پنجابی کی معروف گلوکارہ سریندر کور سے میرا رشتہ بہت پرانا ہے۔ میرے بچپن کے سنہری دنوں سے لپٹا ہوا۔ وہ بھی کیسے دن تھے جب ہم بچے گاؤں میں ہونے والی شادیوں کا بے تابی سے انتظار کرتے۔ شادی والے دن دلہن کی ڈولی پر سے پیسے لٹائے جاتے تو ہم ڈولی کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ہوا میں اُڑتے ہوئے سکوں کو اپنی ہتھیلیوں میں دبوچ لیتے۔ تب گاؤں میں لڑکیوں کی شادیاں اداسی کی فضا سے جڑی ہوتیں۔ والدین کو یوں لگتا جیسے بیاہی جانے والی لڑکی ہمیشہ کے لیے پرائی ہو گئی ہے۔
گاؤں کی شادیوں میں گیت گائے جاتے۔ گاؤں میں اس زمانے میں کچھ لوگوں کے پاس گرامو فون ریکارڈ ہوتے تھے جنہیں شادیوں میں چلایا جاتا تھا۔ اسی طرح کی ایک شادی کی تقریب میں مَیں نے ایک گیت سنا تھا۔ کیا آواز تھی‘ ایک جادو بھری آواز۔ گیت کے بول تھے ''ماواں تے دھیاں رَل بیٹھیاں نے مائے‘ کوئی کر دیاں گلاں اڑیاں‘‘ (مائیں اور بیٹیاں مل کر بیٹھی ہیں اور آپس میں دل کی باتیں کر رہی ہیں)۔ مجھے یاد ہے اس گیت نے ساری فضا کو اداس بنا دیا تھا۔ میں نے اپنی ماں کو دیکھا جس کی آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو اس کے چہرے کو بھگو رہے تھے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ کوئی عام گیت نہیں ہے۔ اس میں کوئی خاص بات ایسی ہے جو دل کے تاروں کو چھو رہی ہے۔ اس وقت مجھے علم نہیں تھا یہ گیت کس نے گایا۔ بہت بعد میں پتا چلا کہ اس گیت کو دو بہنوں پرکاش کور اور سریندر کور نے گایا تھا۔ پرکاش بڑی بہن تھی اور سریندر اس سے چھوٹی۔ یہ لاہور چوبرجی کے آریہ نگر محلے میں رہنے والا ایک سکھ گھرانا تھا جس کے سربراہ بشن داس تھے۔ جن کی بیوی کا نام مایا دیوی تھا اور جن کے پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیاں تھیں۔
سریندر کور 25نومبر 1929ء کو اسی گھرانے میں پیدا ہوئی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان کی یہ بیٹی ایک دن پنجاب کی کوئل کہلائے گی اور اس کی شہرت وقت اور جگہ کی قید سے آزاد ہو کر ہر طرف پھیل جائے گی۔ سریندر کور شروع سے ہی ایک بے قرار روح کی مالک تھی۔ نچلا بیٹھنا اس نے سیکھا ہی نہیں۔ شوخی اور شرارت اس کے اَنگ اَنگ میں بھری تھی۔ بشن داس ایک کالج میں پڑھاتے تھے۔ سریندر نے بچپن سے ہی اپنی بڑی بہن پرکاش کور کو اپنا آئیڈیل بنایا تھا۔ جسے گانے سے دلچسپی تھی اور اس نے باقاعدہ گانا سیکھا تھا۔ سریندر نے بھی اپنی بہن کو دیکھ کر گائیکی کی راہ اپنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ پرکاش کور کی آواز میں ایک خاص لوچ اور خوبصورتی تھی لیکن سریندر کور کی آواز میں ایک ایسا سحر تھا جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل تھا۔ استاد عنایت ان دونوں کے موسیقی کے استاد تھے۔ سریندر کو پہلی بار اپنی بڑی بہن پرکاش کور کے ساتھ ریڈیو پر گانے کا موقع ملا جہاں دونوں نے مل کر ماواں تے دھیاں رَل بیٹھیاں نے مائے‘‘ گایا۔ بعد میں معروف ریکارڈنگ کمپنی VHM میں اس گیت کو ریلیز کیا گیا۔ یہ گیت ریلیز ہوتے ہی جنگلی گلاب کی تیز خوشبو کی طرح پنجاب کے گلی کوچوں میں پھیل گیا۔ اُس وقت سریندر کی عمر محض 13یا 14سال تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب متحدہ ہندوستان کی فضاؤں میں شمشاد بیگم اورزینت بیگم کی آوازیں رَس گھول رہی تھیں۔ انہی آوازوں کے بیچ سریندر کی آواز کا دلکش شگوفہ کھلا ‘ جس نے ایک دن موسیقی کے چمن میں اپنی الگ شناخت بنانا تھی لیکن سریندر کور کی موسیقی کا سفر اتنا آسان نہ تھا۔ اس کے گھر سے ہی مزاحمت کا آغاز ہوا ۔ اس کے والد اس کی گائیکی کے حق میں نہیں تھے۔ ایسے میں سریندر کے ایک بھائی نے اپنی بہن کی خواہش کا ساتھ دیا اور یوں سریند کور اپنے خواب کی تعبیرکے سفر میں آگے بڑھنے لگی۔ سریندر اور پرکاش کور صرف گھر میں گاتیں یا پھر خاندان میں ہونے والی شادی کی تقریبات میں اپنے فن کے جوہر دکھاتیں۔ انہیں سرِ عام تقریبات میں گانے کی اجازت نہ تھی۔
سریندر کور کی سُریلی آواز بچپن سے ایسی میرے ہمراہ ہوئی کہ پھر ساری زندگی میرے ساتھ چلتی رہی۔ کیسے کیسے گیت تھے جو سریندر کور کی آواز کو چھو کر امر ہو گئے۔ ان گیتوں میں سادہ اور معصوم جذبوں کا اظہار ہوتا جو دل کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دیتے۔ مجھے سریندر کور کے چند گیت یاد آرہے ہیں جو سدا بہار گیت ہیں: ''ماواں تے دھیاں رَل بیٹھیاں نے مائے‘‘‘ ''کالا ڈوریا کُنڈے نال اَڑیا ای اوئے‘‘‘ ''لٹھے دی چادر اُتے سلیٹی رنگ ماہیا‘‘‘''ڈاچی والیا موڑ مہار‘‘‘ ''اکھیاں چ توں وسدا‘‘‘ ''باری برسی کھٹن گیا تے‘‘‘ ''چن کتھے گزاری آ رات وے‘‘‘ ''جُتی قصوری پیریں نہ پوری‘‘ اور ''اک میری اکھ کاشنی‘‘ جنہیں سریندر کے بعد کئی اور فن کاروں نے بھی گایا ہے۔ پاکستان میں فلمی دنیا کی اداکارہ مسرت نذیر نے سریندر کے گیتوں کو گایا اور خوب مقبولیت حاصل کی۔ سریندر کور نے ایک سے بڑھ کر ایک گیت گائے جو زمان و مکاں کی سرحدوں سے آزاد ہو کر امر ہو گئے۔
لاہور میں گھر کے لاؤنج میں بیٹھے بیٹھے میں نے سوچا سریندر کور پر لکھنا مجھ پر قرض ہے سو میں نے مختلف ذرائع سے سریندر کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کر دیں۔ اسی دوران اگست کے مہینے میں ٹورونٹو میں مقیم میرے بیٹے صہیب نے مجھے چھٹیاں گزارنے کے لیے اپنے پاس بلا لیا۔ سفر کے دوران میں اپنی نوٹ بک اپنے ساتھ لے گیا جس میں سریندر کور کے حوالے سے نوٹس تھے۔ تب مجھے پتا چلا کہ سریندر کور کی ایک بیٹی ڈولی گلیریا ہے جو پنجابی کے لوک گیت گاتی ہے اور جس کی آواز میں اپنی ماں کی آواز کا رَس ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ سریندر کے گھرانے میں سُر کے سفر کا یہ سلسلہ یہاں رُکا نہیں۔ ڈولی گلیریا کی بیٹی سنینی (Sunaini) بھی اپنی نانی اور ماں کے قدموں پر چلتی ہوئی موسیقی کی دنیا میں داخل ہو گئی۔ وہ بھی پنجابی گیت کو بہت رچاؤ سے گاتی ہے۔ تحقیق کے دوران پتا چلا کہ سنینی بھارتی پنجاب کے شہر چندی گڑھ میں رہتی ہے۔ اس سے رابطہ کیسے ہو؟ ایسے میں مجھے اپنے دوست احمد رضا پنجابی کا خیال آیا جو لاہور کا باسی ہے اور پنجابی زبان اور تہذیب جس کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ میری درخواست پر اس نے مجھے بھارت کی معروف پنجابی‘ اردو اور انگریزی شاعرہ لِلی سوارن (Lily Swarn) کا فون نمبر دیا۔ شاید اس سے سنینی (Sunaini) کا پتا مل سکے۔ میں نے لِلی کو فون کیا اور اپنا تعارف کرا کے مدعا بیان کیا۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی‘ وہ ٹھیٹھ پنجابی کے ساتھ ساتھ خوبصورت اردو بھی بول سکتی تھی۔ اس نے پوچھنے پر بتایا کہ سنینی اس کی دوست ہے‘ اس نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اپنے خاندان کی موسیقی کی شاندر روایت کو آگے بڑھا رہی ہے۔ میری درخواست پر للی نے مجھے سنینی کا نمبر بھیج دیا۔ اب میرے پاس سریندر کور کی نواسی سنینی کا نمبر آچکا تھا۔ میں نے وٹس ایپ پر سنینی کو پیغام بھیجا کہ میں سریندر کور کے حوالے سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ واٹس ایپ پر پیغام بھیج کر میں کمرے سے باہر کا منظر دیکھنے لگا جہاں ٹورونٹو کا آسمان بادلوں سے گھر گیا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے بارش کا سماں بن رہا تھا۔ تب اچانک مجھے اپنے فون پر نوٹیفکیشن کی آواز آئی‘ میں نے دیکھا تو فون کی سکرین پر سنینی کا نام جھلملا رہا تھا۔ (جاری)