زبان کو ایک سماجی وسیاسی مظہر سمجھا جاتا ہے‘ جو طاقت سے جڑا ہوا ہے۔ زبان انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک اہم شناختی علامت ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت قومی زبان کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو اعلیٰ سطحی قیادت نے فیصلہ کیا کہ اردو کو واحد ریاستی زبان (State Language) قرار دیا جائے۔ اس فیصلے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اردو زبان کا تحریک پاکستان میں اہم کردار تھا۔ دوسرے عوامل کے علاوہ اردو زبان نے بھی مسلمانوں کے ایک الگ قوم ہونے کا کیس مضبوط کیا۔ ایک ایسی قوم جس کا اپنا مذہب‘ اپنی ثقافت اور اپنی زبان تھی۔ اس طرح مسلمانوں کی اردو سے ایک جذباتی وابستگی بھی تھی۔ اردو کے حق میں ایک اور دلیل یہ دی گئی کہ یہ ملک کے مختلف حصوں میں ایک مشترکہ زبان (Lingua Franca) کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو‘ جو ملک کی سرکاری زبان قرار دی گئی‘ پاکستان کی صرف تین فیصد آبادی کی مادری زبان تھی۔ اس وقت پاکستان کی سب سے بڑی لسانی اکثریت بنگالیوں کی تھی جو کل آبادی کا 55 فیصد تھی‘ جبکہ دوسری سب سے بڑی لسانی اکثریت پنجابیوں کی تھی جو کل آبادی کا 28 فیصد تھے۔
پاکستان کی واحد ریاستی زبان کے طور پر اردو کے اعلان کو مشرقی پاکستان میں خوش دلی سے قبول نہیں کیا گیا‘ جہاں بنگالیوں کو سب سے بڑی لسانی اکثریت ہونے کی حیثیت سے‘ اردو کے ساتھ بنگالی کو دوسری ریاستی زبان بنانے کی توقع تھی۔ بنگالی زبان کو ریاستی زبان دینے کے حق میں مطالبہ مشرقی پاکستان کے مختلف سماجی طبقات کی طرف سے مختلف فورمز پر پیش کیا گیا۔ تاہم اس مطالبے کو اس وقت کی حکمران اشرافیہ نے مسترد کر دیا‘ حالانکہ کئی ممالک میں ایک سے زیادہ قومی زبانیں موجود ہیں۔ بنگالی زبان کے حق میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا‘ جو 21 فروری 1952ء کو اس وقت پُرتشدد ہو گیا جب ڈھاکہ یونیورسٹی کے غیر مسلح نوجوان مظاہرین پر پولیس نے فائرنگ کر دی‘ جس کے نتیجے میں متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ واقعات ملک بھر میں بے چینی کا باعث بنے۔ آخرکار 1956ء میں حکومت نے دبائو کے آگے جھکتے ہوئے اعلان کیا کہ اردو اور بنگالی‘ دونوں پاکستان کی قومی زبانیں ہوں گی۔
بنگالیوں کے برعکس‘ پنجابیوں نے‘ جو پاکستان کی دوسری سب سے بڑی لسانی اکثریت تھے‘ اردو اور بنگالی کے ساتھ پنجابی کو ایک سرکاری زبان کے طور پر شامل کرنے کا مطالبہ کبھی نہیں کیا۔ اس کی تین ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ پنجابی زبان بنگالی کے برعکس گرامر‘ الفاظ اور نحو کے لحاظ سے اردو کے ساتھ قریبی مماثلت رکھتی ہے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ پنجابی بولنے والے افراد‘ بنگالیوں کے برعکس طاقت کے مراکز جیسے فوج‘ بیورو کریسی اور عدلیہ سے جڑے ہوئے تھے اور تیسری وجہ یہ کہ شہری پنجابیوں نے اردو کو اپنی مادری زبان پنجابی پر ترجیح دی۔
دوسری طرف بنگالیوں نے اپنی مادری زبان بنگالی کو اپنا فخر سمجھا اور اسے تسلیم کرانے کے لیے مستقل کوششیں جاری رکھیں۔ شہری پنجابیوں نے اپنی مادری زبان کے بجائے اردو کو اپنایا اور ا پنے بچوں کو اردو اور انگریزی زبان کا ماحول فراہم کیا۔ گزشتہ تین نسلوں سے شہری پنجابیوں نے اپنی مادری زبان کو اپنے گھروں سے نکال دیا ہے۔ پنجابی بولنے پر وہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ مزید برآں‘ سکولوں میں پنجابی کو ایک لازمی مضمون کے طور پر نہیں پڑھایا جاتا کیونکہ اسے سماجی طور پر کم حیثیت والی زبان سمجھا جاتا ہے۔ شہر میں بسنے والے پنجابیوں کے بچے مادری زبان کے خانے میں پنجابی کے بجائے اردو لکھنا پسند کرتے ہیں۔
اس کے برعکس‘ سندھی اور پشتو زبانوں کے بارے میں ایک مختلف رویہ دیکھنے کو ملتا ہے‘ جو فخر سے بولی جاتی ہیں اور انہیں سکولوں میں اکیڈیمک سپورٹ بھی حاصل ہے۔ یہ بات طے ہے کہ زبان محض ایک ابلاغی ذریعہ نہیں بلکہ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ایک طاقتور شناختی علامت بھی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے شہروں میں بسنے والے پنجابیوں نے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ پنجابی کو سکولوں میں ایک مضمون کے طور پر شامل کیا جائے۔ پنجابی کو ترک کرنے کا اثر براہِ راست پنجابی زبان کی آبادی پر پڑا ہے‘ جس میں مسلسل کمی مختلف مردم شماریوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ 1951ء میں پنجابی زبان کی آبادی 57.08 فیصد تھی۔ 1961ء میں یہ کم ہو کر 56.39 فیصد ہو گئی۔ 1981ء کی مردم شماری میں یہ مزید کم ہو کر 48.17 فیصد رہ گئی۔ 1998ء میں یہ 44.15 فیصد پر پہنچ گئی۔ 2017ء کی مردم شماری میں یہ 38.7 فیصد رہ گئی اور 2023ء کی ڈیجیٹل مردم شماری میں یہ مزید کم ہو کر 36.98 فیصد رہ گئی ہے۔ اس کے برعکس‘ اردو زبان کی آبادی جو 1951ء میں صرف 3.5 فیصد تھی‘ 2023ء کی مردم شماری میں 9.25 فیصد ہو گئی ہے۔ اسی طرح سندھی‘ پشتو‘ بلوچی اور سرائیکی زبانوں کی آبادی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ان اعداد وشمار سے پتا چلتا ہے کہ پنجابی زبان کی آبادی کے علاوہ تمام زبانوں کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
پنجابی زبان کی آبادی میں متواتر کمی کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ ایک سبب یہ کہ پہلے سرائیکی اور کچھ دوسر ی زبانوں کو پنجابی میں شمار کیا جاتا تھا لیکن اب سرائیکی اور ان زبانوں کے علیحدہ ہونے سے پنجابی زبان کے اعداد وشمار میں کمی آئی ہے لیکن ایک بڑی وجہ شہر میں بسنے والے پنجابیوں کا اپنی زبان کو ترک کرنا ہے۔ ان کی نئی نسلیں پنجابی سے بالکل نابلد ہیں۔ وہ صرف اردو اور انگریزی سے واقف ہیں۔ یہ صورتِ حال انتہائی تشویشناک ہے کیونکہ اس کا براہِ راست تعلق پنجابی کی ہر دم سمٹتی ہوئی شناخت سے ہے۔ پنجابی زبان کی بحالی کے لیے فوری اقدامات ضروری ہیں۔ سب سے اہم قدم پنجابی کو سکولوں میں لازمی مضمون کے طور پر شامل کرنا ہے۔ اس کے لیے زبان کی ایک جامع پالیسی متعارف کرانے اور اس پر عمل درآمد کرانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ پنجابی زبان کو فروغ دینے کے لیے کانفرنسز‘ سیمینارز‘ فیسٹیولز‘ ورکشاپس اور ادبی تقریبات کا انعقاد کیا جائے۔ میڈیا بھی زبان کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ ٹی وی چینلز پر پنجابی پروگرامز کے لیے کوٹہ مختص کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر‘ پنجابی زبان کو خاندانوں اور برادریوں میں روزمرہ کی گفتگو اور ثقافتی سرگرمیوں میں شامل کیا جائے تاکہ آنے والی نسلوں تک اس کا تسلسل یقینی بنایا جا سکے۔ اگر پنجابی زبان کے احیا کے لیے اب بھی سنجیدہ کوششیں نہ کی گئیں تو آنے والے برسوں میں یہ کام مشکل ہی نہیں‘ ناممکن ہو جائے گا۔