"SSC" (space) message & send to 7575

اے آر رحمن: تخلیق کا بہتا دریا …(5)

چنائی کے سٹوڈیو میں رحمن کا پرانا دوست بالابھرت رحمن کے لیے ایک تجویز لایا تھا کہ ایک ایسی البم بنائی جائے جسے لوگ مدتوں یاد رکھیں۔ یہ تجویز اے آر رحمن کے دل کی آواز تھی مگر اس کے لیے یہ فیصلہ اتنا آسان نہ تھا۔ فلموں کی بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ البم کے لیے وقت نکالنا مشکل تھا لیکن رحمن نئے چیلنج قبول کرنے میں لذت محسوس کرتا تھا۔ اس نے بھرت بالا سے کہا: ٹھیک ہے ہم البم پر کام کریں گے۔ بھارت کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر اس البم کو ریلیز کرنا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ یومِ آزادی کی مناسبت سے ایک گیت وطن کی محبت کے حوالے سے ہونا چاہیے۔کہتے ہیں موسیقی کی دُھن بھی ایک نازک خیال کی مانند ہوتی ہے جو کبھی توفوراً سوجھ جاتا ہے اور کبھی کوشش کے باوجود ہاتھ نہیں آتا۔ دن، ہفتے اور مہینے گزر رہے تھے۔ رحمن اور بھرت بالا سٹوڈیو کے فرش پر بیٹھے ایک ایسی دھن کی تلاش میں تھے جو ہاتھ نہیں آرہی تھی۔ اسی تگ و دو میں آٹھ مہینے گزر گئے۔پھر اچانک ایک رات ان کی مراد بر آئی۔ وہ رمضان کا مہینہ تھا۔ رحمن نماز اور روزے کی سخت پابندی کرتا ہے۔ اُس رات وہ جلدی سو گیا کیونکہ اسے اگلے روز سحری کے لیے جلدی بیدار ہونا تھا۔ رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا جب اچانک اس کی آنکھ کھل گئی۔ اسے یوں لگاکہ وہ دُھن جس کی تلاش میں وہ کئی مہینوں سے سرگرداں تھا خود چل کر اس کے پاس آگئی ہے۔ اس نے اپنے دوست بھرت بالا کو جگایا۔ سٹوڈیو میں اور کوئی نہ تھا۔ رحمن صبح تک انتظار نہ کر سکتا تھا‘اس نے اپنے دوست بھرت بالا کو ریکارڈنگ کی بنیادی باتیں بتائیں اور خود سٹوڈیو چلا گیا اس نے موسیقی کے بغیر گیت کی پہلی سطر '' ماں تجھے سلامـ‘‘ گائی۔ اس کی آواز میں ایک ناقابلِ بیان جذبہ تھا جس کی تپش سے لفظ پگھل رہے تھے اور سننے والا اس جذبے کی حدت اپنے دل میں محسوس کر رہا تھا۔ جب رحمن سٹوڈیو سے باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا دوست بھرت بالا فرطِ جذبات سے رو رہا تھا۔ اس نے اشکبار لہجے میں رحمن سے کہا :یہی وہ دُھن ہے جس کی ہمیں تلاش تھی۔ اُس رات رحمن نے جس سٹائل میں گایا تھا اس کو گانے میں اسی حالت میں برقرار رکھا گیا۔ اس البم کا نام بندے ماترم رکھا گیا۔ اس البم میں ایک گیت رحمن اور استاد نصرت فتح علی خان نے مل کر گایا تھا۔ رحمن کو یاد ہے کہ 1997ء میں اُس کی نصرت فتح علی خان سے بمبئی کے ایک ہوٹل میں ملاقات ہوئی تھی۔ رات کے اڑھائی بج رہے تھے۔ رحمن نصرت فتح علی خان کا پرستار تھا‘ اس کی درخواست پر نصرت نے اپنے سازندوں کو جگایا اور ہوٹل کے کمرے میں گائیکی کی محفل جم گئی۔ رحمن کی روح میں شروع ہی سے تصوف کا رنگ تھا جو وقت کے ساتھ گہرا ہو رہا تھا۔اب اس کی دلچسپی قوالی میں تھی اور وہ چاہتا تھا کہ قوالی کے اسرار و رموز نصرت فتح علی خان سے سیکھے۔ ہندوستان کی پچاسویں یوم آزادی کے موقع پر اس البم کی رونمائی ہوئی۔ البم کے گیت ''ماں تجھے سلام‘‘جو رحمن کی آواز میں ہے‘ نے ریلیز ہوتے ہی ہلچل مچا دی۔ اب بھی کنسرٹ کے دوران رحمن جب یہ گیت گاتا ہے تو سننے والوں کا جذبہ قابلِ دید ہوتا ہے۔ یوں 1997ء میں اس البم کے ذریعے رحمن کا تذکرہ ہندوستان کے گھر گھر پہنچ گیا۔
رحمن کی محنت اور موسیقی میں نئے پن کی تلاش رنگ لا رہی تھی۔ اب اس کی موسیقی ہندوستان کی سرحدیں پار کر کے مغرب میں اپنا رنگ جما رہی تھی۔ اس کی ایک بڑی وجہ رحمن کا مغربی سازوں کا استعمال اور اس کی مشرق اور مغرب کے امتزاج سے پھوٹنے والی دلربا دُھنیں تھیں۔ اے آر رحمن کی تمنا کا اگلا قدم عامر خان کی فلم ''لگان‘‘ تھی یہ عام ڈگر سے ہٹ کر فلم تھی جس کی کہانی انگریز حکمرانوں اور عام ہندوستانیوں کی تھی۔ اس فلم میں رحمن نے انتہائی مہارت سے مشرق اور مغرب کی موسیقی کو یکجاکیا تھا۔ یہ فلم اپنی کہانی اور دل کش موسیقی کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ 2002ء میں بہترین غیر ملکی فلم کی کیٹیگری میں ''لگان‘‘ کو آسکر ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا جو رحمن کے لیے بڑا اعزاز تھا۔
اے آر رحمن ایک کے بعد ایک فلم میں اپنی دل کش دُھنوں سے لوگوں کو مسحور کر رہا تھاجن میں تال، ساتھیا، رنگ دے بسنتی، گرو، سوادیس، جانے تو یا جانے نا ا ور بھگت سنگھ شامل ہیں۔ رحمن کے تخلیقی سفر کا اگلا پڑاؤ Bombay Dreams تھا جس کے لیے دنیا ئے موسیقی کے معروف نام Andrew Lloyd نے اس سے رابطہ کیا تھا۔ یہ رحمن کے لیے اعزاز کی بات تھی اور پھر Slumdog Millionaireمیں اسے موسیقی دینے کا موقع ملا۔ اس فلم کے گیت اور ساؤنڈ ٹریک بہت منفرد تھے۔ آخر 2009ء میں وہ دن آ ہی گیا جب رحمن کی فنی صلاحیتوں کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا اور اسے دو آسکر ایوارڈ ز سے نوازا گیا۔ ایک ایوارڈ Slumdog Millionaireمیں بہترین گانے اور دوسرا ایوارڈ اسی فلم میں بہترین او ریجنل ساؤنڈ ٹریک پر۔ اس روز سٹیج پر آسکرایوار ڈ ہاتھوں میں تھامے اس کے دل کی عجیب سی کیفیت تھی‘ سامعین میں اس کی ماں بھی بیٹھی تھی۔ رحمن نے سب کا شکریہ ادا کیا اور بس اتنا کہا یہ سب اللہ کی وجہ سے ہے۔
رحمن کی کامیابی کا راز کیا ہے؟ اس سوال کے کئی جواب ہو سکتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ رحمن نے جدت اور نئے پن کی تلاش میں بلا خوف نت نئے تجربات کیے۔ نوجواں رحمن کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ تھا کہ کیسے وہ راجہ کے اثر سے نکلے جو اُس زمانے میں تامل فلموں کا مقبول ترین میوزک ڈائریکٹر تھا۔ رحمن نے اپنی پہلی ہی فلم ''روجا‘‘ میں یہ ثابت کر دیا کہ وہ کسی کے زیر اثر نہیں اور اس کا اپنا اسلوب ہے۔ رحمن کا طریق کار راجہ سے بالکل مختلف تھا۔راجہ کے برعکس رحمن کوئی دھن بناتا تو گلوکاروں اور سازندوں کو اس میں تبدیلیوں کی آزادی ہوتی۔ رحمن اپنے سٹوڈیو میں دلچسپ تجربات کرتا ایک بار لتا اس کے سٹوڈیو میں ایک گیت گانے کے لیے آئی۔ گیت گانے سے پہلے وہ ایک کونے میں ریہرسل کر رہی تھی۔ اسے معلوم نہ تھا کہ اس وقت اس کی آواز ریکارڈ ہو رہی ہے جب لتا نے ریہرسل مکمل کی تو بتایا کہ وہ گانے کے لیے تیار ہے۔ تب اسے پتا چلا کہ اس کا گانا تو پہلے ہی ریکارڈ ہو گیا ہے۔ معروف گلوکارہ الکا نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ ''تال‘‘ فلم کے ایک گانے کے لیے سٹوڈیو گئی‘ اس نے تین چار مرتبہ گانا گایا تو رحمن نے کہا بالکل ٹھیک ہے۔ سٹوڈیو سے نکلتے ہوئے الکامطمئن نہیں تھی لیکن جب گانا تیار ہو کر آیا تو اسے سُن کر خوشگوار حیرت ہوئی۔ ایک بار ایک گلوکار سٹوڈیو میں تھا رحمن نے کوئی لطیفہ سنایا اس پر گلوکار کھل کر ہنسا۔ بعد میں رحمن نے اسی گلوکار کے ایک گانے میں اس کی فطری ہنسی کو استعمال کیا۔ اسی طرح بمبئی فلم میں ''تو ہی رے‘‘ گانے میں رحمن نے گلوکار کی breathingکو استعمال کیا کیونکہ اس فلم میں کردار کے passionکا تقاضا تھاکہ گانے میں اس کی سانسوں کی آواز سنائی دے۔ دراصل رحمن کے کام کا طریقہ سب سے جدا ہے۔ اس کے سٹوڈیو میں جدید ترین آلات ہیں جن کی مدد سے وہ آواز کے ٹکڑوں کو مہارت سے ایک خاص ترتیب دیتا ہے اور گیت گانے والا خود بھی حیران رہ جاتا ہے۔ اب رحمن کی تمنا کی پرواز کسی اور آسمان کی تلاش میں تھی۔ ایک ایسا آسمان جس کی وسعتیں اور رفعتیں اور جس کی فضائیں اور منظر سب سے مختلف ہوں۔(جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں