"FBC" (space) message & send to 7575

دل کے خوش رکھنے کو....

کچھ باتیں، کچھ خیالات ایسے ہوتے ہیں جو اپنی خوبصورت بُنت اور معنی کے حوالے سے دل کو یوں بھاتے ہیں گویا پورا وجود عش عش کر اٹھتا ہے، تن پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے ، من نہال ہو جاتا ہے اور روح جھوم اٹھتی ہے اور اِن دنوں تو تن اور من کو جھومنے جھامنے کے پے درپے مواقع مل رہے ہیں کہ انتخابات جو سر پر آن پہنچے ہیں جن میں کامیابی اور عوام کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کی طرف سے دل کو خوش اور باربار خوش کرنے والے بیانات یکے بعد دیگرے سامنے آرہے ہیں جن میں ایک بہت ہی خوب صورت اضافہ تحریک انصاف کے گیارہ نکات کی صورت ہوچکا ہے جن پر عمل ہوجاتا ہے تو گویا سچ میں ایک نیا پاکستان وجود میں آجائے گاواہ ۔اِس کا تصور کرکے ہی دل خوش ہوجاتا ہے ، بس ذرا جب اِسی تناظر میں ماضی یاد آتا ہے تو منہ کا ذائقہ کڑوا سا ہونے لگتا ہے لیکن حقائق سے فرار بھی تو ممکن نہیں ہے ،،حقیقت تو یہ بھی ہے کہ
سلا دیا ماں نے بھوکا بچے کو یہ کہہ کر
پریاں آئیں گی خواب میں روٹیاں لے کر 
سترسالوں کے بیشتر اوقات میں ہم بیشتر پاکستانیوں کا بس یہی مسئلہ رہا ہے جس کی سنگینی میں آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے اور دنیا بھر میں تقریباً ستاسی کروڑ غذائی قلت کے شکار افراد میں آج بھی وطن عزیز کے50فیصد گھرانے غذائی قلت کا شکار ہیں، مطلب وہ گھرانے جنہیں دووقت کا کھانا بھی پیٹ بھر کا نصیب نہیں ہوپاتا اور یہ مسئلہ اِس صورت میں زیادہ سنگین ہوجاتا ہے کہ پاکستان تو گندم، چاول اوردودھ جیسی بنیادی غذائیں پیدا کرنے والا بڑا ملک ہے تو پھر وہاں اتنی بڑی آبادی غذائی عدم تحفظ کا شکار کیوں ہے ؟اِس کا ایک جواب تو بہت سیدھا سا ہے کہ ہمارے ہاں گندم، چاول اور مکئی سمیت بہت سی سبزیاں اور پھل وافر مقدار میں پیدا تو ہوتے ہیں لیکن چالیس فیصد سبزیاں اور پھل ذخیرہ کرنے کا مناسب بندوبست یعنی کُول چین نہ ہونے کے باعث گل سڑ کر ضائع ہورہے ہیں، نتیجتاً دس برس پہلے تک ہمارے ہاں لوگ اپنی آمدنی کا اوسطاً سینتیس فیصد خوراک پر خرچ کرتے تھے لیکن اب یہ شرح تہتر فیصد ہوچکی ہے جبکہ خوراک پھر بھی مناسب مقدار اور معیار کی حاصل نہیں ہوپاتی اور جب پیٹ خالی ہوتو مختصرا ًیہی کہا جاسکتا ہے کہ ، ٹِڈھ نا پئیاں روٹیاں تے سبھی گلاں کھوٹیاں،ایک دوسرا بڑا مسئلہ سرچھپانے کے لیے چھت کا حصول ہے تو مختصراً اِس بابت بھی کچھ جان لیتے ہیں کہ وطن عزیز کی تقریباً 40فیصد آبادی یا تو کرائے کے مکانوں میں رہائش پذیر ہے یا پھر ایسی آبادیوں میں جہاں ، شہری سہولیات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا ہے تو یہ صدا بھی بکثرت سننے میں آتی ہے ، 
درد دل کو زباں چاہیے ، مجھے تھوڑا سا آسماں چاہیے 
فقیر ہوں میں در در کا ،رہنے کو اک مکاں چاہیے
روٹی کے بعد یہ دوسرا مسئلہ ہے جو دربدربھٹکنے والوں کی زندگی اجیرن کیے رکھتا ہے،اِن دونوں ضرورتوں کے حوالے سے لوگوں کی نبض پر سب سے پہلے ذوالفقار علی بھٹونے ہاتھ رکھا تو پھر کیا تھا ایک خلقت تھی جس نے بھٹو صاحب کو اپنے اعتماد سے نواز اور وہ ایک مقبول ترین رہنما کی حیثیت سے وزیراعظم بنے لیکن پھر کیا ہوا؟وہی جو ہونا چاہیے تھا،، اگر روٹی کپڑا اور مکان والا نعرہ حقیقت کا روپ دھار لیتا تو یہ انہونی ہوتی اور جو اِس وعدے کے ساتھ ہوا ، وہ ہونی تھی،بقول حبیب جالب کے ،
وہی حالات ہیں فقیروں کے /دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
والا ہی معاملہ رہا جس کے بعد جنرل ضیاالحق کی طویل آمریت کا دور شروع ہوا تو تمام سیاسی نعرے اپنی موت آپ ہی مرگئے کہ کسی ڈکٹیٹر کو عوام پر حکمرانی کرنے کے لیے نعروں کی نہیں بلکہ خوف اور دبدبے کے ساتھ سیاسی کندھے کی ضرورت ہوتی ہے جو اُنہیں 23 مارچ 1985 کومحمد خان جونیجو کی صورت میں میسر آیا۔ پھر جب جونیجو اور ضیا الحق کے درمیان افغان پالیسی کے باعث اختلافات شروع ہوئے تو ضیا الحق نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے نیشنل اسمبلی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کو ختم کردیا جس کی وجہ سے ایک بار پھر جمہوریت ڈی ریل ہوگئی ،اِس خوف سے کہ کہیں ملک میں دوبارہ مارشل لانافذ نہ کردیا جائے ، محمد خان جونیجو اپنے پانچ نکات سمیت سانگھڑ واپس سدھار گئے ، اِس کے بعد آنے والے سیاسی اور آمریت کے ادوار میں عوامی ترقی کے نام پر منشور سامنے آتے رہے نعرے بھی لگتے رہے لیکن صورت حال آج بھی وہی ہے کہ ملک میں مجموعی طور پر غربت کی سطح 39 سے 40 فیصد کے درمیان ہے جس حوالے سے فاٹا 73فیصد شرح غربت کے ساتھ سب سے اوپر ہے جبکہ کے پی کے میں یہ شرح 49 فیصد تک ہے جہاں پچھلے پانچ سالوں سے تحریک انصاف برسراقتدار ہے جس کے سربراہ عمران خان نے اب 11 نکات کی صورت عوامی فلاح و بہبود اور ترقی کا ایک نیا منشور پیش کیا ہے، یہ نکات سامنے آنے کے بعد دل بلیوں اُچھل رہا ہے کہ پہلی حکومتوں کے ادوار میں تو جو کچھ ہوا سو ہو ، اب ضرور کایا پلٹ جائے گی کہ ہم تو ویسے بھی خواب و خیال میں رہنا پسند کرتے ہیں ؎
دوجگہ رہتے ہیں ہم،ایک تو یہ شہر ملال
ایک وہ شہر جو خوابوں میں بسایا ہوا ہے
اب اختلاف تو یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر پہلی حکومتیں اپنے کہے پر عمل نہیں کرسکیں تو اِس کا مطلب یہ تو نہیں کہ برسراقتدار آنے کے بعد عمران خان بھی یہ کام نہیں کرسکیں گے ، دعا ہے کہ پہلے تو اُن کی اقتدار میں آنے کی خواہش پوری ہوجائے اور پھر اُنہیں اتنا موقع بھی مل سکے کہ وہ اپنے 11 نکات کو عملی جامہ پہنا سکیں اگرچہ اِن گیارہ نکات میں سے نو تو اٹھارویں ترمیم کے نتیجے میں صوبائی ایشوز بن چکے ہیں، بہرحال 11نکات میں سے فی الحال ایک ہی نکتے پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ ملک بھر میں یکساں نصاب تعلیم رائج کیا جائے گا، یعنی اِس وقت جو چار کروڑ بائیس لاکھ سے زائد بچے سرکاری تعلیمی اداروں ، 24لاکھ 75 ہزار مدارس اور 9 لاکھ بچے انگریزی میڈیم اداروں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں، وہ سب ایک ہی چھترچھایہ تلے ایک جیسی تعلیم ہی حاصل کریں گے لیکن ابھی تک اِس حوالے سے اُٹھنے والے ایسے سوالات کے جوابات سامنے نہیں آسکے کہ 18 ویں ترمیم کے بعد تعلیم بھی تو اب صوبوں کا مسئلہ ہے تو پھر یہ سب کچھ کیا جانا کیسے ممکن ہوسکے گا یا پھر اُنہیں یقین ہے کہ وہ چاروں صوبوں میں بھی حکومت بنانے میں کامیاب رہیں گے یا پھر یہ سب کچھ 18ویں ترمیم ختم کرکے کیا جائے گا ،، بظاہر یہ بھی ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ اِس ترمیم کو ختم کرنے کے لیے تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں دوتہائی اکثریت چاہیے ہوگی جس کا حاصل ہونا معجزہ ہی ہوسکتا ہے اور اگر یہ معجزہ ہوبھی جاتا ہے تو سینیٹ میں صرف 12 سیٹوں کے ساتھ اکثریت کہاں سے لائیں گے ؟؟بالکل اِسی طرح ملک بھر میں صحت کی یکساں سہولیات کی فراہم کی بات کی گئی ہے ، کرپشن سے پاک پاکستان کی نوید سنائی گئی ہے ،ماحولیات ، پولیس اور زراعت وغیرہ کی بہتری کی بات بھی کی گئی ہے گویا عمران خان برسراقتدار آتے ہیں تو اُن کے پاس عوامی فلاح و بہبود کا پورا پروگرام موجود ہے اور یہ پروگرام سن کر ابھی تک ایک سرشاری کی سی کیفیت طاری ہے کہ پروگرام پر عمل ہوپاتا ہے یا نہیں یہ الگ بات، پروگرام تو موجود ہے ہاں اگر تھوڑا سا تردد کرکے اِن نکات کے قابل عمل ہونے کے بارے میں بھی قوم کو اعتماد میں لے لیا جاتا اور ساتھ ہی اِن تمام حوالوں سے کے پی کے کو رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا کہ اِس میں سے بہت کچھ ہم نے وہاں کردکھایا ہے جہاں ہم پانچ سالوں سے برسراقتدار ہیںتو کتنا ہی اچھا ہوتا ، گرچہ ایسا ہونے کی توقع تو نہیں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں