم کے صدر دروازے سے اندر داخل ہوئے اور ریسیپشن پر بتایا کہ ہماری اپائنٹمنٹ میوزیم کی ڈائریکٹر الریکے (Ulrike) سے ہے‘ جواب میں ہم توقع کر رہے تھے کہ میوزیم کی ڈائریکٹر اپنے آفس میں بیٹھی ہوں گی لیکن ہمیں خوش گوار حیرت ہوئی کہ ریسیپشن پر بیٹھی لڑکی الریکے کا نام سن کر ہنستے ہوئے بولی: وہ رہیں Ulrike۔ ہم نے آواز کی سمت دیکھا تو ایک خاتون عام لوگوں کے ہمراہ کھڑی تھی۔ ہمیں دیکھ کر اس نے خوش دلی سے ہمارا استقبال کیا اور ہمیں لے کر سامنے کیفے ٹیریا میں آ گئی۔ ہمیں کرسیوں پر بیٹھنے کو کہا۔ خود کاؤنٹر پر گئی اور ہمارے لیے کافی آرڈر کی۔ کچھ ہی دیر میں ہم ایک دوسرے سے بے تکلفی سے گفتگو کر رہے تھے۔ وہ بتا رہی تھی کہ اس کا تعلق جرمنی سے ہے۔ اس نے میوزیم سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کی ہے اور اس کے خاوند کا تعلق عراق سے ہے۔ اس نے شعیب کی طرف دیکھ کر کہا: اس عمر کے بچے جب ٹورونٹو آتے ہیں تو یہاں کی چکا چوند انہیں مرعوب کرتی ہے لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی ثقافت اور ان کا کلچر کتنا توانا ہے۔ اس میوزیم کے قیام کا ایک اہم مقصد اسلامی کلچر کو محفوظ کرنا اور اسے دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ الریکے بتا رہی تھی کہ یہاں ثقافتی اور تعلیمی پروگرام تواتر سے ہوتے ہیں۔ جن میں مختلف ملکوں سے Exhibitionsآتی ہیں۔ یوں ٹورونٹو میں مختلف اسلامی ممالک سے آنے والے نوجوانوں کو یہ اطمینان ہوتا ہے کہ ان کی تہذیب کتنی باثروت ہے۔ ہم کافی پی رہے تھے اور الریکے آ نے جانے والے میوزیم کے ملازموں کودیکھ کر کبھی ہاتھ ہلاتی اور کبھی حوصلہ افزائی کا کوئی جملہ کہتی۔ یہی وہ انسپیریشنل لیڈرشپ ہے جو کام کرنے والوں کو ہر دم مستعد رکھتی ہے۔ میں نے پوچھا: Covidکے دنوں میں تو یہاں آنے والوں کی تعداد کم ہو گئی ہو گی؟ اس نے کہا: ہاں! لیکن اس دوران ہم نے اپنی ویب سائٹ پر Virtual Tours کی سہولت شروع کر دی تھی۔ یوں لوگوں کی ایک بڑی تعداد گھر بیٹھ کر میوزیم کے مختلف حصوں کو دیکھ سکتی تھی۔ کچھ ہی دیر میں میوزیم کے ایک ملازم نے چپکے سے الریکے کو کچھ کہا جس پر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی اور بتایا کہ ایک اور فنکشن شروع ہونے و الا ہے جس کے لیے اس کا انتظار ہو رہا ہے۔ ہم سب کھڑے ہو گئے‘ الریکے نے ہم سے ہاتھ ملایا اور تیز تیز چلتی ہوئی ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
الریکے نے جانے سے پہلے ہمیں میوزیم گائیڈ زینت کے حوالے کیا تھا کہ وہ ہمیں میوزیم کے مختلف حصوں کا گائیڈڈ ٹور کرائے۔ زینت نے ہمیں گلے میں ڈالنے کے لیے Tag دیے۔ ہم تین لوگ تھے‘ پھر ہمارے ساتھ امریکہ میں رہنے والی ایک پاکستانی نژا د فیملی بھی آگئی۔ وہ نوجوان میاں بیوی تھے جن کے دو بہت ہی مہذب بیٹے تھے۔ ہم جب بھی ایک کمرے سے دوسرے میں جاتے تو وہ دروازہ پکڑ کر کھڑے ہو جاتے۔ زینت کے پوچھنے پر جب ہم نے بتایا کہ ہم پاکستان سے ہیں تو اس نے بتایا کہ میں پاکستان تین‘ چار سال رہ کر آئی ہوں۔ امریکہ سے آئی ہوئی پاکستانی نژاد فیملی کے سربراہ زین علی نے بتایا کہ وہ امریکہ میں رہتے ہیں لیکن لاہور میں فلاحی کام بھی کرتے ہیں۔ زینت بہت اچھی گائیڈ تھی‘ وہ میوزیم کے مختلف گوشوں کے بارے میں تفصیل سے بتا رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس میوزیم کے آرکیٹیکٹ Fumitiko Maki کا تعلق جاپان سے ہے‘ جس کے فن کے اعتراف میں اسے Pritzher Prizeمل چکا ہے۔
میوزیم کے فن تعمیر کا مرکزی نکتہ نور (Light) ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپانی معمار نے میوزیم کی تعمیر اس طرح کی کہ ہر جگہ قدرتی روشنی کی فراوانی ہے۔ اسلامی تصوف میں روشنی اور نور کی اپنی اہمیت ہے۔ عمارت کی تعمیر کی خاص بات یہ ہے کہ عمارت کو اس زاویے پر بنایا گیا ہے کہ یہ ہر وقت سورج کی روشنی کے سامنے رہتی ہے۔ عمارت کے اندر آئیں تو ایک کشادگی اور وسعت کا احساس ہوتا ہے۔ عمارت میں کشادہ صحن کی شیشے کی دیواروں پر روایتی جالیاں ہیں جن کا خوبصورت عکس سامنے فرش اور دیواروں پر گل بوٹے بناتا ہے۔ اسی طرح عمارت میں کھڑکیوں کی تعمیر اس طرح کی گئی ہے کہ اندر سے باہر کا منظر تو نظر آتا ہے لیکن باہر سے اندر نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسے روایتی طرزِ تعمیر میں مشربیہ (Mashrabiya) کہتے ہیں۔
زینت کے ہمراہ ہم نے میوزیم کی گیلریاں‘ کلاس رومز‘ ریفرنس لائبریری اور آڈیٹوریم دیکھا۔ ایک دیوار پر چلتی پھرتی اسلامی تاریخ نظر آرہی تھی‘ میں کتنی ہی دیر ساکت کھڑا اسلامی سلطنت کی وسعتوں کا شمار کرتا رہا۔ ایک کمرے میں مختلف پرندوں کی تصاویر تھیں۔ مجھے فریدالدین عطار کی کتاب ''منطق الطیر‘‘ یاد آگئی جو پرندوں کی زبانی زندگی کے اسرار و رموز کی داستان ہے۔ ہمیں مختلف گیلریوں میں اسلامی آرٹ اور قدیم ایرانی آرٹ کے نادر نمونے نظر آئے۔ ہم آہستہ آہستہ چل رہے تھے‘ تب اچانک مجھے بائیں ہاتھ دیوار پر لکڑی کا ایک مستطیل پینل نظر آیا جس پر لکڑی سے حافظ کی غزل کے اشعار ابھارے گئے تھے۔ اردو اور فارسی رسم الخط تقریباً ایک جیسا ہے لیکن فارسی غزل کے معانی کیا ہوں گے؟ قریب ہی ایک فیملی نظر آئی ان کی شکل و شباہت سے مجھے لگا کہ ان کا تعلق ایران سے ہے‘ میں نے ان سے مدد کی درخواست کی۔ مرد نے عورت کی طرف دیکھا‘ حافظ کی شاعری دیکھ کر اس کی آنکھیں چمک اُٹھیں‘ وہ آگے بڑھی اور حافظ کی غزل خالص فارسی لہجے میں پڑھنے لگی اور پھر ہمیں انگریزی ترجمہ بھی بتایا۔ ہم خوشگوار حیرت میں مبتلا ہو گئے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ وہ ایران سے سیر کے لیے ٹورونٹو آئے تھے اور آج پہلی بار آغا خان میوزیم کی شہرت سن کر یہاں آئے ہیں۔ شاید قدرت نے انہیں ہمارے لیے بھیجا تھا۔ ہم نے ان کا شکریہ ادا کیا اور ایک کمرے میں آگئے جہاں چینی کے نایاب برتن رکھے تھے۔ زینت نے بتایا کہ یہ آغا خان کی ذاتی کلیکشن تھی جو انہوں نے اس میوزیم کو دے دی ہے۔ میوزیم کے ایک حصے میں قیمتی پینٹنگز اور نادر کتابوں کے قلمی نسخے ہیں۔ انہی میں 1015ء میں بوعلی سینا کی لکھی ہوئی ''قانون فی الطب‘‘ بھی رکھی ہے جس میں ہاتھ سے ڈرائنگز بنائی گئی ہیں۔ ایک مکمل سیکشن قرآن مجید کے پرانے نسخوں کا ہے ان میں نویں یا دسویں صدی میں کوفی رسم الخط میں لکھے گئے قرآن مجید کے نایاب نسخے بھی موجود ہیں۔
میوزیم کے مختلف حصوں میں گھومتے ہوئے اب ہمیں تھکن محسوس ہو رہی تھی۔ ہم نے آخری گیلری کو دیکھ کر زینت کا شکریہ ادا کیا اور میوزیم کے صدر دروازے سے باہر نکل آئے جہاں سیا ہ بادل نیچے جھک آئے تھے۔ صہیب نے بادلوں بھرے آسمان کو دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا: کیسا خوبصورت موسم ہے‘ چلیں Tim Hortons پر بیٹھ کر کافی پیتے ہیں۔ (جاری)