فلم ڈائریکٹر ڈبلیو زیڈ احمد نے کرشن چندر کو پُونے میں اپنے شالیمار سٹوڈیو میں ملازمت کی پیشکش کی تو کرشن کو یوں لگا قدرت نے تخلیق کے ایک نئے میدان میں اسے اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع دیا ہے۔ اس نے ریڈیو چھوڑ کر پونے جانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہاں کرشن چندر نے پہلی فلم ''من کی جیت‘‘ کی کہانی لکھی۔ کیسا حسین اتفاق ہے کہ پہلے افسانے اور پہلے ناول کی طرح اس کی پہلی فلم بھی کامیاب رہی۔ پونے میں ایک سال رہنے کے بعد کرشن چندر کو دیوکا رانی نے اپنی کمپنی بمبئے ٹاکیز میں ملازمت کی پیشکش کی۔ یہاں اسے کام کے لیے ایک بڑا کینوس میسر آ گیا تھا۔ کچھ عرصہ بمبئے ٹاکیز میں کام کرنے کے بعد اس نے ایک تھیٹر کمپنی سے مل کر اپنی فلم ''سرائے سے باہر‘‘ پر کام کا آغاز کیا۔ فلم کی کہانی اس نے خود لکھی تھی۔ وہ خود ہی اس فلم کا پروڈیوسر اور ڈائریکٹر تھا۔ فلم کے ہیرو کے لیے اس نے اپنے چھوٹے بھائی مہندر ناتھ کا انتخاب کیا تھا۔ بدقسمتی ہے یہ فلم باکس آفس پر فلاپ ہو گئی مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور اپنی ذاتی کمپنی ماڈرن تھیٹر کے نام سے قائم کی اور اس کے بینر تلے ایک فلم ''دل کی آواز‘‘ بنائی۔ لیکن یہ فلم بھی ناکام رہی۔ اس ناکامی سے اسے دھچکا تو لگا لیکن وہ ہار ماننے والا نہیں تھا۔ اس نے ایک اور فلم ''راکھ‘‘ پر کام شروع کر دیا لیکن یہ فلم کبھی تکمیل کو نہ پہنچی۔ یہ کرشن کی زندگی کے مایوس کن دن تھے لیکن اس نے زندگی سے ہارنا نہیں سیکھا تھا‘ اس کو اپنے آپ پر اور اپنے قلم پر بھروسا تھا۔
ادبی دنیا کی طرح فلمی دنیا میں بھی کرشن چندر کے خدمات یاد رکھی جائیں گی۔ اس نے متعدد فلموں کی کہانیاں‘ سکرین پلے اور ڈائیلاگ لکھے۔ ان فلموں میں من کی جیت‘ دھرتی کے لال‘ آندولن‘ تماشا‘ دیو آنند اِن گووا‘ دو پھول‘ دہلی جنکشن‘ ممتا‘ شرافت‘ دو چور‘ من چلی‘ ہمراہی اور رام بھروسے شامل ہیں۔ فلمی دنیا کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کرشن چندر نے اپنی ادبی سرگرمیوں کو بھی جاری رکھا۔ اس کی کہانیاں اب ہندوستان کی سرحدوں سے نکل کر باہر کے ممالک میں دھوم مچا رہی تھیں۔ دنیا کی مختلف زبانوں میں ان کے تراجم ہو رہے تھے۔ ان میں انگریزی‘ روسی‘ جرمن‘ ڈچ کے علاوہ متعدد دوسری زبانیں بھی شامل تھیں۔
اب ہم واپس کرشن چندر کی ازدواجی زندگی کی طرف آتے ہیں۔ کرشن چندر کی شادی 1939ء میں لاہور کی ایک پڑھی لکھی خاتون وِدیا وتی سے ہوئی اور اس شادی سے ان کے تین بچے بھی تھے لیکن میاں بیوی کے نظریات میں بُعد تھا جس سے گھر میں ہر وقت کھچاؤ کی کیفیت رہتی۔ پھر ایک روز کرشن کی ملاقات سلمیٰ صدیقی سے ہوئی۔ سلمیٰ صدیقی اردو کے معروف ادیب اور مزاح نگار رشید احمد صدیقی کی بیٹی تھیں اور انہیں علم و ادب سے لگاؤ تھا۔ وہ خود بھی لکھتی تھیں۔ سلمیٰ کی پہلے بھی ایک شادی ہو چکی تھی اور ان کا ایک بیٹا بھی تھا۔ سلمیٰ اور کرشن چندر کی عمروں میں بہت فرق تھا لیکن وہ کرشن چندر کی تحریروں کی پرستار تھیں۔ ایسے میں کرشن نے ان سے شادی کی درخواست کی لیکن مشکل یہ تھی کہ سلمیٰ مسلمان اور کرشن ہندو تھا۔ سلمیٰ نے شادی کے لیے شرط رکھی کہ ہمارا نکاح ہو گا اور اس کے لیے کرشن کو مسلمان ہونا پڑے گا۔ کرشن اس پر راضی ہو گیا۔ اس کا نام وقار ملک تجویز ہوا۔ یوں 27 جولائی 1961ء کو نینی تال کے ایک ہوٹل میں سلمیٰ کا نکاح وقار ملک (کرشن) سے ہو گیا۔ جب اس نکاح کی خبر پہلی بیوی کو ملی تو اس نے سخت غصے کا اظہار کیا اور نوبت مقدمہ بازی تک گئی۔ کرشن چندر نے اپنی پہلی بیوی اور بچوں سے قطع تعلق کر لیا اور سلمیٰ کے ساتھ رہنے لگا۔ سلمیٰ کے ساتھ کرشن کی شادی آخر دم تک قائم رہی۔ وہ جب روس ایوارڈ لینے گیا تو سلمیٰ اس کے ہمراہ تھیں۔
کرشن چندر ایک زود نویس لکھاری تھا۔ وہ کسی بھی موضوع پر انتہائی سہولت اور روانی سے لکھ سکتا تھا۔ معروف مزاح نگارکنہیا لال لاہور کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ افسانہ لکھنا کرشن چندر کے لیے عام سی بات تھی۔ اسے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب وہ کرشن چندر کے پاس گیا تھا۔ ان دنوں کرشن لاہور کے موہنی روڈ پر ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا تھا۔ کنہیا لال لکھتا ہے: وہ گھر پہنچا تو کرشن چندر نے اسے کہا: تم بیٹھو میں نے ادبی دنیا کو ایک افسانہ بھیجنا ہے۔ یہ کہہ کر وہ دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ ایک گھنٹے بعد وہ دس بارہ صفحے لکھ کر لایا۔ یہ اس کا افسانہ ''جنت اور جہنم‘‘ تھا۔ کنہیا لال کے ذہن میں اس دن کی یاد بھی روشن ہے جب وہ کرشن چندر کے ساتھ پہلگام میں ایک خیمے میں بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ باہر بارش ہو رہی تھی۔ اچانک کرشن نے اس سے کہا: کیا تم کچھ دیر کے لیے باہر جا سکتے ہو‘ میں نے ایک افسانہ لکھنا ہے۔ کنہیا خیمے سے باہر چلا گیا۔ جب وہ کچھ دیر کے بعد واپس آیا تو کرشن افسانہ ''نغمہ کی موت‘‘ لکھ چکا تھا۔
یوں تو کرشن کے ناولوں کی ایک طویل فہرست ہے ان میں سے کچھ بہت مقبول ہوئے جن میں شکست‘ جب کھیت جاگے‘ ایک گدھے کی سرگزشت‘ ایک عورت ہزار دیوانے‘ غدار اور یادوں کے چنار شامل ہیں۔ کرشن نے اپنی زندگی میں جتنا لکھا شاید ہی اس کی مثال اردو ادب میں ملتی ہو۔ کرشن کی تحریروں میں ناول‘ ڈرامے‘ فلم‘ سکرین پلے‘ ڈائیلاگ‘ بچوں کے ناول‘ جاسوسی ناول اور رومانوی ناول شامل ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اس نے فلمی دنیا کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ ادب کی دنیا میں خود کو کیسے زندہ اور متحرک رکھا۔ شاید لکھنا ہی اس کی زندگی تھی۔ جیسے زندہ رہنے کے لیے ہم سانس لیتے ہیں اسی طرح وہ زندہ رہنے کے لیے لکھتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ زندگی کی آخری سانس تک لکھتا رہا۔ حتیٰ کہ چار مارچ 1977ء کی شام‘ جب موت کا بلاوا آیا تب بھی وہ لکھ رہا تھا۔
کرشن چندر لاہور سے نکل کر دہلی‘ پونے‘ لکھنؤ اور بمبئی میں رہا۔ اس دوران وہ کتنے ہی گلی کوچوں سے آشنا ہوا لیکن معلوم نہیں کیوں اسے یوں لگتا تھا کہ لاہور کے قریے سب سے جدا ہیں جن کی نظیر پورے عالم میں نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاہور کی فضائیں اور یہاں کے لوگ اس کی لوحِ دل پر ہمیشہ جگمگاتے رہے۔ اختر جمال کے بقول ''ایک محبت ایسی تھی جس کے لیے وہ بہت تڑپتے تھے اور وہ تھی شہر لاہور کی محبت۔ لاہور‘ میرا لاہور۔ لاہور کیسا ہے؟ لاہور کا کیا حال ہے؟ کتنے دن تم رہیں لاہور میں؟ وہ لاہور سے آنے والوں کو رشک سے دیکھتے کہ ان کا بس چلتا تو آنکھوں سے لاہور کی سڑکوں‘ مکانوں اور درختوں کی تصاویر حاصل کر لیتے۔ بار بار لاہور کی باتیں سن کر ان کا جی نہیں بھرتا۔ لاہور کے ادیبوں کا نام لے لے کر پوچھتے۔ کرشن چندر کی خواہش تھی کہ وہ ایک بار پھر ان گلی کوچوں کو دیکھے جہاں اس کی زندگی کے بہترین دن گزرے تھے۔ موہنی روڈ پر اس گھر میں جائے جہاں اس کی زندگی کے کتنے ہی شب و روز گزرے تھے۔ ایف سی کالج کے در و دیوار کو ایک نظر دیکھے جہاں اس نے اپنی زندگی کا سنہری وقت گزارا تھا۔
کہتے ہیں کہ پاکستان میں کرشن کے ایک پرستار نے اسے پاکستان آنے کی دعوت دی تھی۔ ہوائی جہاز کی ٹکٹ اور ایک بہترین ہوٹل میں ایک ماہ کے لیے رہائش کا بندوبست بھی کیا تھا‘ لیکن قدرت کو شاید یہ منظور نہ تھا۔ کرشن چندر کے لاہور آنے کا خواب ادھورا ہی رہا۔ لیکن یہ زندگی ہے جہاں کوئی چیز یقینی نہیں۔ جہاں ہر خواب کو تعبیر نہیں ملتی۔ (ختم)