لاہور محض ایک شہر نہیں ایک تاریخ‘ ایک عہد اور ایک ثقافت کا نام ہے۔ اس کے گلی کوچوں سے گزریں تو یہاں وہاں گزرے دنوں کی تصویریں نظر آتی ہیں۔ کیسے کیسے لوگ تھے جو لاہور کی سر زمین سے اُٹھے اور زندگی کے مختلف شعبوں میں شہرت کے آسمان پر آفتاب بن کر جگمگائے۔ انہی لوگوں میں ایک برصغیر کا معروف اداکار پریم چوپڑا تھا‘ جو لاہور کی پرانی بستی گوالمنڈی کی کرشنا گلی نمبر 5 کے ایک گھر میں پیدا ہوا اور بالی وڈ کی دنیا میں چھ دہائیوں تک اپنے فن کا جادو جگایا۔ کہتے ہیں کہ پریم چوپڑا نے ولن کے کردار کو ایک نئی شناخت دی۔ اس کے ادا کردہ مکالمے زبان زدِ عام ہو گئے اور کئی دہائیاں گزرنے کے بعد‘ اب بھی تروتازہ ہیں۔
پرانی جگہوں پر جانا اور تاریخ کے جھٹپٹوں میں خوبصورتی کے رنگ تلاش کرنا میرا شوق ہے۔ اُس روز بھی لاہور کے گلی کوچوں کی کشش مجھے اپنی طرف بلا رہی تھی۔ وہ اتوار کا دن تھا۔ اتوار کے دن لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک نسبتاً کم ہوتی ہے۔ آج میں اپنے دوست احمد رضا پنجابی کے ہمراہ گوالمنڈی کے گنجان آباد محلے میں پریم چوپڑا کا آبائی گھر دیکھنے جا رہا تھا۔ وہ گھر جس کی تلاش ہمیں کرنا تھی۔ ہمیں صرف اس علاقے کا اندازہ تھا لیکن ہمیشہ کی طرح احمد رضا کو یقین تھا کہ ہم وہ گھر ڈھونڈ نکالیں گے۔ یہ کام اتنا آسان نہیں تھا۔ ہم کئی گلیوں میں پہنچے‘ وہاں لوگوں سے پوچھا لیکن کسی کو پریم چوپڑا کے گھر کا پتا نہیں تھا۔ کافی دیر تک گوالمنڈی کی گلیوں میں بھٹکنے کے بعد ہم ایک جگہ کھڑے ہو گئے۔ اچانک سامنے مجھے ایک سکول کا بورڈ نظر آیا۔ آج چونکہ اتوار تھا لہٰذا سکول کی چھٹی تھی۔ وہیں سڑک پر ہمیں دو نوجوان نظر آئے۔ کیوں نہ ان سے پوچھا جائے؟ ہمارے پوچھنے پر ایک لڑکے نے کہا: وہ سامنے والی گلی ہے‘ جہاں پریم چوپڑا کا گھر ہے۔ پھر وہ خود ہی کہنے لگا: چلیں‘ میں آپ کو وہاں لے چلتا ہوں۔ راستے میں اس نے بتایا کہ اس کا نام سعد علی ہے اور وہ اسی گلی میں رہتا ہے جہاں پریم چوپڑا کا گھر ہے۔ ہم سعد کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ اب ہم اُس دو منزلہ مکان کے سامنے کھڑے تھے جہاں برصغیر کے نامور اداکار نے آنکھ کھولی۔ مکان کے دروازے مضبوط لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ ان پر آرائشی کام ہوا تھا۔ وقت کا بہائو بھی ان دروازوں کے حُسن کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ میں نے سوچا اس گھر کی دہلیز کو ننھے پریم نے کتنی بار پار کیا ہو گا۔ دونوں طرف سے کھلی اس گلی میں وہ کتنی بار چلا ہو گا۔ اس کے والد کا نام رنبیر لال چوپڑا اور والدہ کا نام روپ رانی چوپڑا تھا۔ والد قانون کے دفتر میں کام کرتا تھا‘ وہ پانچ بہن بھائی تھے۔ روپ رانی کی خواہش تھی کہ اس کے گھر بیٹی ہو۔ بہت دعائوں کے بعد ان کے گھر ایک بیٹی پیدا ہوئی جس کا نام انجلینا رکھا گیا‘ جسے سب پیار سے انجو کہتے تھے۔
چالیس کی دہائی کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہندوستان میں فرنگیوں کی حکومت کے خلاف تحریکِ آزادی زور پکڑ رہی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کا آخر آخر تھا۔ لاہور ادبی‘ ثقافتی‘ علمی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ پھر ایک دن اعلان ہوا کہ فرنگی ہندوستان چھوڑ کر چلے جائیں گے اور ہندوستان کو تقسیم کر دیا جائے گا۔ مسلم اکثریت والے علاقے پاکستان کہلائیں گے اور ہندو اکثریت والے علاقے ہندوستان۔ تقسیم کا باقاعدہ عمل اگست 1947ء میں ہونا تھا لیکن اگست سے بہت پہلے فسادات کا آغاز ہو گیا‘ ہر آنے والے دن جن میں اضافہ ہو رہا تھا۔ فسادات کی آگ اب لاہور کو بھی لپیٹ میں لے رہی تھی۔ ایسے میں پریم چوپڑا کے والد رنبیر لال نے اپنی زندگی کا سب سے مشکل فیصلہ کیا کہ اس سے پیشتر کہ فسادات کی آگ مزید پھیلے اور نقل و حرکت مشکل ہو جائے‘ لاہور چھوڑ دیا جائے۔ اپنی بیوی اور چھ بچوں کے ہمراہ کرشنا گلی نمبر 5 میں واقع اپنے گھر کو ہمیشہ کے لیے الوداع کہا اور کچھ سامان لے کر شملہ چلے گئے۔ شملہ‘ مری کی طرح ایک ہِل سٹیشن ہے‘ جو انگریزوں کا گرمائی دارالحکومت بن جاتا تھا۔ اسی لیے انگریزوں نے یہاں اپنی دلچسپی کے سامان مہیا کیے تھے۔ وہی مال روڈ‘ ہوٹل اور تھیٹر کمپنیاں۔ رنبیر لال نے بچوں کو یہاں ایک سکول میں داخل کرا دیا۔ پریم چوپڑا نے ایس ڈی سینئر سیکنڈری سکول میں پڑھنا شروع کر دیا۔ سکول کے بعد وہ پنجاب یونیورسٹی (بھارت) میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخل ہوا۔
اس کے والد رنبیر لال کو اپنے بیٹے پریم کی صلاحیتوں پر بھروسا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کا یہ بیٹا ڈاکٹر بنے یا پھر انڈین سول سروس کا امتحان پاس کر کے آفیسر بنے۔ پریم نے میڈیکل میں داخلہ لے تو لیا لیکن اس کا دل کالج کے ڈرامیٹک کلب میں اٹکا ہوا تھا‘ اسے جنون کی حد تک ڈرامے کا شوق تھا۔ اسے یاد ہے کہ اس نے کالج میں شیکسپیئر کے ڈرامے Merchant of Venice میں Shylock کا اہم کردار ادا کیا تھا۔ پریم کے لیے وہ دن بہت اہم تھا جب اسے ڈرامے کے انٹر کالجیٹ مقابلے میں پہلا انعام ملا۔ ادھر میڈیکل کی پڑھائی بہت زیادہ وقت اور توجہ مانگتی تھی۔ چھ ماہ کے بعد ہی پریم کو اس بات کا اچھی طرح اندازہ ہو گیا کہ اس کی منزل ڈاکٹر بننا نہیں بلکہ اداکاری میں نام کمانا ہے۔ اس بات کا ذکر جب اس نے اپنے والد سے کیا تو انہیں مایوسی تو ہوئی لیکن انہوں نے پریم کو نصیحت کی کہ ٹھیک ہے‘ تم اداکاری کرنا چاہتے ہو تو ضرور کرو لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے تمہیں گریجوایشن کرنا ہو گی۔ پریم نے یہ شرط قبول کر لی۔ اب ڈرامے کی دنیا سے اس کا رشتہ مزید گہرا ہو گیا۔ شملہ میں ان دنوں Clarkes Hotel میں اہم لوگ ٹھہرا کرتے تھے۔ ایک روز پریم کو پتا چلا کہ ہوٹل میں اس زمانے کے دو اہم اداکار ٹھہرے ہوئے ہیں۔ وہ کالج سے کچھ دوستوں کے ہمراہ کلارک ہوٹل کے سامنے کتنی ہی دیر کھڑا رہا کہ کب وہ اداکار ہوٹل سے باہر آئیں اور کب وہ ان کی ایک جھلک دیکھ سکے۔
اب پریم نے گریجوایشن کا امتحان پاس کر لیا تھا۔ اس کا دل بمبئی جانے کے لیے مچل رہا تھا‘ وہی بمبئی جہاں اس کی اداکاری کے لیے کھلا آسمان میسر آئے گا۔ اس کے والد نے اسے صاف صاف بتا دیا تھا کہ بمبئی جائو تو اپنی ذمہ داری اور اپنے اخراجات پر۔ کچھ دوستوں کی مدد سے وہ بمبئی پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ یہاں آکر اس نے مختلف سٹوڈیوز کے چکر لگانا شروع کر دیے۔ وہ ایک لمبا چوڑا‘ گورا چٹا‘ خوش شکل نوجوان تھا۔ اسے خود پر اعتماد تھا کہ جلد ہی اسے اداکاری کی پیشکش ہو گی لیکن ہر سٹوڈیو سے اسے ایک ہی جواب ملتا کہ اپنی تصویر دے جائیں‘ جب کوئی کام ہو گا تو آپ کو اطلاع مل جائے گی۔ لیکن اس کے بعد اسے کبھی اطلاع نہ ملتی۔ بمبئی میں بغیر پیسوں کے رہنا آسان نہ تھا‘ اس کے لیے اس نے ادھر ادھر معمولی نوکریاں بھی کیں۔ پھر ایک دن اس کے مقدر نے یاوری کی اور اسے Times of India میں ملازمت مل گئی۔ اس کا تقرر سرکولیشن ڈیپارٹمنٹ میں ہوا تھا۔ اسے مہینے میں بیس دن سفر کرنا ہوتا۔ کبھی بہار‘ کبھی اڑیسہ‘ کبھی بنگال۔ اس کا کام مختلف شہروں میں ایجنٹس سے ملنا اور اخبار کے سرکولیشن کے معاملات طے کرنا تھا۔ پریم چوپڑا کو ملازمت تو مل گئی تھی لیکن اس کا دل اداکاری میں اٹکا ہوا تھا۔ اداکاری اس کے لڑکپن کا شوق تھا۔ شملہ میں‘ جہاں وہ پلا بڑھا‘ پانچ چھ تھیٹر کمپنیاں تھیں۔ ٹرین کے لمبے سفر میں وہ اکثرآنکھیں بند کر کے سوچتا کہ وہ دن کب آئے گا جب اس کے لیے کسی سٹوڈیو کا در کھلے گا اور اسے اپنی اداکاری کے جوہر دکھانے کا موقع ملے گا۔ (جاری)