اکیسویں صدی علم کی صدی ہے جس میں وہی ملک ترقی کی دوڑ میں آگے ہو گا جس کے شہری مؤثر تعلیم اور جدید مہارتوں سے لیس ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی کی خواہش رکھنے والے ممالک اپنی آمدنی کی ایک مناسب شرح تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارے ملک کے وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص بجٹ ضرورت سے کہیں کم ہے۔ کوئی بھی بجٹ قومی ترقی کے مختلف اہداف کے لیے سرمایے کی فراہمی کا تعین کرتا ہے۔ تعلیم کے لیے ناکافی بجٹ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ پالیسی سازوں کے نزدیک تعلیم کے شعبے کی اہمیت کتنی کم ہے۔ کیا واقعی تعلیم ایک غیرضروری شعبہ ہے؟ کیا تعلیم اور ترقی کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں؟ اس بات کا جائزہ ان سوالات کے جوابات حاصل کرنے کے لیے اہم ہے۔ انسانی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ تعلیم اور ترقی کا باہمی رشتہ قوموں کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان فرق دراصل علم کا ہے۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ اگر ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہونا ہے تو ہمیں علم تخلیق کرنا ہو گا اور اس کے لیے تعلیمی اداروں کا کردار بنیادی ہے۔ دوسرے الفاظ میں ترقی کی شاہراہ پر سفر کے لیے معیاری تعلیم کا ساتھ انتہائی اہم ہے۔ تعلیم کی اہمیت کا اندازہ قائداعظم محمد علی جناح کو شروع سے تھا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلی تعلیمی کانفرنس میں انہوں نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ تعلیم ہمارے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے‘ یعنی اگر ہمیں عہدِ جدید میں وقار سے زندہ رہنا ہے تو تعلیم کو مرکزی حیثیت دینا ہو گی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہمیں جن اہم تعلیمی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا ان میں سب سے بڑا چیلنج بچوں کی سکولوں تک رسائی کا تھا۔ اس زمانے میں سکولوں کی تعداد ملکی آبادی کے لیے ناکافی تھی۔ یہ مسئلہ‘ جو کہ شروع ہی سے سنجیدگی سے لینا چاہیے تھا‘ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا رہا۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک بہت سی تعلیمی پالیسیاں آئیں جن میں خوش نما وعدے کیے گئے۔ خواندگی کے مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیےDeadlines دی گئیں‘ لیکن عملی طور پر اس کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اب بھی ان بچوں کی تعداد اڑھائی کروڑ کے لگ بھگ ہے جو سکول تک رسائی نہیں رکھتے۔
سکولوں تک رسائی کے اس چیلنج کے ساتھ جڑا ہوا دوسرا چیلنج Drop out کا تھا۔ پاکستان دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے جس میں سب سے بڑی تعداد میں بچے سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 42 فیصدبچے آٹھویں جماعت تک پہنچنے سے پہلے سکول چھوڑ جاتے ہیں۔ یوں سکول چھوڑنے والے یہ بچے بھی ان بچوں کے سمندر میں شامل ہو جاتے ہیں جوسکول کی دہلیز تک پہنچنے کی سکت نہیں رکھتے۔ اس طرح پاکستان‘ جو اس لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے کہ اس کی آبادی میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے‘ اپنے اس Advantage کا صحیح استعمال نہیں کر سکا اور نوجوانوں کی بڑی تعداد‘ جو اس کا سرمایہ بن سکتی تھی‘ خدشہ ہے کہ تعلیم سے محرومی کے باعث وہ ذمہ داری میں نہ بدل جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ہمارے ترقی کے سفر میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوگی۔
آئیے! اب ان بچوں کی طرف جو سکولوں تک رسائی رکھتے ہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ انہیں جو تعلیم دی جا رہی ہے اس کا معیار کیا ہے؟ حالیہ کئی تحقیقاتی رپورٹس میں یہ بات واضح طور پر سامنے آئی ہے کہ بچوں کی اکثریت کا علمی معیار اس درجے سے کم ہے جس میں وہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ معیار کے ساتھ جڑا ہوا ایک اور اہم چیلنج یہ ہے کہ جو تعلیم ہمارے تعلیمی اداروں میں دی جا رہی ہے‘ کیا وہ معاشرے کی ضروریات اور عملی زندگی کے چیلنجز سے مطابقت رکھتی ہے؟ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب بھی ہم اعتماد کے ساتھ اثبات میں نہیں دے سکتے۔ پھر سب سے اہم سوال کہ کیا ہم اپنے بچوں کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کے لیے تیار کر رہے ہیں؟ کیا تعلیمی اداروں کے نصاب میں اکیسویں صدی میں کام آنے والی مہارتوں مثلاً تنقیدی سوچ‘ کمیونیکیشن‘ Creativity اور Collaboration شامل ہیں؟ کیا ہمارے سکول طالب علموں میں سوچنے اور تجویز کرنے کی صلاحیت پیدا کر رہے ہیں؟ بدقسمتی سے ان سوالات کے جوابات بھی نفی میں ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہ فرسودہ نظام ہے جس میں تخلیقی سوچ کی کوئی گنجائش نہیں‘ جس میں طالب علم کے سوالات اور اس کی سوچ پر پہرے بٹھا دیے جاتے ہیں‘ جس میں اگر طالب علم کسی سوال کے جواب میں اپنی سوچ کا استعمال کرے تو اس کے نمبر کاٹ لیے جاتے ہیں۔ یوں طالب علموں کو شروع ہی سے تعمیل کی تربیت دی جاتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام تخلیقی سوچ کے بجائے یادداشت کا امتحان ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ اور طلبہ کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ سوالات کے جوابات یاد کر لیے جائیں تاکہ امتحان میں اچھے گریڈ کا حصول یقینی بنایا جا سکے۔
اب ہم تعلیم میں بہتری کے لیے حکومتی کردار پر بات کرتے ہیں۔ 2010ء میں اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے تعلیم صوبوں کے سپرد کر دی گئی۔ یہ ایک اہم فیصلہ تھا جو مرکز اور صوبوں کے درمیان اختیارات کی کشمکش کی نذر ہو گیا۔ آئین میں ایک اہم آرٹیکل 25-A کا اضافہ کیا گیا جس کے مطابق ریاست سولہ سال تک کے عمر کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنے کی ذمہ دار ہو گی۔ یہ ایک خوش آئند فیصلہ تھا لیکن اس کے عملی نفاذ کے لیے جن اقدامات کی ضرورت تھی‘ وہ نہیں کیے گئے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کا نمبر ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں بہت نیچے آ گیا ہے۔ UNDP کی 2021-22ء کی ڈویلپمنٹ انڈیکس میں 192 ممالک کی فہرست دی گئی ہے۔ اس فہرست میں پاکستان 161ویں نمبر پر ہے۔ یہ صورتحال پالیسی سازوں کے لیے تشویش کا باعث ہونی چاہیے۔ اس ساری صورتحال کے تجزیے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کی مختلف حکومتیں تعلیم کے حوالے سے بلند بانگ دعوے تو کرتی رہی ہیں لیکن اس سلسلے میں ٹھوس عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ خوش نما پالیسیاں بنانے والوں کو یہ علم ہونا چاہیے کہ اصل چیلنج ان پالیسیوں کا نفاذ ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ تعلیم کے حوالے سے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلیمی بجٹ کا مقابلہ کیا جائے تو یہ انتہائی کم ہے۔
2009ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ تجویز کیا گیا تھا کہ تعلیم کے لیے جی ڈی پی کا سات فیصد مختص کیا جائے لیکن وہ ایک ایسا خواب تھا جس کی تعبیر آج تک نہیں ہو سکی۔ حالیہ بجٹ میں وفاقی سطح پر تعلیم کے لیے جس بجٹ کا تعین کیا گیا ہے‘ اس میں اضافے کے بجائے کمی ہوئی‘ جو مالی سال 2022ء میںکم ہو 1.7 فیصد رہ گیا تھا۔ ہمارے پالیسی سازوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ طاقت کا جدید تصور روایتی اسلحہ نہیں بلکہ وہ تعلیمی مہارتیں ہیں جو کسی قوم کے افراد میں پائی جاتی ہیں۔ ایسے میں چند سوالات کے جوابات اہم ہیں: کیا ہم پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم تعلیم کو ملکی ترقی کا اہم ذریعہ سمجھتے ہیں؟ اور کیا ہم تعلیم کے لیے اپنے بجٹ کا مناسب حصہ مختص کر رہے ہیں؟