2024ء کا سال اپنے اختتام کو پہنچا۔ نئے سال کا آغاز ہو چکا ہے۔ نئے سال کے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ہم پچھلے برس کے اہم تعلیمی واقعات کا جائزہ لیں تاکہ آئندہ کے سفر میں ہمارے ٹارگٹ واضح ہوں۔ 2024ء کا پہلا اہم واقعہ جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیناتی تھا۔ سپریم کورٹ کے ایک حکم کے ذریعے حکام کو ہدایت دی گئی کہ وہ یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی خالی اسامیوں کو پُر کریں۔ یہ حکم اپریل 2024ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ایک درخواست دائر ہونے کے بعد جاری کیا گیا۔ درخواست گزار نے عدالت سے یہ استدعا کی کہ 147سرکاری یونیورسٹیوں میں سے تقریباً 60 باقاعدہ وائس چانسلرز کے بغیر کام کر رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکام کو تین ماہ کے اندر اِن اہم اسامیوں کو پُر کرنے کا حکم دیا۔ اس کے نتیجے میں کئی یونیورسٹیوں کو مستقل وائس چانسلرز ملے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ پاکستان میں وائس چانسلرز کی تقرری میں تاخیر ایک معمول کیوں بن چکا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے فیصلہ ساز وقت پر وائس چانسلرز کے انتخاب کا عمل شروع نہیں کرتے تاکہ تقرریوں کا بروقت اعلان کیا جا سکے۔
2024ء کا دوسرا اہم واقعہ وزیراعظم کی طرف سے 30اپریل 2024ء کو تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان تھا۔ تعلیمی ایمرجنسی کو سات مئی 2024ء کو باقاعدہ طور پر نوٹیفائی کیا گیا‘ جس میں 14 کاموں کو مقررہ مدت میں مکمل کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ 25 جون 2024ء کو ایک ٹاسک فورس تشکیل دی گئی جس کے سربراہ وزیراعظم ہیں‘ تاہم سات ماہ میں اس ٹاسک فورس کا صرف ایک اجلاس ہوا۔ ان 14کاموں میں مجموعی پیشرفت اب تک بہت سست اور غیر اطمینان بخش ہے۔ یہاں 2011ء کی تعلیمی ایمرجنسی رپورٹ کا حوالہ دینا غیر مناسب نہ ہوگا‘ جس میں ڈھائی کروڑ بچوں کے سکول سے باہر ہونے اور تعلیم کیلئے محض دو فیصد بجٹ مختص کرنے پر افسوس کا اظہار کیا گیا تھا۔ بدقسمتی سے 2011ء کی اس رپورٹ کے 13برس بعد صورتحال بہتر ہونے کے بجا ئے پہلے سے بدتر ہو گئی ہے۔ سکول سے باہر بچوں کی تعداد دو کروڑ 50 لاکھ سے بڑھ کر اب دو کروڑ 60 لاکھ ہو چکی ہے‘ اسی طرح تعلیم پر مختص بجٹ جی ڈی پی کے دو فیصد سے کم ہو کر 2023ء میں صرف 1.5فیصد رہ گیا تھا۔ تعلیمی ایمرجنسی کا محض اعلان کافی نہیں‘ اس کیلئے ٹھوس اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہمیں ماضی کی تعلیمی پالیسیوں کی ناکامیوں سے سیکھنا ہو گا اور حقیقت پسندانہ اہداف‘ مؤثر عملدر آمد‘ نگرانی کی توانا حکمتِ عملی اور مضبوط احتسابی نظام پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی۔2024ء کا تیسرا اہم واقعہ مذہبی تعلیم‘ یعنی مدارس کی تعلیم کے حوالے سے تھا۔ یہ سب کچھ 26ویں آئینی ترمیم کے ساتھ شروع ہوا‘ جہاں حکومت کو مولانا فضل الرحمن کی حمایت کی ضرورت تھی۔ بدلے میں حکومت نے جمعیت علمائے اسلام کے تیار کردہ آرڈیننس کی حمایت کی۔ سرکاری رپورٹس کے مطابق‘ مدارس کی کل تعداد 30 سے 40ہزار کے درمیان ہے۔ ان میں سے 17ہزار 738 مدارس وزارتِ تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں‘ جن میں 22 لاکھ 49ہزار 520 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ان طلبہ کا مستقبل کیا ہوگا جن کے مدارس وزارتِ تعلیم کے ساتھ رجسٹرڈ نہیں ہیں؟
2024ء کا چوتھا اہم واقعہ صوبائی حکومتوں کی جانب سے یونیورسٹیوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوششیں تھیں۔ سندھ میں صوبائی اسمبلی میں یونیورسٹی ایکٹ میں چند اہم ترامیم منظور کی گئیں۔ ان میں سب سے اہم ترمیم یہ ہے کہ اب وائس چانسلرز کے امیدواروں کیلئے پی ایچ ڈی کی شرط ختم کر دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اب پی ایچ ڈی ڈگری کے بغیر‘ کسی بھی شخص کو وائس چانسلر مقرر کیا جا سکتا ہے۔ اس تبدیلی کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں کیونکہ اس سے بیورو کریٹس کیلئے یونیورسٹیوں‘ جو اعلیٰ تعلیم کے مراکز ہیں‘ کا کنٹرول حاصل کرنے کے دروازے کھل جائیں گے۔ اس فیصلے کی تہہ میں بنیادی مفروضہ یہ ہے کہ ماہرینِ تعلیم میں انتظامی صلاحیتوں کی کمی ہوتی ہے اور بیورو کریسی کے انتظامی کیڈر سے تعلق رکھنے والے لوگ یونیورسٹیوں کو بہتر انداز میں چلا سکتے ہیں۔ ایک اور اہم ترمیم یہ ہے کہ وائس چانسلرز کی مدتِ ملازمت اب چار سال ہو گی‘ جس میں مزید توسیع کی گنجائش ہو گی۔ توسیع کا یہ امکان وائس چانسلرز کو حکومت کی حمایت کرنے پر مائل کرے گا تاکہ ان کی مدتِ ملازمت میں توسیع ہو سکے۔خیبر پختونخوا میں بھی یونیورسٹی ایکٹ میں کچھ بنیادی ترامیم کی گئی ہیں۔ سب سے اہم ترمیم یہ ہے کہ اب گورنر کے بجائے وزیراعلیٰ یونیورسٹیوں کے چانسلر کے طور پر کام کرے گا۔ اس بڑی تبدیلی کے سنگین اثرات ہوں گے۔ اول یہ کہ گورنر کا وزیراعلیٰ کے اقدامات پر کوئی چیک نہیں ہوگا۔ دوم یہ کہ وزیراعلیٰ (چانسلر) کو یونیورسٹی سینیٹ کے سربراہ کے طور پر سینیٹ میٹنگز کی صدارت کرنا ہو گی۔ ایک یونیورسٹی عام طور پر سال میں کم از کم دو سینیٹ میٹنگز کا انعقاد کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وزیر اعلیٰ کو صوبے کی 34یونیورسٹیوں کی متعدد میٹنگز میں شرکت کیلئے اپنے انتہائی مصروف شیڈول سے وقت نکالنا ہوگا۔ ایکٹ میں ایک اور ترمیم یہ ہے کہ وائس چانسلر کے عہدے کیلئے شارٹ لسٹ کیے گئے امیدواروں کا پینل وزیراعلیٰ کو حروفِ تہجی کی ترتیب میں بھیجا جائے گا‘ جبکہ ماضی میں اسے میرٹ کے مطابق بھیجا جاتا تھا۔ یہ حکومت کی طرف سے وزیراعلیٰ کو اپنی صوابدید استعمال کرنے کیلئے قانونی کور دینے کے مترادف ہے۔ یونیورسٹی ایکٹ میں ایک اور ترمیم یہ ہے کہ وائس چانسلر کی مدت اب چار سال ہوگی جبکہ ماضی میں یہ تین سال ہوا کرتی تھی۔ یہ بظاہر امید افزا ترمیم ہے لیکن اس میں اہم بات یہ ہے کہ دو سال کے بعد وائس چانسلر کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا اور اس کی بنیاد پر اس کی مدت کو ختم کیا جا سکتا یا اس میں توسیع دی جا سکتی ہے۔ یہ ترمیم وائس چانسلرز کے سروں پر ایک تلوار کی طرح لٹکتی رہے گی اور نتیجتاً وہ مستقل طور پر غیریقینی حالت میں کام کریں گے۔2024ء کا پانچواں اہم واقعہ پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ تھا کہ عوامی سکولوں کو پبلک سکولز ری آرگنائزیشن پروگرام کے تحت نجی اداروں کے سپرد کیا جائے۔ اس پروگرام کے دو مراحل مکمل ہو چکے ہیں۔ پہلے مرحلے میں 5863 پرائمری سکول آئوٹ سورس کیے گئے۔ دوسرے مرحلے میں 4789 سکول آئوٹ سورس کیے گئے۔ دوسرے مرحلے کیلئے درخواستیں نو دسمبر تک وصول کی گئیں۔ تیسرے مرحلے کی تکمیل 2025ء کی گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران متوقع ہے۔ یہ اقدام بظاہر اس آئینی شق سے انحراف ہے جو ریاست کو مفت اور لازمی تعلیم کی ذمہ داری تفویض کرتی ہے۔ مالی عدم استحکام کے دوران سکول کس طرح تدریسی عمل کو برقرار رکھ سکتے ہیں؟ ان پروگراموں میں داخل کمزور بچوں کے تعلیمی حقوق کا تحفظ کون کرے گا؟ عوامی سکولوں پر توجہ مرکوز کرنے اور ان کی بہتری کیلئے‘ خاص طور پر گورننس کے شعبے میں ایک جامع اصلاحاتی پروگرام شروع کرنے کی فوری اور سنجیدہ ضرورت ہے تا کہ انہیں نجی شعبے کے سہارے کے بغیر بلند کیا جا سکے۔
2024ء بھی پچھلے برسوں کی طرح بلند بانگ سرکاری دعوؤں اور خوش رنگ خوابوں کا سال رہا۔ کاغذ وں میں دکھائی گئی اصلاحات سے ہوائی قلعے تعمیر کیے گئے اور ان اقدامات کی اس قدر تشہیر کی گئی کہ ایسے محسوس ہوا کہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل تلاش کر لیا گیا ہے لیکن اس سلسلے میں کوئی ٹھوس عملی اقدامات نظر نہیں آتے۔ منیر نیازی نے شاید اسی صورتحال کیلئے کہا تھا:
منیرؔ اس شہر پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ