سریندر پرکاش جدید اردو افسانے کا ایک روشن نام ہے جس نے افسانے میں علامت کے برتاؤ کا ایک نیا ہنر دیا۔ سریندر 26مئی 1930ء کو لائل پور میں پیدا ہوا۔ اس کی عمر ابھی اڑھائی‘ تین برس تھی کہ اس کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ سریندر کی زندگی میں ماں کی موت کے بعد ایک ایسا خلا آ گیا جو آخر دم تک اس کے ہمراہ رہا۔ سریندر کی ابتدائی تعلیم لائل پور کے پرائمری سکول میں ہوئی‘ اس کے بعد اس نے ایک پرائیویٹ طالبِ علم کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے کچھ کورسز کیے لیکن اسے بطور ریگولر طالب علم کالج یا یونیورسٹی میں پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ وہ حساس طبیعت کا مالک تھا۔ ماں کی موت کے بعد اسے شدید تنہائی کے احساس نے گھیر لیا تھا۔ اس کی عمر 17 برس کی تھی کہ ملکی سیاست میں بھونچال آگیا۔ ہندوستان کی تقسیم کے اعلان کے ساتھ ہی سرحد کے دونوں طرف فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنے لگے۔ سریندر اور اس کے والد سوچ رہے تھے کہ چند دنوں کی بات ہے‘ حالات پھر سے نارمل ہو جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا۔ فسادات کی آگ تیز تر ہوتی گئی۔ تب سریندر پرکاش کے گھر والوں نے یہ مشکل فیصلہ کیا اور اپنا شہر اور گھر چھوڑ کر دہلی پہنچ گئے۔
ماں کی وفات کے بعد لائل پور سے جدائی سریندر کے لیے ایک اور صدمہ تھا۔ اپنے گھر سے جدائی کا دکھ اپنی جگہ لیکن اس کے لیے بڑا چیلنج یہ تھا کہ زندگی کی گاڑی کیسے چلے گی۔ سریندر نے ہمت نہ ہاری اور گھر گھر جا کر کنگھیاں بیچنے لگا۔ اس نے سڑکوں پر پھولوں کے گجرے بھی بیچے‘ کتابوں کی دکان پر نوکری کی‘ ہوٹل میں کام کیا‘ ڈھابہ چلایا لیکن کہیں مستقل روزگار کی صور ت نہ نکلی۔ سریندر نے ایک ریستوران کا آغاز کیا جو چل نہ سکا۔ پھر لکھنؤ میں حضرت گنج میں ریستوران کا آغاز کیا‘ وہ بھی نہ چل سکا۔ آخر والد اور چھوٹے بھائی کے ساتھ مل کر دہلی میں سوڈا فیکٹری کھول لی۔
1959ء میں سریندر کی شادی بِملا اوبرائے سے ہو گئی۔ بِملا اُن دونوں روہتک کے ایک سکول میں ہیڈ مسٹریس تھیں۔ یہ ایک کامیاب شادی تھی جو آخر دم تک قائم رہی۔ بِملا اوبرائے نے مشکل ترین حالات میں بھی سریندر کا ساتھ دیا۔ گھر میں آنے والے دوستوں کی مہمان نوازی کی۔ سریندر پرکاش افسانے کی دنیا میں آیا تو اس کے سامنے افسانے کی دنیا کے سربلند کہانی کار منٹو‘ بیدی‘ عصمت اور کرشن چندر تھے۔ سریندر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ''میںمنٹو جیسا کردار‘ کرشن چندر جیسی زبان‘ بیدی جیسا ماحول اور عصمت جیسا انداز نہیں لا سکتا تھا‘ اس لیے میں نے اسے چھوڑ دیا اور نئی کہانی شروع کر دی‘‘۔ پڑھنے والوں کے لیے کہانی کا یہ نامانوس اسلوب تھا۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے ان کہانیوں پر توجہ نہ دی لیکن جلد ہی اسے سندِ قبولیت ملنے لگی۔ سریندر کی ان کہانیوں میں موضوعات‘ اسلوب اور تکنیک کی جدت تھی۔
سریندر کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ''دوسرے آدمی کا ڈرائنگ روم‘‘ 1968ء میں شائع ہو۔ اس مجموعے میں 14افسانے تھے‘ اس مجموعے کے افسانوں نے لوگوں کو چونکا دیا۔ یہ ایک بالکل نیا لہجہ تھا اور کہانی کے معنی کئی پرتوں میں چھپے ہوئے تھے۔ سریندر پرکاش کا دوسرا افسانوی مجموعہ ''برف پر مکالمہ‘‘ 1981ء میں شائع ہوا جس میں 11 افسانے تھے۔ سریندر کا تیسرا افسانوی مجموعہ ''بازگوئی‘‘ 1988ء میں شائع ہوا جس میں 12 افسانے تھے۔ اسی مجموعے میں سریندر کا افسانہ ''بجوکا‘‘ شامل تھا۔ جسے بلاشبہ اردو کے بہترین افسانوں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ''بجوکا‘‘ کی بہت سی توضیحات کی گئیں اور بعد میں کئی کہانی کاروں نے بجوکا کے کردار کے حوالے سے کہانیاں لکھیں۔ اس کہانی میں سریندر نے پریم چند کے ایک کردار ہوری کو ایک نئے انداز سے پیش کیا۔ اسی طرح ایک اور کہانی میں سریندر نے بیدی کے ایک کردار بھولا کا ایک نیا روپ دکھایا۔ سریندر پرکاش کے افسانوں کا آخری مجموعہ ''حاضر حال جاری‘‘ 2002ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں 17افسانے تھے۔
بازگوئی کا دیباچہ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ سریندر پرکاش کا فن اس کتاب میں تابناک بلندی کی منزل پر نظر آتا ہے۔ اردو کے ایک اور اہم نقاد گوپی چند نارنگ سریندر کے افسانوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ سریندر پرکاش کے افسانوں کا تانا بانا خواب اور سچ کی کنفیوژن سے تیار ہوتا ہے اس لیے اکثر چیزیں اپنی روایتی تصویر سے ہٹ کر نظر آتی ہیں۔ معروف افسانہ نگار انتظار حسین سریندر پرکاش کی کہانیوں کے بارے میں لکھتے ہیں کہ کہانی نئی ہے مگر اس کے رشتے پھیلتے پھیلتے داستان اور دیو مالا سے جا ملتے ہیں اور یہ سب کچھ بڑی خوش اسلوبی سے ہوتا ہے۔ کہانی بظاہر کتنی سادگی سے شروع ہوتی ہے اور ہم سادگی میں طلسم میں گھرتے چلے جاتے ہیں۔
افسانوں کے ساتھ ساتھ سریندر پرکاش نے ناول کی صنف میں بھی طبع آزمائی کی۔ سریندر کا ناول ''فسان‘‘ ماہنامہ ''شاعر‘‘ میں قسط وار شائع ہو رہا تھا اور اب تک اس کی 24 قسطیں شائع ہو چکی تھیں۔ ناول کا مرکزی کردار اقبال چند تھا۔ ناول کا ایک کردار کامریڈ وفا تھا جو خود اے سی والے کمرے میں رہتا تھا جس کے سوئس بینک میں اکاؤنٹس تھے۔ اپنے ناول کے بارے میں سریندر نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا '' میں ان دنوں ایک ناول لکھ رہا ہوں فسان (تلوار تیز کرنے والا پتھر)۔ یہ ماہنامہ ''شاعر‘‘ میں قسط وار چل رہا ہے۔ یہ انڈو مسلم کلچر کے پانچ ہزار سالوں کی تاریخ کے پسِ منظر پر مبنی ہے۔ اگر رسالے نے ہمت دکھائی تو یہ سلسلہ آٹھ سال تک چھپتا رہے گا‘‘ لیکن سریندر کی عمر نے وفا نہ کی اور یہ ناول مکمل نہ ہو سکا۔
سریندر پرکاش کی زندگی میں دو واقعات ساری عمر اس کا پیچھا کرتے رہے۔ بچپن میں ماں کی وفات اور 17 سال کی عمر میں اپنے دل بر شہر لائل پور سے جدائی۔ وہ آخر دم تک لائل پور کو یاد کرتا رہا‘ کبھی اپنے افسانوں میں‘ کبھی اپنے دوستوں سے گفتگو میں۔ سلام بن رازق اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں ''لائل پور سریندر پرکاش کی رگ رگ میں اس طرح بسا ہوا تھا کہ وہ کسی طور اسے اپنے سے جدا نہ کر سکتے تھے۔ نہ اپنے افسانوں سے‘ نہ ہی اپنی گفتگو سے‘‘۔ سریندر کی بیوی بِملا اوبرائے نے ایک انٹرویو میں بتایا ''وہ لائل پور کے ایک ایک نشان‘ ایک ایک دکان کو یاد کیا کرتے تھے۔ وہاں کا کلاک ٹاور‘ گوردوارہ‘ سینما گھر خوب خوب یاد آتا تھا اور انہیں اپنے بچپن کے دوست احباب یاد آتے تھے‘‘۔ ایک انٹرویو میں سریندر پرکاش نے کہا ''عجیب بات ہے وہ بچپن ‘جو کبھی بہت عزیز ہوا کرتا تھا‘ اس وقت ایک بھولا ہوا سپنا لگتا ہے۔ اب کون رہ گیا ہو گا وہاں۔ جو لوگ وہاں ہوں گے وہ مجھ سے واقف ہیں نہ میرے جذبات سے۔ کئی بار سوچا وہاں جاؤں‘ وہ جگہ دیکھوں جہاں وہ برس گزرے جو آدمی کا قیمتی سرمایہ ہوا کرتے ہیں۔ جو بیت گیا وہ گلی سے موڑ مڑ گیا۔ اب اسے بھیڑ میں کہاں ڈھونڈوں‘‘۔
پھر ایک دن سریندر پرکاش نے براہِ راست اُس وقت کے پاکستان کے حکمران جنرل ضیا الحق کو خط لکھا کہ وہ اپنے لائل پور کے گھر کو دیکھنا چاہتا ہے لیکن یہ خط پاکستان پہنچنے کے بجائے بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسی کے لوگوں کے پاس پہنچ گیا جو اس کے گھر تفتیش کے لیے پہنچ گئے۔ بڑی مشکل سے اس کی جان چھوٹی۔ سریندر کو زندگی میں عزت بھی ملی اور شہرت بھی۔ اسے خدمت کرنے والی بیوی بھی ملی اور پیار کرنے والے بچے بھی۔ اسے ادب میں اس کی خدمات پر انعامات بھی ملے اور اعزازات بھی لیکن اُس کے دل میں چھپی ہوئی معصوم سی خواہش کبھی پوری نہ ہو سکی۔ اپنے لائل پور کو دیکھنے کی خواہش‘ جہاں کے گھنٹہ گھر میں ہجرت کا وقت ٹھہر گیا تھا۔