"SSC" (space) message & send to 7575

موتی و مرجان کی سرزمین … (3)

دبئی مال میں ریلنگ کے ساتھ کھڑے سیاح ڈانسنگ فاؤنٹینز (Dancing Fountains) سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ سب لوگ ان یادگار لمحوں کو تصویروں میں محفوظ کر رہے تھے۔ اب رات کا اندھیرا پھیل رہا تھا لیکن لوگوں کی ریل پیل اور رونق دیکھ کر یوں لگتا تھا دن کا سماں ہے۔ ڈانسنگ فاؤنٹینز کا شو ختم ہوا تو ہم کافی پینے کے لیے Cafe Neroمیں جا بیٹھے۔ یوں کافی کی اور بھی معروف دکانیں تھیں لیکن Cafe Neroکا نام ہی اتنا رومینٹک تھا کہ ہم نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک اٹالین کافی شاپ تھی جہاں کا ماحول اور فرنیچر سب سے ہٹ کر تھا۔ کیفے نیرو میں بیٹھ کر مجھے وہ محاورہ یاد آگیا ''جب روم جل رہا تھا تو نیرو بانسری بجا رہا تھا‘‘۔ میں اس محاورے سے اپنے سکول کے زمانے سے آشنا ہوا تھا بعض دفعہ ناموں کی بھی اپنی کشش ہوتی ہے‘ یہی کشش ہمیں کیفے نیرو لے آئی تھی۔ کافی پی کر تازگی کا احساس ہوا۔ ہماری اگلی منزل دبئی مال کی معروف دکان Kinokuniya تھی‘ یہ ایک جاپانی بک شاپ ہے جہاں نئی کتابوں کا وسیع ذخیرہ ہے۔ اگر آپ دبئی جائیں تو کتابوں کی اس دکان پر ضرور جائیں۔ کہتے ہیں دبئی مال دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ سنٹر ہے۔ یہ ایک وسیع علاقے پر پھیلا ہوا مال ہے جس میں تقریباً بارہ سو سٹورز میں تقریباً ستر کے قریب فیشن آؤٹ لیٹس اور بیسیوں ریستوران ہیں۔ مال میں ایک Aquariumاور زیر آب چڑیا گھر بھی ہے۔ 2019ء میں اس کو مزید وسیع کیا گیا۔ دبئی مال کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ میٹرو کا ایک سٹیشن دبئی مال کے لیے مخصوص ہے۔
اب رات گہری ہو رہی تھی اور مال کی دکانیں بند ہونے لگی تھیں۔ عمران نے کہا اب مال بند ہونے کا وقت ہو گیا ہے‘ ہمیں بھی چلنا ہو گا۔ یہاں سے عجمان کا فاصلہ تقریباً آدھ گھنٹے کا تھا۔ عمران اور طوبیٰ کا اپارٹمنٹ سمندر کے بالکل قریب ایک بلند و بالا عمارت کی ستائیسویں منزل پر ہے۔ اپارٹمنٹ کی بالکنی سے سمندر اور ساحل سے دم توڑتی لہریں صاف نظر آتی ہیں۔ اس وقت رات کا عالم تھا اور سمندر میں دور اکا دُکا روشنیاں ٹمٹماتی نظر آ رہی تھیں۔ عمران اور طوبیٰ تقریباً پندرہ سال پہلے دبئی آئے تھے اور کچھ ماہ پہلے ہی عجمان شفٹ ہوئے تھے۔ ان کا بیٹا فائز آج کل یونیورسٹی آف ٹورونٹو میں پڑھ رہا ہے۔ طوبیٰ نے مجھے میرا کمرہ دکھایا جس کی شیشے کی دیوار سے سمندر صاف نظر آرہا تھا۔ آج سمندر زیادہ رف (Rough) ہو رہا تھا‘ اس کی لہروں کی آواز کمرے میں صاف سنائی دے رہی تھی۔ کمرے میں سامان رکھ کر میں لاؤنج میں آگیا۔ اب رات کافی گزر چکی تھی لیکن عمران کا خیال تھا کہ نیٹ فلیکس پر کوئی فلم دیکھی جائے۔ طوبیٰ جھٹ سے چائے کے تین کپ بنا لائی اور بالکنی کے دروازے کا پردہ ہٹا دیا۔ اب کھلے دروازے سے سمندر کی نم ہوا اور غصیلی لہروں کا شور لاؤنج میں آرہا تھا‘ فیصلہ ہوا کہ نیٹ فلیکس پر حقیقت پر مبنی سنسنی خیز ڈرامہ: MH370: The Plane That Disappeared دیکھا جائے۔ یہ ملائیشیا سے چین جانے والی اس پرواز کے حوالے سے ہے جو 8مارچ 2014ء کو ملائیشیا کے ائیرپورٹ کوالالمپور سے بیجنگ کے لیے روانہ ہوئی اور جب ملائیشیا کی حدود کے بعد چین کی فضاؤں میں داخل ہونے لگی تو یک لخت اس کا رابطہ کنٹرول ٹاور سے منقطع ہو گیا۔ یہ ایک بوئنگ 777 جہاز تھا جس پر 239 لوگ سوار تھے۔ یہ تین حصوں پر مبنی ایک ڈاکو منٹری ہے جس میں جہاز کے غائب ہونے کے بارے میں ممکنہ وجوہات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے۔ یہ ڈاکومنٹری اتنی سنسنی خیز تھی کہ ہم اردگرد سے بے خبر ہو گئے۔ رات گئے تک ہم نے اس کے تینوں حصے دیکھ لیے تھے۔ جب میں اپنے کمرے میں گیا اور کمرے کی لائٹ آف کرکے بستر پر سونے کے لیے لیٹا تو سمندر کی پُرشور لہروں کی آوازیں اور تیز ہوگئیں۔ مجھے سری لنکا کی وہ رات یاد آگئی جب میں ایک کانفرنس کے سلسلے میں سمندر کے کنارے ایک ہوٹل میں مقیم تھا جس کی دیواروں سے سمندر کی لہریں ٹکراتی تھیں۔ آج کی رات بھی ویسی ہی تھی۔ سمندر کی لہروں کی آوازیں سنتے سنتے نیند نے مجھے اپنی آغوش میں لے لیا۔ اگلے روز ہفتے کا دن تھا‘ عمران کو آفس نہیں جانا تھا اس لیے وہ ابھی تک سو رہا تھا۔ میں اپنے کمرے سے نکل کر لاؤنج میں آگیا جس کی بالکنی کا دروازہ کھلا تھا۔ میں بالکنی میں بچھی کرسی پر بیٹھ گیا اور اپنے سامنے دور تک پھیلے ہوئے سمندر کے پانی کو دیکھنے لگا جس کی سطح پر صبح کی روشنیاں تھرک رہی تھیں۔ سمندر کی نم ہوا چل رہی تھی‘ میں دور دور تک پھیلے پانیوں کے سحر میں گم تھا کہ لاؤنج میں کسی کے چلنے کی آواز آئی۔ یہ طوبیٰ تھی جو چائے کے دو کپ لے کر بالکنی کی طرف آرہی تھی۔ اس نے میز پر دونوں کپ رکھے اور دوسری کرسی پر بیٹھ گئی۔ مجھے سمندر کے سحر میں گم دیکھ کر اس نے پوچھا: آپ کی رات کیسے گزری؟ نیند آگئی تھی؟ آپ کب بیدار ہوئے؟ میں نے کہا: نیند تو اچھی آگئی تھی لیکن صبح عادت کے مطابق جلدی اُٹھ گیا اور یہاں بالکنی میں بیٹھ گیا اور سمندر کو دیکھنے لگا۔ طوبیٰ نے چائے پیتے ہوئے کہا: آپ کو پتہ ہے یہ سمندر کبھی یہاں کے لوگوں کے لیے معیشت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا؟ طوبیٰ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا: کبھی یہ سرزمین موتیوں کی تجارت کے لیے جانی جاتی تھی۔ دوسرے ممالک سے تاجر آتے اور یہاں کے باشندے بڑی تعداد میں سمندر کی سیپیوں سے موتی نکال کر انہیں بیچ دیتے۔ پھر یہاں کی سرزمین میں پٹرول کی موجودگی کی خبر ملی اور معیشت کا رُخ بدل گیا‘ لیکن یہاں کی تاریخ نے اس روز ایک اہم موڑ مڑا جب ابو ظہبی کے حکمران شیخ زاید نے مختلف امارات کو وفاق کی اکائی میں پرو دیا۔ یہ دو دسمبر 1971ء کا تاریخی دن تھا جب سات امارات متحدہ عرب امارات کے جھنڈے تلے آگئیں۔ اگلے سال 10فروری 1972ء کو آٹھویں امارت راس الخیمہ بھی اس فیڈریشن کا حصہ بن گئی۔ 2دسمبر 1971ء کے اہم دن کی مناسبت سے دبئی میں ایک سڑک کا نام 2دسمبر روڈ ہے۔ میں طوبیٰ کی زبانی متحدہ عرب امارات کی کہانی سن رہا تھا کہ عمران بھی بالکنی میں آگیا۔ طوبیٰ اس کے لیے چائے بنانے چلی گئی۔ عمران نے پوچھا: رات ٹھیک گزری؟ میں نے کہا: ہاں ایک تو دن بھر کی تھکن تھی اور پھر سمندر کی لہروں کی موسیقی۔ مجھے بہت اچھی نیند آئی۔ عمران نے کہا: ناشتہ ہم سمندر کے کنارے ایک ٹرکش ریستوران سلطان سرائے میں کریں گے۔ طوبیٰ عمران کے لیے چائے لے آئی۔ میں نے کہا: میں کپڑے بدل کر آتا ہوں۔ گرم پانی کے غسل سے تھکن دور ہو گئی۔ میں کپڑے بدل کر باہر آیا تو عمران اور طوبیٰ لاؤنج میں تیار بیٹھے تھے۔ گھر سے سلطان سرائے ریستوران صرف پانچ منٹ کے فاصلے پر تھا۔ یہ ہفتے کا دن تھا اور آج ریستوران میں خاصی رونق تھی۔ سمندر کی طرف گلاس وال کے ساتھ میز کے لیے ہمیں کچھ انتظار کرنا پڑا۔ طوبیٰ نے رائل بریک فاسٹ کا آرڈر دیا۔ یہ واقعی شاہی ناشتہ تھا جس میں کم از کم بیس مختلف ڈشز تھیں۔ ہم گلاس وال کے قریب میز پر بیٹھ گئے۔ میں نے گلاس وال سے باہر دیکھا۔ جہاں دور دور تک سمندر پھیلا ہوا تھا۔ سمندر کی پُرشور لہریں دور سے آتیں اور ایک شور سے ہوٹل کی دیوار سے ٹکراتیں۔ اس شور کی اپنی موسیقی تھی۔ سب کچھ ایک خواب کا سا منظر لگ رہا تھا اور ہم سب اس خواب جیسے منظر کا حصہ بن گئے تھے۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں