"FBC" (space) message & send to 7575

ایک تاریخی کردار… برسبیلِ تذکرہ

آج بات کریں گے کہ ایک ایسے ''مولانا‘‘ کی‘ جو سیاست کے میدانِ خارزار میں ہمیشہ اپنے اصولی موقف پر قائم رہے۔ جن مولانا کی ہم بات کر رہے ہیں ان کے خیالات سے تو اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اُنہوں نے اپنی راست بازی کے باعث اپنی زندگی میں بہت زیادہ شہرت حاصل کی تھی‘ اتنی شہرت کہ سروجنی نائیڈو نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ ''آزاد جس دن پیدا ہوئے‘ وہ 50 سال کے ہو گئے‘‘۔ یقینا آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ مولانا ابو الکلام آزاد کی بات ہو رہی ہے، جن کا اصل نام ابو الکلام محی الدین احمد آزاد تھا اور ان کے والد انہیں فیروز بخت کے نام سے پکارتے تھے۔ مولانا آزاد 1888ء میں مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ اگرچہ وہ ہمیشہ ہی تقسیمِ ہند کے مخالف رہے مگر اپنے اِس موقف کے حق میں وہ بھرپوردلائل رکھتے تھے لیکن ظاہر ہے کہ تب ایک علیحدہ وطن کا حصول مسلمانانِ برصغیر کا مطمح نظر ٹھہرا تھا سو‘ پاکستان وجود میں آگیا۔ مولانا آزاد کی سوانح عمری لکھنے والے سید عرفان حبیب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''آزاد کا تعلق حکیم اجمل خان، ڈاکٹر ایم اے انصاری، خان عبدالغفار خان اور حسرت موہانی جیسے ان رہنماؤں میں ہوتا تھا جو خود کو مسلم لیڈر کہنا پسند نہیں کرتے تھے‘‘۔ آگے چل کر عرفان حبیب لکھتے ہیں ''نجی زندگی میں وہ سب ہی عقیدت مند مسلمان تھے، لیکن تحریک خلافت کے علاوہ انہوں نے عوامی زندگی میں کبھی اپنے مذہب کو سامنے نہیں آنے دیا‘‘۔ ایک ہندو مصنف مہا دیو ڈیسائی نے بھی مولانا آزاد کی سوانح عمری لکھی جس میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ''آزاد نے کہا تھا کہ ایک ہزار سال پہلے‘ تقدیر نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک ساتھ آنے کا موقع دیا تھا، ہم ایک دوسرے سے لڑے ہوں گے، لیکن حقیقی بھائیوں کے درمیان بھی لڑائی ہوتی ہے، آپس کے اختلافات دور کرنے پر زور دیا جاتا ہے، ہر امن پسند کو ان دونوں کے درمیان برابری پر زور دینا چاہیے‘‘۔ 1939ء میں گاندھی نے مولانا آزاد سے کانگریس کی قیادت کرنے کو کہا جس پر مولانا ابو الکلام آزاد نے کانگریس کی صدارت کا الیکشن لڑا جس میں اُنہیں 1854 ووٹ ملے جبکہ ان کے حریف ایم این رائے صرف 183 ووٹ حاصل کر سکے اور یوں مولانا آل انڈیا کانگریس کے صدر منتخب ہو گئے۔ مولانا ابو الکلام آزاد ہمیشہ تقسیم ہند کی مخالفت کرتے رہے اور جب تقسیم ہند کے بعد بھارت میں رہنے والے مسلمانوں نے پاکستان کی طرف ہجرت کرنا شروع کی تو تب بھی اُنہوں نے مسلمانوں کو ہجرت سے روکنے کی کوشش کی۔
مولانا آزاد کے بعض خیالات ایسے تھے جنہیں ضبطِ تحریر میں نہیں لایا جا سکتا، اِس لیے نہیں کہ اُنہوں نے کوئی غلط بات کی تھی بلکہ اس وجہ سے وہ ناقابلِ بیان ٹھہرے کہ بعض صورتوں میں اُنہوں نے ضرورت سے زیادہ سچ بول دیا تھا۔ اُنہوں نے مستقبل کا کچھ ایسا نقشہ کھینچا تھا کہ جس میں سے بہت کچھ ہم پورا ہوتے دیکھ چکے اور بہت کچھ پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح نے مولانا آزاد کو کانگریس کا ''شو بوائے‘‘ قرار دیا تھا، یعنی کانگریس نے مولانا آزاد کو اپنی پارٹی کا سربراہ تو بنا دیا مگر اپنے اندر سے مسلم دشمنی کا خاتمہ نہیں کر سکی۔ اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اسی کانگریس نے ہندوستان کو سردار ولبھ بھائی پٹیل جیسے متعصب اور انتہاپسند رہنما دیے جن کا نام موہن داس گاندھی کے قتل میں بھی نام لیا جاتا رہا۔ اگر پاکستان کی بات کریں تو ہم بھرپور کوششوں سے اپنے لیے ایک آزاد وطن حاصل کرنے میں کامیاب تو ہو گئے لیکن کیا ہم حقیقی معنوں میں خود کو آزاد کہہ سکتے ہیں؟ کیا ہم نے یہاں پر آئین اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے میں کامیابی حاصل کر لی ہے؟ اِن سوالات کا جواب یقینا نفی میں ہے۔ آج بھی آئین اور قانون سے کھلواڑ کو اربابِ حل و عقد نے اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہم ایک قوم کے بجائے ایک ہجوم بن کررہ گئے ہیں۔ 1947ء سے شروع کرکے 2024ء تک آ جائیں‘ درمیان میں کوئی مختصر سا عرصہ بھی پُرسکون دورکا نہیں ملے گا۔ ایک فوج ظفر موج ہے جو ہر دور میں ہم پر مسلط کر دی گئی اور جس کی بدترین مثالیں ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں۔ صبح سے شام تک جھوٹ کا ایسا دور دورہ ہوتا ہے کہ خدا کی پناہ! افسوسناک امر یہ ہے کہ اب ہمارے ہاں اعلیٰ ترین سطح پر بھی جھوٹ بولنے کو برا نہیں سمجھا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کا اعتماد پوری طرح سے مجروح ہو چکا ہے۔
بات ہو رہی تھی سیاست میں عزت کمانے کی۔ مولانا ابو الکلام آزاد تقسیم ہند کے بعد بھارت کے پہلے وزیرتعلیم مقرر ہوئے۔ بطور وزیر تعلیم اُنہوں نے بھارت کے نچلے طبقات کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے ایسے ایسے اقدامات کیے کہ پورا بھارت اُن کا گرویدہ ہو گیا۔ آج بھی بھارت کا نیشنل ایجوکیشن سسٹم اُنہی کا تشکیل کردہ ہے جس کا بنیادی مقصد مفت اور ابتدائی تعلیم کا زیادہ سے زیادہ فروغ ہے۔ وہ آزاد انڈیا ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ کے بانی بھی تھے۔ 1992ء میں بھارتی حکومت کی جانب سے انہیں شعبۂ تعلیم میں غیر معمولی کردار ادا کرنے پر بھارت کے سب سے بڑے شہری اعزاز ''بھارت رتنا‘‘ سے نوازا گیا۔ 11 ستمبر 2008ء کو بھارت کی منسٹری آف ہیومن ریسورسز اینڈ ڈویلپمنٹ نے تعلیم کے شعبہ میں ان کے بے مثال کردار کے اعتراف میں ہر سال نومبر کی 11 تاریخ کو‘ جو ابو الکلام آزاد کا یومِ پیدائش ہے‘ بھارت کا ''نیشنل ایجوکیشن ڈے‘‘ منانے کی تجویز دی۔ مولانا آزاد کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ بھارت کے مسلمان زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کریں کیونکہ اُن کے نزدیک تعلیم ہی لوگوں کو پسماندگی سے نکال سکتی ہے۔ یہ الگ بات کہ روایتی گروہ ہمیشہ اُن کی شدید مخالفت کرتے رہے۔ شاید ان گروہوں کو یہ خدشہ لاحق رہا کہ اگر مسلمانوں میں تعلیمی بیداری اور شعور آ گیا تو پھر اُن کی دکانداری کیسے چلے گی۔ مولانا آزاد کو تمام تر عزت ایک ایسے ملک میں ملی جہاں ہندوؤں کی اکثریت تھی اور اُن کا تعلق اقلیتی طبقے سے تھا۔ البتہ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ آج کے انتہاپسند بھارت میں موجودہ حکومت نے مولانا ابو الکلام آزاد کی اہمیت کم کرنے کی دانستہ کوشش کی لیکن اِن اقدامات کو عوامی سطح پر پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔ بیشتر تھنک ٹینکس کی رائے میں ایسا سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے کیا گیا۔ آج بھی بھارت میں یہ بحث کی جاتی ہے کہ اگر مولانا آزاد کو وزیر تعلیم کے بجائے بھارت کا پہلا وزیراعظم بنایا جاتا تو شاید بھارت آج بہت بہتر مقام پر ہوتا اور یہاں اس قدر تنگ نظری اور تعصب نہ پایا جاتا۔ 1958ء میں مولانا آزاد اِس دار فانی سے کوچ کر گئے‘ یہ وہی سال ہے جب ہمارے ملک میں پہلی بار مارشل لا نے اقتدار کا مزہ چکھا۔ مولانا کے سفرِ آخرت کی روداد بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ میجر جنرل شاہنواز کہتے ہیں ''موت سے پہلے بے ہوشی کے دوران کبھی کبھار مولانا کے ہونٹ جنبش کرتے تو ہم کان لگاتے کہ شاید وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں‘ معلوم ہوتا کہ وہ آیاتِ قرآنی کا ورد کر رہے ہیں، جب اُن کی موت کا پختہ یقین ہو گیا تو اطلاع ملنے پر پنڈت نہرو اور دو منٹ بعد بھارتی صدر ڈاکٹر راجندر پرساد بھی آ گئے، سب کی آنکھوں میں آنسو ہی آنسو تھے، آنِ واحد میں ہندوستانی کابنیہ کے شہ دماغ پہنچ گئے، ہر ایک کا چہرہ آنسوؤں کی پھوار سے تر تھا اور ہر طرف ہچکیاں سنائی دے رہی تھیں۔ مسٹر مہابیر تیاگی سراپا درد تھے۔ جب مولانا کی موت کا باقاعدہ اعلان ہوا تو کنگ ایڈورڈ روڈ پر موجود دو لاکھ افراد کی بھیڑ میں ہاہاکار مچ گئی۔ جب کنگ ایڈورڈ روڈ کے بنگلہ نمبر 4 سے مولانا آزاد کا جنازہ اُٹھا تو جنازے میں شرکت کرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ تک پہنچ چکی تھی اور یوں سیاست میں رہ کر بے انتہا عزت کمانے والے مولانا ابو الکلا م آزاد اپنے خالق حقیقی کے حضور پہنچ گئے‘‘۔
مولانا آزاد کی کہانی یہ ثابت کرتی ہے کہ تاریخ کا کٹہرا بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ یہاں پر سچ اور حقیقت اپنے آپ کو منوا کر رہتے ہیں۔ سب کا کردار ایک نہ ایک دن کھل کر رہتا ہے اور ایک نہ ایک دن قصورواروں کو تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہی پڑتا اور اپنے کیے کا جواب دینا پڑتا ہے۔ تاریخ کی جوابدہی میں جتنی زیادہ تاخیر ہوتی ہے‘ حالات اُتنے ہی دگرگوں ہوتے جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں