ہندوستان کی تاریخ میں 1765ء کا سال ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس سال ایسٹ انڈیا کمپنی نے میر جعفر کے کم سِن بیٹے نجم الدولہ کو بنگال کا نواب مقرر کرکے عملی طور پر اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ 1765ء میں ہی معاہدہ الہ آباد پر دستخط کیے گئے‘ جس کے اہم نکات یہ تھے 1:ایسٹ انڈیا کمپنی بنگال‘ بہار اور اڑیسہ کے علاقوں سے بادشاہ کے نام پر خود ٹیکس وصول کرے گی۔ 2:شاہ عالم ثانی کو پنشن کے طور پر سالانہ 26لاکھ روپے دیے جائیں گے۔ 3:نواب شجاع الدولہ کو الہ آباد اور کورا کے اضلاع دیے جائیں گے۔ 4:نواب علاقے میں نظم ونسق کا ذمہ دار ہو گا جبکہ ایسٹ انڈیا کمپنی ٹیکس وصول کرے گی۔ 5:ایسٹ انڈیا کمپنی شاہ عالم ثانی کو بحفاظت دہلی پہنچانے کی ذمہ دار ہو گی۔
اس معاہدے سے ہندوستان کی اصل حکمرانی ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس آ گئی۔ مختلف علاقوں سے براہِ راست ٹیکس وصولی سے ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمدنی میں بے پناہ اضافہ ہوا جس کی بدولت کمپنی کو اپنی فوج کو مضبوط کرنے کا موقع ملا۔ یوں معاہدے کے بعد ہندوستان کے مغل بادشاہ کی حیثیت محض ایک کٹھ پتلی کی سی رہ گئی۔ یہیں سے مغل بادشاہت کے زوال کا سفر شروع ہوا۔بنگال کے نواب نجم الدولہ کا عہدِ اقتدار محض ایک سال پر محیط تھا جو اس کی پُراسرار موت پر اختتام پذیر ہوا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کا عمل دخل اب انتظامی امور میں بڑھ چکا تھا۔ بنگال کے اقتدار کی مسند پر تعیناتی کمپنی کی سفارش پر ہوتی تھی۔ نجم الدولہ کی وفات کے بعد 1766ء میں اس کے چھوٹے بھائی سیف الدین کو بنگال کا نواب بنایا گیا۔ بنگال میں اب ایسٹ انڈیا کمپنی نے حکمرانی کا دہرا نظام رائج کر دیا تھا جس کے مطابق ریاست کے باشندوں سے ٹیکس وصول کرنے کے اختیارات کمپنی نے اپنے پاس رکھے جبکہ ریاست کی نظم ونسق کی ذمہ داری نواب پر تھی۔ اس دہرے نظام کا تمام تر فائدہ ایسٹ انڈیا کمپنی کو پہنچا جو اَب مالیاتی طور پر خود مختار ہو چکی تھی۔ اس دہرے حکومتی نظام نے نظم ونسق کو بری طرح متاثر کیا اور کرپشن کے دروازے کھول دیے۔ حالات میں ابتری اس قدر بڑھ گئی کہ لوگوں کے معاشی معاملات بُری طرح متاثر ہونے لگے۔ پھر 1770ء کا سال آ گیا جب خراب فصلوں‘ بدانتظامی اور بے لگام کرپشن کی وجہ سے بنگال میں قحط کے حالات پیدا ہو گئے۔ اس قحط سے تقریباً ایک کروڑ افراد موت کے گھاٹ اتر گئے اور تیس لاکھ سے زائد متاثر ہوئے۔ بنگال‘ جو کبھی ہندوستان کا خوشحال ترین صوبہ تھا‘ ایسٹ انڈیا کمپنی کی ظالمانہ پالیسیوں کے باعث اب مکمل طور پر قلاش ہو چکا تھا۔ بھاری ٹیکسوں کی جبری وصولی نے لوگوں کی کمر توڑ دی۔ اسی سال بنگال کا کٹھ پتلی نواب سیف الدین چیچک کے مرض میں مبتلا ہو کر انتقال کر گیا۔ سیف الدین کی وفات کے بعد اسکے چھوٹے بھائی مبارک الدولہ کو بنگال کا نواب بنا دیا گیا۔ قحطِ بنگال کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی شدید تنقید کی زد میں تھی۔ اس تنقید کا مرکزی نکتہ دہرا حکومتی نظام تھا جس کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس لوگوں سے ٹیکسوں کی وصول کا اختیار تھا جبکہ نظم ونسق برقرار رکھنے کی ساری ذمہ داری نواب پر ڈال دی گئی تھی۔ 1772ء میں بنگال کے گورنر Warren Hastings نے اس دہرے حکومتی نظام کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ اب ایسٹ انڈیا کمپنی کے اختیارات میں مالی اور انتظامی معاملات شامل ہو گئے۔ یوں بنگال کا مقامی نواب‘ جو پہلے ہی کمزور تھا‘ اب بالکل بے اختیار ہو گیا اور انگریزوں نے براہِ راست انتظامی امور سنبھال لیے۔ 1773ء میں ایک انتہائی اہم پیشرفت ہوئی جب کمپنی کی بدانتظامی اور مالی بحران سے نمٹنے کیلئے برطانوی پارلیمنٹ میں ریگولیٹنگ ایکٹ پاس کیا گیا۔ یوں ایسٹ انڈیا کمپنی کو برطانوی پارلیمنٹ کے زیرِ انتظام کر دیا گیا۔ کلکتہ میں سپریم کورٹ کے قیام اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے بے مہار اقدامات کو کنٹرول کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان اقدامات کا دوسرا پہلو یہ تھا کہ اب برطانوی حکومت ہندوستان میں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے نئے اُفق دیکھنے لگی تھی۔
بنگال کی نوابی محض ایک نمائشی عہدہ بن چکا تھا۔ مبارک الدولہ نے 1770ء سے 1793ء تک اس عہدے پر کام کیا مگر یہ ایک غیر مؤثر عہدہ تھا کیونکہ اصل طاقت اور اختیار ایسٹ انڈیا کمپنی کے عہدیداروں کے پاس تھا۔ یہ وہ انتظام تھا جس میں ایسٹ انڈیا کمپنی بھی خوش تھی اور نام نہاد نواب بھی‘ جسکی بظاہر تام جھام قائم تھی لیکن دراصل یہ ایک بے اختیار اور کھوکھلا اقتدار تھا۔ 1793ء میں مبارک الدولہ کا انتقال ہوا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اسکے بیٹے بابر علی خان کو بنگال کے تخت پر بٹھا دیا جسکا عہدِ اقتدار سترہ سال (1793ء تا 1810ء ) پر محیط تھا لیکن یہ اقتدار نہیں اقتدار کا سایہ تھا‘ تاہم میر جعفر خاندان کے چشم وچراغ اس بے وقعت اقتدار پر بھی نازاں تھے۔ 1774ء کا سال ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخ میں ایک اہم سال تھا کیونکہ اس سال وارن ہیسٹنگز کو گورنر جنرل مقرر کر دیا گیا۔ اس تعیناتی سے انگریزوں کے عزائم مزید واضح ہو گئے۔ ان کی دلچسپی اب صرف تجارت تک محدود نہیں تھی بلکہ ان کا خواب ہندوستان کو اپنے زیرِ تصرف لانا تھا تاکہ وہ اس کے سیاہ وسفید کے مالک بن سکیں۔
1786ء میں چارلس کارنوالس (Charles Cornwallis) کو ہندوستان کا گورنر جنرل مقرر کیا گیا۔ وہ سات سال تک (1786ء تا 1793ء) اس عہدے پر فائز رہا۔ اس دوران اس نے انتظامی‘ عدالتی اور مال گزاری کے حوالے سے اصلاحات کا اعلان کیا جن کے دوررس نتائج مرتب ہونے والے تھے۔ یہ اصلاحات حکومتِ برطانیہ کی ہندوستان میں طویل قیام کی خواہش کا اظہار تھیں۔ ان اصلاحات کے پس منظر میں طویل سامراجی تسلط کا منصوبہ تھا۔ بظاہر ان اصلاحات کا مقصد ہندوستان میں سیاسی اور معاشی استحکام لانا تھا لیکن ان کی آڑ میں برصغیر میں سماجی اور معاشی عدم مساوات کو مزید بڑھاوا دیا گیا۔انتظامی سطح کی اصلاحات میں سول سروس کا اجرا‘ پرائیویٹ تجارت اور تحائف پر پابندی‘ بیورو کریسی کا سٹرکچر‘ جس میں بیورو کریٹس کی تنخواہوں پر تقرری اور بیورو کریسی میں اعلیٰ عہدوں پر صرف یورپی باشندوں کی تعیناتی شامل تھی۔ عدالتی اصلاحات میں ڈسٹرکٹ کورٹس‘ صوبائی اپیل کورٹس‘ صدر‘ دیوانی اور نظامت عدالتیں‘ ہندو؍ مسلم پرسنل لاز‘ اقلیتی کریمنل لاء اور ججوں کو بھاری تنخواہوں کی تجاویز شامل تھیں۔ ریونیو اصلاحات میں بنگال میں زمینداری نظام‘ مستقل مختص (fixed) ریونیو شامل تھے۔ ملٹری اصلاحات میں ایک منظم آرمی کا قیام‘ اعلیٰ عہدوں پر مقامی لوگوں کی تعداد میں کمی اور انگریز افسروں کی تعیناتی شامل تھی۔ اسی طرح پولیس اصلاحات میں ایک ریگولر پولیس فورس کا قیام‘ زمینداری پولیس کے بجائے ریاست کی پولیس اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس کی تعیناتی کے اقدامات شامل تھے۔ان اصلاحات کے نتیجے میں برطانوی انتظامی اور عدالتی نظام کی بنیاد رکھ دی گئی۔ طاقت کا ارتکاز مرکزی سطح پر کر دیا گیا۔ ان اصلاحات میں نسلی تفرقات کو باقاعدہ ادارہ جاتی سطح پر تسلیم کیا گیا۔
یہ سارے اقدامات اور اصلاحات برطانوی حکومت کی ہندوستان میں براہِ راست دلچسپی کے مظہر تھے۔ برطانوی حکومت نے اب تین جہات میں کام کا آغاز کر دیا۔ یہ تین جہات اقتدار کی وسعت (Expension)‘ اقتدار کا استحکام (Consolidation) اور سٹرٹیجک الائنس (Strategic Alliance) تھیں۔ ایسٹ انڈیا کمپنی جو تجارت کے لیے ہندوستان آئی تھی‘ اب پوری طرح سیاست میں ملوث ہو چکی تھی اور اقتدار کے زینے پر قدم بقدم سفر کر رہی تھی۔ بنگال اس کے زیرِ نگیں آ چکا تھا۔ مغل بادشاہت کی بساط لپیٹی جا چکی تھی اور ہندوستان کی روپہلی سرزمین پر غلامی کی طویل سیاہ رات دھیرے دھیرے اُتر رہی تھی۔ (ختم)