تین سال کے کشیدہ تعلقات کے بعد آج اچانک محمد رفیع کو اپنے گھر کے دروازے پر کھڑا دیکھا تو او پی نیر کے جذبات قابو میں نہ رہے۔ دونوں بغلگیر ہو کر دیر تک روتے رہے۔ محمد رفیع سے تعلقات کی یہ کشیدگی تین سال پر محیط تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ او پی نیر کیلئے کوئی شخص بھی ناگزیر نہیں تھا۔ لتا کی ہی مثال لیجئے جو اُس وقت صفِ اول کی گلوکارہ تھی۔ کہتے ہیں کہ لتا او پی نیر کو دیے گئے وقت کے مطابق سٹوڈیو نہ پہنچی تو او پی نیر نے اسی دن یہ تہیہ کر لیا کہ وہ کبھی لتا سے گانا نہیں گوائے گا۔ یہ ایک مشکل فیصلہ تھا کیونکہ بطور میوزک ڈائریکٹر یہ او پی نیر کے کیریئرکا آغاز تھا لیکن وہ اپنی دُھن کا پکا تھا۔ پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ لتا کی آواز کی سیڑھی استعمال کیے بغیر صفِ اوّل کا موسیقار بن گیا۔ جب او پی نیر سے پوچھا جاتا کہ اس نے اپنی موسیقی کیلئے لتا کی آواز کا استعمال کیوں نہیں کیا تو اس کا جواب ہوتا کہ لتا کی آواز میری موسیقی کیلئے موزوں نہیں‘ لیکن درحقیقت معاملہ کچھ اور تھا۔ او پی نیرکے دل میں لتا کیلئے کوئی جگہ نہ تھی۔ اس کی محبتیں اور نفرتیں شدید ہوتی تھیں۔ اس خیال کو تقویت اس واقعے سے بھی ملتی ہے کہ جب اسے ایک بار موسیقی کی خدمات کے عوض لتا ایوارڈ کیلئے چنا گیا تو اس نے یہ ایوارڈ لینے سے انکار کر دیا۔ اس کے مطابق یہ ایوارڈ نہ لینے کی دو وجوہات تھیں؛ ایک تو یہ کہ لتا موسیقار نہیں تھی اور یہ موسیقی کا ایوارڈ تھا اور دوسرا یہ کہ میں نے سارے کیریئر میں لتا سے کبھی ایک گانا بھی نہیں گوایا تو اس کے نام کا ایوارڈکیسے قبول کر لوں۔
او پی نیر ایک کے بعد ایک فلم میں اچھوتی دھنیں دے رہا تھا۔ وہ موسیقی میں نت نئے تجربات کر رہا تھا۔ کئی گانوں میں اس نے گھوڑے کی ٹاپوں کے ردھم کو خوبصورتی سے استعمال کیا۔ 1958ء میں فلم ''نیا دور‘‘ میں بہترین موسیقی پر اسے فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا یہ اس کی صلاحیتوں کا برملا اعتراف تھا۔ عام زندگی میں او پی نیر ایک بے باک شخص تھا۔ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے دل کی بات بے دھڑک کہہ دیتا اور وہی کرتا جو اس کا جی چاہتا۔ سروج سے او پی کی محبت کی شادی تھی‘ یہ وہی سروج تھی جس نے سی ایچ آتما کے گیت ''پریتم آن ملو‘‘ کے بول لکھے تھے اور یہ گیت او پی نیر کی موسیقی میں امر ہو گیا تھا۔ اس شادی سے اس کے بچے بھی تھے۔ وہ ایک وجیہ انسان تھا‘ گورا چٹا‘ اونچا لمبا قد اور سر پر ہیٹ۔ یوں وہ کسی مغربی فلم کا ہیرو لگتا تھا۔ اس پر مستزاد اس کی دل آویز دھنیں اور شہرت کی بلندی۔ اس کے چاہنے والوں میں خواتین بھی تھیں جنہیں او پی نیر ہمیشہ خوش آمدید کہتا تھا۔ یہ صورتحال اس کی بیوی سروج کیلئے ناقابلِ برداشت تھی۔ اسی دوران ایک اور واقعہ ہوا جس نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ یہ او پی نیر کی گلوکارہ آشا سے ملاقات تھی جو جلد ہی گہری دوستی میں بدل گئی۔ اس حد تک کہ او پی نیر نے اپنا گھر چھوڑ دیا اور ایک اپارٹمنٹ کرائے پر لے کر آشا کے ساتھ رہنے لگا۔ دونوں کا یہ ساتھ دو دہائیوں پر محیط تھا۔ اس دوران او پی نیر نے آشا کیلئے خوبصورت دھنیں بنائیں اور اس کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ کہتے ہیں محبت کا سحر ایسا ہوتا ہے کہ آپ اپنے اردگرد کو بھول جاتے ہیں۔ اوپی نیر کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا‘ وہ بے دھڑک آشا کے ہمراہ محفلوں میں جاتا‘ اسے کسی کی باتوں کی پروا نہیں تھی۔ اس کی بیوی اور بچے الگ اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔ او پی نیر کی بیوی سروج کی آنکھوں کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔
محبت کا غبار صاف منظروں کو بھی دھندلا دیتا ہے۔ اوپی نیر آشا کی محبت میں بہت دور نکل گیا تھا۔ اس کی زندگی کی منزل آشا تھی۔ اس نے اپنی بہترین دھنیں آشا کی آواز کو مدنظر رکھ کر بنائیں لیکن پھر ایک دن سب کچھ ختم ہو گیا۔ آشا‘ جس کیلئے اس نے اپنے بیوی بچوں اور دوستوں سے ناتا توڑ ا تھا‘ جس کیلئے اس نے اپنی مدھر دھنیں بنائی تھیں اچانک اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ اسے یوں لگا جیسے دنیا کا اختتام ہو گیا ہے لیکن اوپی نیر کی خود داری نے اسے اپنے غم کا اظہار نہ کر نے دیا۔ اوپی نیر اور آشا کا ساتھ اٹھارہ سال پر محیط تھا جو 1956ء سے شروع ہوا اور 1974ء میں اپنے اختتام تک پہنچا۔ کیسا اتفاق ہے کہ آشا نے او پی نیر کی موسیقی پر جو آخری گیت گایا اس کے بول تھے ''چین سے آپ نے ہمیں رہنے نہ دیا‘‘۔ آشا کو او پی نیر نے شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اب اس کو او پی نیر کی ضرورت نہ رہی۔ اس نے میوزک ڈائریکٹر آر ڈی برمن کا ہاتھ پکڑا اور پھر ایک دن اس کی شریکِ سفر بن گئی۔ اب او پی نیر کیلئے زندگی بے رنگ ہو گئی تھی۔ اس کا دل موسیقی سے اچاٹ ہونے لگا تھا۔ فلم بنانے والے بھی اب اس سے منہ پھیرنے لگے تھے۔ نوے کی دہائی میں وہ ایک بار پھر ایکٹو ہوا اور چند فلموں کی موسیقی دی لیکن اب پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکا تھا۔ موسیقی کے میدان میں اب نئے لوگوں کا سکہ چلنے لگا تھا۔ او پی نیر اس ماحول میں خود کو اجنبی محسوس کرنے لگا تھا۔
عمر کے آخری برسوں میں او پی نیر بمبئی کے قریب ایک فیملی کے ساتھ Paying Guestکے طور پر رہنے لگا۔ شہر کے ہنگاموں سے دور اس گمنام سی جگہ میں ایک گھر کے ایک کمرے میں او پی نیر نے تنہائی کو اپنے گلے سے لگا لیا تھا۔ اس سے ملنے والوں کی بھیڑ اب باقی نہ رہی تھی۔ اِکا دکا کوئی دوست آتا تو وہ گئے دنوں کی باتیں چھیڑ دیتا۔ وہ دن جب او پی نیر کی موسیقی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا‘ کیسے کیسے خوبصورت گیت او پی نیر کی دھن میں امر ہو گئے تھے۔ اِک پردیسی میرا دل لے گیا‘ اشاروں اشاروں میں دل لینے والے‘ آئیے مہرباں‘ آؤ حضور تم کو ستاروں میں لے چلوں‘ لے کے پہلا پہلا پیار۔ اس طرح کے گیتوں کی ایک طویل فہرست تھی لیکن جب ملاقاتی چلے جاتے اور او پی نیر اپنے کمرے میں تنہا رہ جاتا تو اسے پرانے دنوں کی یادیں گھیر لیتیں۔ اپنے دلبر شہر لاہور کی یادیں‘ اس کے طلسماتی گلی کوچوں کی فضاؤں میں بکھرے رنگوں کی یادیں۔ کبھی کبھی تو اس کا دل شدت سے چاہتا کہ وہ آنکھیں بند کر ے اور اپنے لاہور والے گھر میں پہنچ جائے لیکن اسے معلوم تھا کہ وقت کا پہیہ کبھی پیچھے کی طرف نہیں چلتا۔ کیسی عجیب بات تھی کہ اس کی اپنی بیوی اور بچے اسے Disown کر چکے تھے۔ اس نے دوستوں اور دوستوں نے اسے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ اب سردیوں کا موسم شروع ہو گیا تھا اور او پی نیر کی طبیعت خراب رہنے لگی تھی۔ آخر 28جنوری کو او پی نیر کی بے قراری کو ہمیشہ کیلئے قرار آگیا۔ دمِ آخر اس نے وصیت کی تھی کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی بیوی اور بچوں کو اس کا چہرہ نہ دکھایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے سب گانوں کی رائلٹی کے حقوق اس لڑکی کے نام کر دیے جس کے والدین کے گھر وہ رہتا تھا۔ اس کی وصیت کا احترام کیا گیا۔ کہتے ہیں اس نے زندگی میں جس چیز کی خواہش کی اسے حاصل کیا۔ صرف ایک تمنا ایسی تھی جو پوری نہ ہو سکی۔ اپنے دلبر شہر لاہور جانے اور اس کے گلی کوچے دیکھنے کی تمنا۔ وہی لاہور جس کے در و بام میں ایک سحر ہے۔ جو یہاں سے چلا بھی جائے اپنی روح کا ایک حصہ یہاں پر چھوڑ جاتا ہے۔ او پی نیر کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ (ختم)