"SSC" (space) message & send to 7575

استاد بڑے غلام علی خان: کچھ یادیں کچھ باتیں

قصور لاہور سے مشرق کی طرف ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے۔ یہ قصبہ کیسے کیسے نامور لوگوں کا مسکن رہا ہے۔ یہیں پر بابا بلھے شاہ کا قیام رہا اور آخری قیام گاہ ہے۔ کہتے ہیں قصور کی مٹی میں خوشبو اور فضاؤں میں نغمگی گھلی ہوئی ہے۔ اسی لیے تو یہاں استاد غلام علی خان‘ استاد برکت علی خان اور ملکہ ترنم نور جہاں جیسے فن کار پیدا ہوئے جنہوں نے موسیقی کی دنیا کو باثروت بنا دیا۔ یہی قصور تھا‘ اسی قصور کا ایک محلہ اور اس محلے کی ایک گلی‘ جو موسیقی کے حوالے سے جانی جاتی تھی۔ یہیں ایک گھر میں استاد علی بخش خان رہتے تھے جو موسیقی میں استاد کا درجہ رکھتے تھے۔ استاد علی بخش اپنے فن میں یکتا تھے۔ ان کے چھوٹے بھائی استاد کالے خان بھی موسیقی کے فن میں استاد تھے۔ پنجاب کے اس چھوٹے سے قصبے میں موسیقی کے یہ دو استاد اپنی مثال آپ تھے۔ لیکن قصور کا نام موسیقی کے معروف گھرانوں میں اجنبی تھا۔ دوسرے لفظوں میں کام سے زیادہ نام کی اہمیت تھی‘ تب استاد علی بخش اور استاد کالے خان نے پٹیالہ گھرانے کے علی بخش اور فتح علی خان کی شاگردی اختیار کی۔ اب ان کا گھرانہ قصور‘ پٹیالہ گھرانہ بن گیا اور یہی ان کی پہچان بن گئی۔
استاد بڑے غلام علی خان کون تھے؟ ان کی زندگی کا سفر کن کن راہوں سے گزرا؟ کیسے وہ موسیقی کی سلطنت کے مہاراجہ بنے؟ کیوں لاہور سے بمبئی چلے گئے؟ اور کس طرح انہوں نے ساری زندگی وہیں بتا دی؟ استاد غلام علی کی زندگی کے درو بام تک رسائی مجھے ایک کتاب نے دی‘ یہ کتاب استاد بڑے غلام علی خان کی ایک شاگردہ مالتی گیلانی کی یادداشتوں پر مبنی ہے۔ مالتی گیلانی کی ان یادداشتوں کو اردو کی معروف ناول نگار اور''آگ کا دریا‘‘ کی خالق محترمہ قرۃ العین حیدر نے انگریزی میں لکھا تھا‘ اس کا اردو ترجمہ محمود احمد مودی نے کیا جسے معروف محقق اور ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے شائع کیا اور میری خواہش پرمجھے یہ کتاب بھیجی۔
استاد علی بخش خان کے تین بیٹے تھے۔ غلام علی خان‘ برکت علی خان اور امانت علی خان۔ غلام علی کی عمر صرف پانچ برس تھی جب اس کے والد استاد علی بخش نے اسے موسیقی کی تعلیم دینے کا آغاز کیا۔ علی بخش ٹھمری‘ خیال اور ترانہ کے ماہر تھے۔ ننھا غلام علی موسیقی کے اس سفر پر کچھ ہی آگے بڑھا تھا کہ علی بخش کو جموں کے راجہ کے دربار میں نوکری مل گئی لیکن ایسے میں غلام علی کا ہاتھ اس کے چچا اور اس وقت کے موسیقی کے معروف استاد کالے خان نے تھام لیا۔ استاد کالے خان فنی اعتبار سے استاد علی بخش خان سے کسی طور کم نہ تھے‘ بلکہ چند قدم آگے تھے۔ استاد کالے خان کا کوئی بیٹا نہیں تھا اس لیے اس نے استاد بڑے غلام علی کو اپنا بیٹا بنا لیا اور موسیقی کے فن کے لعل و جواہر سے غلام علی کا دامن بھرنے لگے۔ غلام علی کو موسیقی سے محبت تھی جس کے لیے سخت محنت کو انہوں نے اپنا معمول بنا لیا۔ غلام علی کے فن میں مختلف رنگوں کا امتزاج دیکھا جا سکتا ہے۔ ان میں ان کے والد استاد علی بخش خان‘ ان کے چچا کالے خان اور پھر پٹیالہ کے گھر کے رنگ شامل ہیں۔ غلام علی نے صرف ان رنگوں پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان میں اپنے منفرد رنگوں کا اضافہ کیا۔ اسی لیے غلام علی خان نے اپنے فن کو ''سب رنگ‘‘ سے تشبیہ دی۔ پھر ''سب رنگ‘‘ ان کا تخلص بن گیا۔ لیکن یہ تو ذرا بعد کی بات ہے۔ ابھی ہم غلام علی کے ابتدائی دور کا احوال سناتے ہیں۔ ابھی تو اس کہانی میں کتنے موڑ آئیں گے۔
غلام علی کی عمر 16برس کی ہو گی جب اس کے چچا اور موسیقی میں اس کے استاد کالے خان وفات پا گئے۔ غلام علی کے والد علی بخش قصور سے دور جموں میں تھے اور اس کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا۔ تب غلام علی کے دل میں اپنے باپ کا خیال آیا کہ کیوں نہ جموں جا کر اپنے والد کے پاس رہوں اور ان سے موسیقی سیکھوں۔ یہ سوچ کر اپنا سامان اٹھایا اور جموں کی راہ لی۔ سامان میں تھا ہی کیا‘ کپڑوں کے دو جوڑے اور سرمنڈل۔ اس سرمنڈل کی کہانی بھی بڑی دلچسپ تھی۔ ایک روز وہ بازار میں گھوم رہا تھا کہ ایک کباڑی کی دکان پر اسے ایک بربط نظر آیا۔ یہ موسیقی کا ایک روایتی ساز تھا۔ پوچھنے پر دکان دار نے اس کی قیمت پانچ روپے بتائی لیکن غلام علی کے پاس اتنی رقم نہیں تھی‘ اس نے بربط کو کئی بار اٹھایا اور پھر رکھ دیا۔ دکان دار نے اس کے شوق کو دیکھ کر کہا تم یہ بربط لے جاؤ اور جب کبھی تمہارے پاس پیسے ہوں تو دے دینا۔ اس بربط کو غلام علی نے سرمنڈل کا نام دیا اور پھر یہ اس کی عزیز ترین متاع بن گئی جو آخر دم تک ان کے ہمراہ رہی۔
ہاں تو ہم بات کر رہے تھے کہ چچا استاد کالے خان کی وفات کے بعد غلام علی نے جموں جانے کا فیصلہ کیا جہاں اُس کے والد استاد علی بخش راجہ کے دربار میں گویا تھے۔ جموں پہنچ کر غلام علی کو پتا چلا کہ اس کے والد نے وہاں دوسری شادی کر لی ہے۔ علی بخش نے غلام علی کو اپنے گھر رکھنے کے بجائے اپنی ایک شاگرد طوائف کے گھر بھیج دیا جو استاد علی بخش سے موسیقی کی تربیت حاصل کرتی تھی۔ علی بخش کچھ وقت نکال کر اپنے بیٹے کو موسیقی کی تربیت دینے کے لیے آتا۔ یوں غلام علی کی موسیقی کی تربیت کا سلسلہ جاری رہا۔
علی بخش اپنے بیٹے کی موسیقی کے ساتھ لگن اور مسلسل ریاض سے بہت خوش تھا‘ اس نے بیٹے کو کچھ نئے رموز سکھائے جن میں سات سروں کو اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر گانا شامل تھا۔ اس کی موسیقی کی زبان میں پلٹا کہتے ہیں۔ اب علی بخش اپنے بیٹے کی تربیت سے مطمئن تھے اور انہیں یقین تھا کہ وہ ایک دن اپنے گھرانے کا نام روشن کرے گا۔ پھر وہ دن آیا جب علی بخش اپنے بیٹے کو لے کر لکھنؤ گئے۔ اُس وقت غلام علی کی عمر بیس برس تھی۔ والد کے ہمراہ غلام علی نے اپنے فن کا مظاہر کیا تو موسیقی سے تعلق رکھنے والے لوگ چونک اُٹھے۔
اس دورے نے غلام علی کے سامنے امکانات کے نئے دریچے کھول دیے تھے۔ واپس لاہور آکر وہ ایک نئے جوش و جذبے سے موسیقی کے فن کے نئے اُفق تلاش کرنے لگے۔ وہ بھی کیا دن تھے۔ غلام علی رات کے وقت دریائے راوی کے کنارے ریاض کرتے۔ چاند کی ٹھنڈی روشنی اور بہتے پانیوں کے ساتھ موسیقی کی تانیں بکھرنے لگتیں۔ یہ ریاض سورج کے طلوع ہونے تک جاری رہتی۔ یہی وہ محنت ہے جس کی بدولت سُر ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے ہوتے تھے۔ اب ان کے نام کے ساتھ‘ استاد کا اضافہ ہو گیا تھا۔ چونکہ ایک اور موسیقار کا نام بھی غلام علی تھا اس لیے انہیں استاد بڑے غلام علی خان کے نام سے پکارا جانے لگا۔ تب ایک روز انہیں لاہور کی ایک معروف مغنیہ گلزار بائی کا پیغام ملا کہ وہ ان سے ملنا چاہتی ہے۔ یہ استاد بڑے غلام علی کی جوانی کا دور تھا۔ وہ گلزار بائی سے ملے تو انہیں یوں لگا کہ ان کی دنیا اب تک ادھوری تھی۔ یہ ان کی زندگی کے یادگار دن تھے۔ وہ سُر منڈل پر ساز چھیڑتے اور گلزار بائی اپنی مدھر آواز میں گاتی تو یوں لگتا وقت تھم گیا ہے۔ یہ ایک خواب جیسا دور تھا لیکن کہتے ہیں ہر خواب کا اختتام ہوتا ہے۔ سب کچھ ٹھیک تھا کہ اچانک گلزار بائی کے گھر ایک مہمان آیا اور گلزار بائی کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ استاد بڑے غلام علی کو یوں نظر انداز کیا جانا پسند نہ آیا۔ اُن کا دل لاہور سے اُٹھ گیا‘ وہ اب گلزار بائی سے بہت دور جانا چاہتے تھے۔ انہوں نے سُر منڈل اٹھایا اور سیدھے ریلوے سٹیشن پہنچے۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ انہیں کہاں جانا ہے۔ بمبئی جانے والی ٹرین تیار تھی۔ انہوں نے ٹکٹ لیا اور ٹرین میں بیٹھ گئے۔ ٹرین چھک چھک کرتی ہوئی تیزی سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ استاد غلام علی خان کو معلوم نہ تھا انہیں بمبئی میں کہاں جانا ہے۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں