یہ فلمی دنیا میں اے آر رحمن کا زمانہ تھا۔ وہ اپنے نئے اسلوب اور منفرد دھنوں کی بدولت موسیقی کے آسمان پر جگمگا رہا تھا لیکن کہتے ہیں ایک تخلیقی آرٹسٹ کے نئے پن کا دورانیہ زیادہ طویل نہیں ہوتا۔ رحمن کا بھی یہی حال ہے‘ وہ مسلسل نئے جہانوں کی تلاش میں رہتا ہے۔ رحمن نے اپنی فنی زندگی کے سفر میں اہم سنگِ میل عبور کر لیے تھے۔ رحمن نے چھ مرتبہ نیشنل فلم ایوارڈ جیتا۔ عالمی سطح پر اسے دو آسکر ایوارڈر اور دو گریمی ایوارڈز کا حق دار ٹھہرایا گیا۔ اس کیساتھ اسے ایک BAFTAایوارڈ‘ گولڈن گلوب ایوارڈ‘ 15 فلم فیئر ایوارڈ اور17 فلم فیئر ایوارڈز (ساؤتھ) بھی ملے۔ قومی سطح پر اس کی فنی صلاحیتوں کے اعتراف میں پدم بھوشن ایوارڈ دیا گیا۔ لیکن رحمن اب بھی نئے جہانوں کی تلاش میں تھا۔ ایک روز اچانک اس نے اعلان کیا کہ وہ فلم بنانا چاہتا ہے جس کی ہدایات بھی وہ خود دے گا۔ یہ سُن کر اس کے دوست حیران رہ گئے۔ سب کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ رحمن کو فلم بنانے کی کیا ضرورت ہے‘ وہ تو بنیادی طور پر ایک میوزک ڈائریکٹر ہے جس نے موسیقی کی دنیا میں کامیاب تجربات کیے۔ دولت‘ عزت اور شہرت کے ہوتے ہوئے اسے فلم بنانے کی کیا ضرورت ہے اور پھر وہ اپنی مصروفیات سے فلم کی ہدایات کے لیے وقت کہاں سے لائے گا؟ یہ سب باتیں اپنی جگہ درست تھیں لیکن رحمن کچھ نیا کرنا چاہتا تھا۔ فلم بھی ایسی جو سب سے ہٹ کر ہو۔ اس فلم کا آئیڈیا بھی اچانک اس کے ذہن میں آیا۔ رحمن کی بیوی سائرہ بانو کو Scentsسے خاص لگاؤ ہے۔ اس کے پاس دنیا بھر کی خوشبوئیں ہیں۔ خوشبو ہی اس کی نئی فلم LeMuskکا مرکزی خیال بنی۔ اس فلم کا کل دورانیہ 37منٹ ہے لیکن یہ عام فلم نہیں بلکہ Virtual Reality کے میڈیم میں ہے۔ فرانس میں کانز کے فلمی میلے میں اس کی نمائش کی گئی۔ یہ فلم دیکھنے کے لیے مخصوص کر سیاں تیار کی گئیں۔ تماشائیوں کو فلم دیکھنے کے لیے خاص قسم کی عینکیں دی گئیں۔ کرسیاں خود بخود حرکت کرتی تھیں اور فلم میں خاص مواقع پر جب خوشبو کا کوئی منظر آتا تو کرسیوں سے وہی خوشبو پھوٹتی۔ یوں فلم کو تماشائیوں کے حواس (senses) سے جوڑا گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی رحمن نے دو اور فلمیں One Heart اور 99 Songs بنائیں۔ One Heartرحمن کے فن کے حوالے سے ایک documentary ہے۔ یہ تینوں فلمیں رحمن نے اپنے تخلیقی ذوق کی تسکین کے لیے بنائی تھیں۔ کچھ نیا‘ کچھ مختلف کرنے کی خواہش رحمن کی شخصیت کا حصہ ہے۔ رحمن کے لڑکپن کے دوست جانتے ہیں کہ بچپن سے ہی اسے دوسروں سے مختلف نظر آنے کا جنون تھا۔ کبھی وہ اپنے بالوں کا سٹائل بدل لیتا‘ کبھی بال لمبے رکھ لیتا‘ کبھی انہیں رنگ لیتا ‘ کبھی کپڑوں کا سٹائل مختلف کر لیتا اور اپنے موسیقی کے آلات مختصر وقفوں سے بدلتا رہتا۔
اس کی منفرد رہنے کی خواہش اب تک اس کیساتھ ہے۔ وہ ایک منظر میں زیادہ دیر رہے تو بور ہو جاتا ہے۔اسی لیے وہ ہر دم نئے منظروں کے دریچے کھولتا رہتا ہے۔ اس کی شخصیت کے کئی روپ ہیں۔ وہ موسیقار بھی ہے‘ گلوکار بھی۔ نغمہ نگار بھی‘ فلم کا کہانی کار بھی اور فلم کا ڈائریکٹر بھی۔ اس کے فنی سفر کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کسی ایک پڑاؤ پر وہ کبھی قیام نہیں کرتا ہے۔ کبھی وہ بڑے موسیقاروں کے ہاں قلیل معاوضے پر کمپوز رکا کام کرتا تھا‘ پھر وہ jinglesکی دنیا میں آیا تو یہاں اپنے کمالِ فن کے جوہر دکھائے۔ jinglesسے وہ تامل فلموں کی دنیا میں آیا تو سب کو چونکا دیا۔ پھر '' رنگیلا ‘‘فلم کی موسیقی نے اسے جنوبی ہندوستان کی سرحدوں سے نکال کر اَن گنت پرستاروں سے روشناس کرایا۔ اب اس کے سفر کا اگلا پڑاؤ Bombay Dreamsتھا۔ Slumdog Millionnaireکی صورت میں ایک ایسا تجربہ جس کی بدولت اسے دو اکیڈمی ایوارڈ ملے۔ اور پھر فنی سفر کا ایک اور سنگِ میل جب اس نے انتہائی منفرد فلموں کی ہدایت کاری کا فیصلہ کیا۔
1967ء میں پیدا ہونے والا رحمن‘ جس کے پاس سکول کی فیس کے پیسے نہیں تھے اور جو والد کی وفات کے بعد بھری دنیا میں اکیلا رہ گیا تھا‘اب ہندوستان کے امیر ترین شہریوں میں شمار ہوتا ہے۔ عزت‘ دولت اور شہرت سب اس کی دہلیز پر میسر ہیں۔ وہ سٹوڈیو جو اس کی ماں نے لوگوں سے ادھار لے کر اور اپنا زیور بیچ کر بنایا تھا‘ اب کئی گنا وسیع ہو گیا ہے جس میں موسیقی کے جدید ترین آلات ہیں۔ کچھ فاصلے پر اس کی فلم پروڈکشن کی عظیم الشان عمارت ہے۔ اسی طرح بمبئی کے اپارٹمنٹ بلڈنگ کی اٹھارہویں منزل پر اس کے دفاتر ہیں۔ اس کا ہر دم نئے جہانوں کی تلاش کا سفر جاری ہے۔ اسی لیے اسے موسیقی کا ابنِ بطوطہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سفر میں رحمن کی ماں اس کی ہم سفر رہی۔ رحمن کی شادی سائرہ بانو سے ہوئی جو اس کی موسیقی کی پرستار تھی اور اس کی ماں کا انتخاب تھی۔ رحمن کے تین بچے ہیں‘ بیٹے کا نام امین اور دو بیٹیوں کے نام خدیجہ اور رحیمہ ہیں۔ رحمن کے تازہ گیتوں مثلاً عرضیاں‘ کن فیکون‘ خواجہ میرے خواجہ میں تصوف کارنگ صاف نظر آتا ہے ۔
رحمن کا کہنا ہے کہ زندگی موسیقی کی ایک دُھن ہے اور اس دُھن سے زیادہ خوبصورت کوئی اور دُھن نہیں اور زندگی ایک گیت کی مانند ہے جسے ہم خود کمپوز کرتے ہیں۔اس کے خیال میں ایک میوزک ڈائریکٹر کو زندگی اور فلسفے میں دلچسپی ہونی چاہیے اور اس کی ذاتی زندگی میں دل کے کسی کونے میں ایک اداسی کا رنگ ہونا چاہیے۔ رحمن کی زندگی میں اداسی کی یہ زیریں لہر نہ جانے کب سے اس کے ہمراہ چل رہی ہے۔ میری رحمن کی موسیقی سے شناسائی ان دنوں میں ہوئی جب میں یونیورسٹی آف ٹورونٹو میں پڑھ رہا تھا۔ انہیں دنوں فلم '' روجا‘‘ ریلیز ہوئی تھی اور اس کے گیت '' دل ہے چھوٹا سا چھوٹی سی آشا‘‘ نے سب کو چونکا دیا تھا۔ یہ میرا رحمن سے پہلا تعارف تھا پھر فلم ''گُرو‘‘ کے ایک گیت ''جاگے ہیں دیر تک ہمیں کچھ دیر سونے دو‘‘ جسے گلزار نے تحریر کیا اور جس کی موسیقی رحمن نے دی تھی ‘نے ایک عرصے تک مجھے اپنے سحر میں رکھا۔ پھر ایک دن ایک عزیز دوست نے مجھے اے آر رحمن کی سوانح حیات A R Rahman: The Musical Stormکا تحفہ دیا جسے کامنی متھانی (Kamini Mathani)نے تحریر کیا تھا۔ یہ ایک معلوماتی اور دلچسپ کتاب تھی لیکن اس میں صرف 2008ء کے واقعات کا احاطہ کیا گیا تھا۔ تب مجھے کتابوں کی ایک دکان پر کرشنا تری لوک (Krishna Trilok)کی نئی کتاب A. R. Rahman: Notes of a Dreamنظرآئی۔ ان کتابوں کے علاوہ میں نے اے آر رحمن کے حوالے سے متعدد انٹرویوز دیکھے۔ا س کے گیتوں کو سنا ۔یوں میں نے اے آر رحمن کی زندگی کی کہانی اور فنی سفر کو کئی زاویوں سے دیکھا۔مجھے یوں لگا کہ یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو زندگی میں نئے پن کی تلاش میں محوِ سفر ہے۔ ایک بار اس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ مجھے یوں لگتا ہے یہ زندگی ایک گہرے سمندر کا سفر ہے اور میں ایک کشتی میں جا رہا ہوں‘ سمندر کے اس سفر میں ایک کے بعد دوسرا جزیرہ آتا ہے اور یہ سفر ختم ہونے میں نہیں آتا۔رحمن کی باتیں سُن کر میں سوچتا ہوں زندگی واقعی حرکت‘ خوبصورتی ‘ نئے پن اور خوابوں کی تلاش کا سفر ہے۔یہ ایک ست رنگا خواب ہے جس کی تعبیر کی تلاش ہمیں ہر دم بے چین رکھتی ہے۔کہتے ہیں جہاں ایک خواب کی سرحد ختم ہوتی ہے وہاں سے ایک نئے خواب کا آغاز ہوتا ہے۔ ایک خواب کے چراغ سے دوسرا چراغ جلتا ہے۔حدِنظر تک دم بدم روشن ہوتے انہی جھلمل چراغوں کا نام زندگی ہے۔