دبئی کے گلوبل ویلیج کی بھول بھلیوں میں گھومتے اب رات گہری ہو گئی تھی لیکن لوگوں کی چہل پہل اسی طرح تھی۔ اس دن گھر پہنچ کر میں بستر پر لیٹاتو گہری نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اگلے روز صبح آنکھ کھلی تو آٹھ بج رہے تھے۔ آج ہمیں ٖFerry ٹرِپ پر جانا تھا ۔شاداب کا گھر النہدہ کے علاقے میں ہے جہاں سے میٹرو سٹیشن کا فاصلہ پانچ منٹ کا ہے۔ یہ سٹیڈیم سٹیشن کہلاتا ہے کیونکہ اس کے قریب ہی فٹ بال کا سٹیڈیم ہے۔ ہم نے دبئی کے معروف لولو ہائپر مارکیٹ (Lulu Hayper Market)کی پارکنگ میں گاڑی پارک کی۔ ہم سٹور کے اندر سے elevator کے ذریعے اوپر گئے اور میٹرو آفس سے ٹکٹ لیے۔ کچھ ہی دیر میں ہماری ٹرین آگئی۔ ہر سٹیشن سے پہلے عربی اور انگریزی میں اناؤنسمنٹ ہوتی ہے۔ ہماری منزل الغبیبہ میٹرو سٹیشن تھی۔ راستے میں کئی سٹیشن آئے جہاں ٹرین کچھ دیر کیلئے رکتی۔ کچھ مسافر اترتے کچھ نئے مسافر سوار ہوتے اور ٹرین اپنا سفر پھر سے شروع کر دیتی۔آخر ہماری منزل آگئی۔ کچھ دور ہی الغبیبہ کا دبئی فیری سٹیشن تھا۔ ہماری فیری سامنے کھڑی تھی ہم ٹکٹ دکھا کر اندر داخل ہوئے۔ میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گیا‘ میرے ہمراہ منال تھی‘ شاداب اور سمیرہ ہماری پچھلی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ کچھ دیر بعد فیری چل پڑی‘ ہم پانیوں پر سفر کر رہے تھے۔ ہر طرف چمکیلی دھوپ پھیلی اور باہر دبئی کی عمارتیں نظر آرہی تھیں۔ فیری کے اندر ہی ایک چھوٹا سا ریستوران تھا جہاں چائے‘ کافی اور دوسرے مشروبات تھے‘ ساتھ ہی مختلف قسم کے Snacks بھی تھے۔ پندرہ بیس منٹ کے بعد اعلان ہوا کہ ہم ڈیک پر جا سکتے ہیں۔ سب اپنے کیمرے اور موبائل فون سنبھالتے ہوئے باہر آگئے اور ڈیک کے ساتھ لوہے کی مضبوط ریلینگ کے ساتھ کھڑے ہو کر خوبصورت پانیوں کا منظر دیکھنے لگے۔ ہمارے ساتھ مختلف قومیتوں کے مسافر تھے‘ آسٹریلیا‘ بھارت‘ انگلینڈ‘ چین‘ جرمنی؛ سب اپنے کیمروں سے دلکش منظروں کی تصویر کشی کر رہے تھے۔ فیری جہاں سے گزر رہی تھی اس کے پیچھے نیلا پانی سفید جھاگ میں بدل رہا تھا۔ راستے میں دبئی کی معروف عمارتیں برج العرب اورپام جمیرہ ہیں‘ راستے میں فیری دبئی کنال اور بلوواٹرز (Blue Waters) پر مختصر وقت کے لیے رکتی ہے۔ ہماری آخری منزل مرینہ (Marina) ہے۔ یہ تقریباً دو گھنٹے کاسفر تھا جس میں ہم نے شہر کے گرد چکر لگایا تھا۔ ڈیک پر کھڑے ٹھنڈی ہو اچھی لگ رہی تھی۔ یہ مارچ کا مہینہ تھا اور دبئی کا موسم معتدل تھا۔ مرینہ کے سٹیشن پر اترے ۔ مرینہ کا پورا علاقہ ایک طرح سے یورپی علاقہ تصور کیا جاتا ہے جہاں غیر ملکی افراد کثرت سے نظر آتے ہیں۔ پانیوں کے ساتھ ہی بلند و بالا عمارات میں آفس بھی ہیں اور اپارٹمنٹس بھی۔ ہم مرینہ مال میں داخل ہوئے جہاں مجھے سٹاربکس (Star Bucks) کافی شاپ نظر آئی جو مال کے وسط میں تھی ۔ سیاہ کافی کا پہلا گھونٹ پیتے ہی طبیعت بشاش ہو گئی۔ کچھ دیر مال میں بے مقصد گھومنے کے بعد ہم میٹرو پر سوار ہوئے اور یونین سٹیشن پر جا اترے، جہاں سے ہمیں ٹرین تبدیل کرنا تھی۔ دوسری ٹرین لے کر ہم سٹیڈیم کے میٹرو سٹیشن پہنچے جہاں پارکنگ میں ہماری گاڑی کھڑی تھی۔ ہم سٹیشن سے باہر نکلے تو دھوپ میں ہلکی سی تپش تھی۔ وہاں سے ہمارے گھر کا فاصلہ پانچ منٹ کا تھا۔
اگلے روز جمعہ تھا۔ آج ڈنر پر سمیرا نے دو اور فیملیز کو بلایا ہوا تھا۔ وہ صبح سے کچن میں مصروف تھی ۔ میں شاداب کے ہمراہ گھر کے قریب سڑک کے پار مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے چلا گیا۔ مسجد کے قریب کھلے میدان میں بہت سی گاڑیاں پارک تھیں۔ مسجد کے برآمدے میں نمازیوں کے لیے بلاقیمت پانی اور 'لبن‘ کے پیک رکھے تھے۔ نماز کا خطبہ صحیح وقت پر شروع اور ختم ہوا۔ نماز سے فارغ ہو کر ہم گھر کے قریب ایک مال میں چلے گئے جہاں سے شاداب نے رات کے ڈنر کے لیے کچھ چیزیں خرید نا تھیں۔ رمضان کی آمد آمد تھی اور ہر مال میں رمضان کے مہینے کے استقبال کے لیے خاص ڈیکوریشن کی گئی تھیں اور رمضان کی مناسبت سے بہت سی اشیا پر سیل کا آغاز ہوگیا تھا۔یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ ہر مال پر پاکستانی شربت اور مسالے موجود تھے۔ گھر پہنچے تو دروازہ کھلتے ہی کھانوں کی مہک نے استقبال کیا۔ سمیرا نے کہا کوکنگ مکمل ہو چکی ہے ۔ ہم لاؤنج میں بیٹھ کر چائے پینے لگے۔ ڈنر پر مہمانوں کو سات بجے کا وقت دیا گیا تھا۔ عجمان سے میرے بھتیجے عمران اور اس کی بیوی طوبیٰ نے آنا تھا۔ عجمان دبئی سے تقریباً تیس چالیس منٹ کے فاصلے پر واقع ہے۔ آج ویک اینڈ کی وجہ سے شاید سڑکوں پر معمول سے زیادہ رش تھا۔ تب دروازے کی گھنٹی بجی‘ شاداب نے دروازہ کھولا تو عمران اور طوبیٰ کھڑے تھے۔ ایک عرصے بعد ان سے ملاقات ہو رہی تھی۔ عمران آج سے پندرہ برس پہلے دبئی آیا تھا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا ۔ تقریباً تین ماہ پیشتر ہی اسے عجمان میں ایک بہتر جاب ملی تھی اور وہ دبئی سے عجمان منتقل ہو گیا تھا۔ آج ڈنر کے بعد میں نے عمران اور طوبیٰ کے ہمراہ عجمان جانا تھا جہاں میرا قیام اگلے دو روز کے لیے تھا ۔آج کے ڈنر میں دبئی میں مقیم میری بھانجی حمیرا نے بھی اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ آنا تھا۔ فیملی میں حمیرا کا اصل نام کم ہی جانتے ہیں‘ سب اسے مینا کے نام سے پکارتے ہیں۔ مینا شادی کے بعد 2013ء میں ابو ظہبی آئی تھی جہاں اس کا میاں ایک یونیورسٹی میں پڑھاتا تھا۔ چھ برس ابو ظہبی میں رہنے کے بعد وہ چار سال پہلے دبئی میں آگئے تھے جہاں وہ جبلِ علی کے علاقے میں رہتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ شاداب کا گھر دبئی کے ایک سرے پر واقع ہے جہاں سے شارجہ کچھ فاصلے پر ہے اور مینا کا گھر دبئی کے دوسرے سرے پر ہے جہاں سے ابو ظہبی بہت قریب ہے۔
ویک اینڈ کی وجہ سے سڑکوں پر غیر معمولی رش تھا جس کی وجہ سے انہیں پہنچنے میں دیر ہو گئی تھی۔ ہم لاؤنج میں باتوں میں مصروف تھے کہ دروازے کی گھنٹی بجی‘ شاداب نے دروازہ کھولا تو مینا اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس کے ہمراہ اس کی بیٹیاں حفصہ‘ زینب اور زہرہ تھیں۔ مینا سے ملاقات ایک عرصے بعد ہوئی تھی۔ سب ایک دوسرے سے مل رہے تھے۔ وطن سے دور گھر میں کوئی مہمان آئے تو میکانکی زندگی میں کچھ بدلاؤ آجاتا ہے۔ کھانے کے دوران سب سمیرا کی کوکنگ کی تعریف کر رہے تھے ۔ باتوں باتوں میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔اب رات کے دس بج رہے تھے۔ دبئی آتے ہوئے میں نے یہ طے کیا ہوا تھا کہ میں ہر گھر میں دو دن رہوں گا۔ عمران اور طوبیٰ آج مجھے لینے آئے تھے‘ اگلے دو دن میں نے ان کے ہمراہ عجمان میں گزارنے تھے اور آخری دو دن مینا کے گھر۔کھانے کے بعد سمیرا نے کہا آپ قہوہ پیں گے یا چائے؟ میرے جواب سے پہلے عمران بولا: میرا خیال ہے ہمیں چلنا چاہیے کیونکہ واپسی پر دبئی مال جائیں گے وہاں ڈانسنگ فاؤنٹینز (Dancing Fountains) کا شو رات گیارہ بجے ہوتا ہے‘ وہیں کافی بھی پی لیں گے۔ ہم سب کو خدا حافظ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ عمران گاڑی چلا رہا تھا اور میں اس کے ساتھ والی سیٹ پر تھا۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھی طوبیٰ عمران کو راستہ بتا رہی تھی۔ دبئی کی سڑکیں اور راستے اسے ازبر تھے۔ ہم دبئی مال پہنچے تو پتا چلا ڈانسنگ فاؤنٹینزکا شو شروع ہوا چاہتا ہے۔ لوگوں کا ایک ہجوم دور تک پانیوں کے گرد ریلینگ کے ساتھ کھڑا تھا۔ ہم بھی اس ہجوم میں شامل ہو گئے۔ تب اچانک ایک آواز آئی اور اس کے ساتھ ہی مختلف رنگوں کے فوارے موسیقی کی دھنوں پر لہرانے لگے ۔(جاری)