ایسٹ انڈیا کمپنی جو ہندوستان میں تجارت کے لیے آئی تھی اب نہ صرف سیاست کے میدان میں داخل ہو گئی تھی بلکہ عملی طور پر بنگال میں اقتدار کے فیصلے کر رہی تھی۔ کمپنی کے معاشی مفادات اس کے سیاسی اثر ونفوذ کے ساتھ جڑے تھے۔ بنگال کی سیاسی شطرنج پر وہ اپنی مرضی کی چالیں چل رہے تھے۔ اب انہوں نے میر جعفر کو ہٹا کر ایک تازہ دم کھلاڑی میر قاسم کو میدان میں اتارا تھا۔
یہ سال 1760ء تھاجب میر قاسم کو بنگال کے تخت پر بٹھایا گیا۔ یاد رہے کہ میر قاسم میر جعفر کا داماد تھا۔ دلچسپ بات یہ کہ میر جعفر کی حکومت کے خاتمے پر وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کا انتخاب بن گیا۔ میر قاسم 1727ء میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے آبائو اجداد بہار سے تھے اور عربی النسل تھے۔ میر قاسم کی شادی میر جعفر کی بیٹی سے اُس وقت ہوئی تھی جب وہ سراج الدولہ کی فوج میں سپہ سالار کے اہم عہدے پر فائز تھا۔ یوں میر قاسم کو اقتدار کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ خاص طور پر جب میر جعفر ایسٹ انڈیا کمپنی کی مدد سے 1757ء میں بنگال کا نواب بنا تو میر قاسم کو اہم سول اور عسکری عہدوں پر کام کرنے کا موقع میسر آیا۔ میر جعفر کے عہدِ اقتدار کے دوران ایسٹ انڈیا کمپنی اور کلائیو نے بنگال کے خزانے کو خالی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ میر قاسم نے یہ سارا منظر بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہ ایسٹ انڈیا کمپنی اور کلائیو کی مال ودولت کی نہ ختم ہونے والی ہوس سے بخوبی آگاہ تھا۔ اس کا دل کڑھتا تھا کہ کیسے بنگال کے وسائل ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہاتھوں لُٹ رہے ہیں۔ اسے یہ بھی احساس تھا کہ کیسے میر جعفر کے حواس پر ایسٹ انڈیا کمپنی اور کلائیو کا خوف سوار رہتا تھا‘ کیسے انگریزوں کے مالی مطالبات روز بروز بڑھتے جا رہے تھے‘ کیسے سات سمندر پار سے آنے والے انگریز مغل بادشاہ کی طرف سے دی گئی ٹیکس مراعات کا غلط اور بے دریغ استعمال کر رہے تھے۔ بنگال کے مقامی شہری بے تحاشا ٹیکس دینے پر مجبور تھے‘ جس سے ان کی کمر ٹوٹ رہی تھی۔ اب میر قاسم کو بنگال کا اقتدار ملا تو اس کے ذہن میں یہ ساری باتیں تھیں۔ اسے معلوم تھا کہ اسے بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ میر جعفر کا انجام اس کے سامنے تھا اور بنگال کے مقامی شہریوں کی کسمپرسی سے بھی وہ پوری طرح آگاہ تھا۔ وہ نوجوان‘ فعال اور ذہین تھا۔ اسے احتیاط سے معاشی اور عسکری محاذوں پر اپنے آپ کو مستحکم کرنا تھا لیکن اسے یہ سب کچھ اس طرح کرنا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو اس کی وفاداری پر شک نہ ہو۔ اسی نے چٹاگانگ‘ میدان پور اور بردوان کے علاقوں میں دیوانی کے حقوق ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے کر دیے تھے۔ اس کے علاوہ اس نے ایک خطیر رقم ایسٹ انڈیا کمپنی کو دے کر وقتی طور پر اس کا منہ بند کر دیا تھا۔ اس طرف سے مطمئن ہو کر اس نے کچھ اہم اقدامات کا فیصلہ کیا۔
سب سے پہلا اور اہم اقدام دارالحکومت کی مرشد آباد سے منگر (Munger) منتقلی تھی۔ اس کا مقصد ایک نئی جگہ پر طاقت کی ازسر نو استواری تھا۔ دارالحکومت کی منتقلی کے بعد اس نے فوج کی تشکیلِ نو کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے نئے ہتھیار اور تربیت کے مواقع مہیا کیے۔ وہ اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار کرنا چاہتا تھا۔ میر قاسم کا تیسرا اہم اقدام زوال پذیر معیشت کو نئی اصلاحات کے ذریعے مضبوط کرنا تھا۔ اسے پورا احساس تھا کہ انگریزوں کو مغل بادشاہ کی جانب سے دی گئی مراعات کے غلط اور بے دریغ استعمال سے بنگال کی معیشت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں اور اس کے خزانے میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ میر قاسم نے ریونیو کے سارے نظام کو نئے سرے سے استوار کرنے کا فیصلہ کیا۔ رائج الوقت ریونیو نظام میں مقامی لوگوں کو تو ٹیکس دینا پڑتا تھا لیکن ایسٹ انڈیا کمپنی ان ٹیکسوں سے مبرا تھی۔ میر قاسم نے ایک دانش مندانہ فیصلہ کیا‘ جس سے مقامی لوگوں کو تجارت میں سہولت مل سکتی تھی۔ اس نے مقامی لوگوں کو بھی ٹیکس میں وہی مراعات دینے کا اعلان کر دیا جو ایسٹ انڈیا کمپنی کو حاصل تھیں۔
اس اعلان سے مقامی لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کیونکہ اب انہیں بھی وہ مراعات اور سہولتیں حاصل تھیں جن سے ایسٹ انڈیا کمپنی فائدہ اٹھا رہی تھی۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی اس فیصلے کو اپنے مفادات کے خلاف سمجھ رہی تھی۔ کمپنی نے ان احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا اور مختلف علاقوں کے لوگوں سے ٹیکس وصول کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب کمپنی اور میر قاسم کے تعلقات میں دراڑ آ گئی۔ کمپنی نے میر قاسم کو اس لیے بنگال کا نواب بنایا تھا کہ وہ ان کے مالی اور سیاسی مفادات کی نگرانی کرے گا لیکن میر قاسم کی نئی اصلاحات سے انہیں یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ وہ بہت جلد ان سے راہیں جدا کرنے والا ہے۔ کمپنی نے سوچا کہ میر قاسم کو اسی مقام پر روکنا ضروری ہو گیا ہے تاکہ اگر وہ آزادی کا کوئی خواب دیکھ رہا ہے تو باز آ جائے۔ کمپنی نے فیصلہ کیا کہ میر قاسم کو اس کی اوقات یاد دلائی جائے۔
1762ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب کے کچھ آدمیوں سے ان کی تجارتی اشیا چھین لیں۔ یہ نواب میر قاسم سے کھلی بغاوت تھی۔ اب میر قاسم کے سامنے دو ہی راستے تھے‘ یا تو وہ خاموشی سے انگریزوں کی دست اندازی کو قبول کر لے اور حالات سے سمجھوتا کر کے اپنے اقتدار سے چمٹا رہے یا پھر ایسٹ انڈیا کمپنی کی اس حرکت کا سختی سے نوٹس لے۔ میر قاسم‘ جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی سرگرمیوں سے تنگ آچکا تھا‘ نے دوسرے راستے کا انتخاب کیا اور کمپنی کے ان افراد کو گرفتار کر لیا جنہوں نے اس کے آدمیوں سے اشیائے تجارت چھینی تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارپرداز نواب کے اس ردعمل سے دنگ رہ گئے۔ انہوں نے ایک میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا کہ میر قاسم کو اس حرکت پر سبق سکھایا جائے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے نواب میر قاسم کی حکومت کے خلاف باقاعدہ اعلانِ جنگ کر دیا۔ میر قاسم جان گیا تھا کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی نظریں صرف بنگال پر نہیں پورے ہندوستان پر ہیں۔ اسے یہ بھی اندازہ تھا کہ انگریزوں کی تربیت یافتہ اور جدید اسلحے سے لیس فوج کا مقابلہ آسان نہیں۔ تب اس کے ذہن میں ایک خیال آیا کہ کیوں نہ ہندوستان کے دیگر حکمرانوں کو بھی ساتھ ملا کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا جائے۔ اس نے مغل بادشاہ شاہ عالم ثانی اور اودھ کے نواب شجاع الدولہ کو اس بات پر راضی کر لیا کہ تینوں فوجیں مل کر ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کا مقابلہ کریں۔ یہ آسان کام نہ تھا لیکن میر قاسم کی سفارتی کوششوں نے اسے ممکن بنا دیا۔ تینوں حکمرانوں کی فوجوں کی کل تعداد چالیس ہزار تھی جو ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کی تعداد سے کئی گنا زیادہ تھی۔ جنگ کا مرکز بکسر کا قصبہ تھا جو پٹنہ سے کچھ فاصلے پر دریائے گنگا کے کنارے تھا۔ شاہ عالم ثانی‘ شجاع الدولہ اور میر قاسم کی فوجوں کے مقابلے میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج کی قیادت میجر ہیکٹر منرو کر رہا تھا۔ 22 اکتوبر 1764ء کو جنگ کا آغاز ہوا۔ اگرچہ اتحادی افواج تعداد میں زیادہ تھیں لیکن ان میں ہم آہنگی کا فقدان تھا۔دراصل وہ ایک نہیں‘ تین فوجیں تھیں جن کے اپنے اپنے سپہ سالار تھے۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی کی فوج منرو کی قیادت میں یکجان تھی۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے لیے یہ زندگی اور موت کی جنگ تھی۔ شکست کی صورت میں ان کے لیے ہندوستان میں کوئی جگہ نہ تھی۔ البتہ جیت کی صورت میں ہندوستان کے خزانے ان کے منتظر تھے۔ (جاری)