"FBC" (space) message & send to 7575

اب نظام بدلنا ہو گا!

1857ء میں انگریز بہادر نے پوری مضبوطی کے ساتھ برصغیر پہ اپنے قدم جما لیے تھے۔ جنگِ آزادی میں فتح کے بعد انگریزوں نے ظلم و ستم کا خوب بازار گرم کیا۔ لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا جن میں مسلمانوں کی تعداد غالب تھی۔ اِس خوفناک وقت کی عکاسی ایک انگریز سپاہی کے اپنے چچا کو لکھے جانے والے ایک خط سے ہوتی ہے۔ 19 سالہ ایڈورڈ وائبرڈ اپنے چچا گورڈن کو ایک خط میں لکھتا ہے ''میں نے بہت خوفناک اور بھیانک مناظر دیکھ رکھے ہیں لیکن کل میں نے جو کچھ دیکھا ہے‘ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ پھر کبھی ایسا منظر نہ دیکھوں، خواتین کو چھوڑ دیا گیا، لیکن اپنے شوہروں اور بیٹوں کی موت کے بعد ان کی چیخیں اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں، مجھے ان پر ترس نہیں آیا لیکن جب میری آنکھوں کے سامنے معمر افراد کو جمع کر کے مار دیا گیا تو یہ مجھ پر اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکا‘‘۔ دلّی کے تمام شہریوں کو شہر سے باہر نکال دیا گیا تھا اور چھ ماہ تک وہ موسم کی سختیاں جھیلتے رہے۔ بیشمار افراد اسی دوران دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ شہر کے اندر اُن کی جائیدادیں لوٹ لی گئیں۔ مرزا غالبؔ نے یہ زمانہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور وہ ان حالات سے اتنے دہشت زدہ ہوئے کہ 1857ء کے بعد اُنہوں نے اپنی زندگی کے باقی 12 برسوں میں محض 11 غزلیں کہیں۔ گویا اِن حالات نے مرزا نوشہ سے اُن کی صلاحیتیں بھی چھین لی تھیں۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ 1857ء کے بعد سے دلّی کبھی وہ شہر نہیں بن سکا جو 1857ء سے پہلے تھا۔ یہاں تک کہ یہ خوفناک حالات اِس شہر کے جوانوں سے اُن کی جوانی تک چھین کر لے گئے تھے۔ انگریزوں کی طرف سے طاقت کے وحشیانہ استعمال کا مقصد یہ تھاکہ برصغیر کے باشندوں کی مزاحمت کو ہمیشہ کے لیے توڑ دیا جائے۔ ایسے ایسے ظالمانہ قوانین متعارف کرائے گئے کہ جن کا محض ایک ہی مقصد تھا‘ یہ کہ برصغیر کے باشندوں کو پاؤں تلے دبا کر رکھا جائے۔ حقیقت مگر یہ ہے کہ اس قدر خوفناک انتقام کے باوجود انگریز برصغیر میں جاری مزاحمت کو مکمل طور پر ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
20 ستمبر 1871ء کو کلکتہ کے چیف جسٹس مسٹر نارمن کو عبداللہ پنجابی نے اپنا ہدف بنایا اور 8 فروری 1872ء کو شیر علی خاں آفریدی نے چوتھے وائسرئے لارڈ مایو کو قتل کر کے انگریزوں کو پے درپے دو کاری زخم دیے۔ برطانوی حکام نے آناً فاناً اِن واقعات میں ملوث افراد کو پھانسی دے کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی۔ 1913ء میں شیخ الہند محمود الحسن کی ریشمی رومال تحریک سے انگریزوں کے پسینے چھوٹ گئے۔ انہی کے ایما پر ان کے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی نے افغانستان میں عارضی آزاد ہند حکومت تشکیل دی۔ اسی اثنا میں 1915ء کے اوائل میں رنگون اور سنگاپور میں تعینات بلوچ رجمنٹ اور پانچویں لائٹ پیادہ دستہ سنگاپور‘ جس میں مسلمانوں کی تعداد نمایاں تھی‘ نے انگریز سرکار کے خلاف عَلمِ بغاوت بلند کر دیا۔ دو افسروں کو پھانسی‘ 43 کو گولیوں کا نشانہ بنانے اور باقی فوجیوں کو کالے پانی کی سزا دے کر اس بغاوت کو دبا دیا گیا۔ 17 مارچ 1917ء کو امپیریل لیجیسلیٹو کونسل نے رولٹ ایکٹ پاس کر کے حکومت کو ہندوستانیوں پر ظلم و ستم ڈھانے کا نیا ہتھیار فراہم کر دیا۔ اِس کے تحت حکومت کسی بھی شخص کو گرفتار کرکے غیر معینہ مدت کے لیے جیل میں ڈال سکتی تھی اور وہ اپنی رہائی کے لیے کسی عدالت سے بھی رجوع نہیں کر سکتا تھا۔ اِس کے خلاف ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے شرور ہو گئے۔ سیف الدین کچلو کو امرتسر میں مظاہرے سے روکنے کے لیے جیل کی سلاخوں کے پیچھے پھینک دیا گیا۔ اس اقدام کے خلاف جلیانوالہ باغ میں 13 اپریل 1919ء کو سیف الدین کچلو کا پورٹریٹ صدارتی کرسی پر رکھ کر مظاہرہ کیا گیا۔ اس پُرامن جلسے پر جنرل ڈائر پر حکم پر 20 منٹ تک بے دریغ فائرنگ کی گئی جس سے اَن گنت شرکائے جلسہ موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ اِسی دوران کبھی نظام لوہار تو کبھی بھگت سنگھ جیسے کردار سامنے آتے رہے۔ ان سب کا کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح برصغیر کو انگریزوں سے پاک کیا جائے۔ اس طویل تمہید کا مقصد اس مفروضے کا رد ہے کہ برصغیر کے ڈی این اے میں مزاحمت نہیں ہے۔ مزاحمت ہمیشہ حالات کی پیداکردہ ہوتی ہے جو کسی نہ کسی صورت اظہار کا راستہ بنا لیتی ہے۔
انگریزوں کی رخصتی کے نتیجے میں ہم نے اپنا ایک الگ وطن حاصل کر لیا۔ اِس یقین کے ساتھ کہ یہاں ہرکسی کو یکساں آزادی حاصل ہو گی۔ اِس اُمید کے ساتھ کہ یہاں قانون و انصاف کا بول بالا ہوگا اور قانون کی نظر میں سب یکساں ہوں گے۔ اِس یقین کی وجہ یہ تھی کہ عوام کو یہ یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان کی صورت میں مسلمانانِ برصغیر کے لیے ایک گوشۂ امن حاصل کیا جا رہا ہے۔ یہ گوشۂ امن حاصل کر لیا گیا اور نئے وطن میں قیام کے لیے ہجرت کرنے والوں کو بہت سے قربانیاں بھی دینا پڑیں۔ اِس کے باوجود جو لوگ پاکستان کی سرزمین پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے تھے‘ اُن کے دلوں میں اُمید کی شمع روشن تھی کہ اب وہ اُس سرزمین پر پہنچ چکے ہیں جہاں اُن کے ساتھ کبھی کوئی بھی زیادتی کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا، اب انہیں برابر کا شہری سمجھا جائے گا۔ افسوس کہ اُمیدوں کے یہ چراغ جلد ہی ٹمٹمانا شروع ہو گئے اور پھر اِن کی لو مدھم پڑتے پڑتے جیسے ختم ہی ہو گئی۔ آج یہ عالم ہو چکا ہے کہ ہر طرف مایوسی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ جمہوری طاقت اور ووٹ کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ملک میں 23 سالوں تک عام انتخابات ہی نہ ہو سکے۔ نوزائیدہ ملک کے باشندوں کو دہائیوں تک یہ حق ہی نہ مل سکا کہ وہ اپنے نمائندوں کو خود منتخب کر سکیں۔ ایوانِ اقتدار کی غلام گردشوں میں سازشوں کا کھیل تو بہت پہلے شروع ہو گیا تھا جس نے سب کچھ ملیامیٹ کرکے رکھ دیا۔ خدا خدا کرکے 1970ء میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے تو اکثریت حاصل کرنے والی جماعت کو حکومت بنانے کا حق دینے سے انکار کر دیا گیا۔ جمہوریت کے دعویداروں نے وہ رویے اپنائے کہ آمریت کو بھی شرمندہ کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے عام انتخابات کے نتیجے میں ملک دولخت ہو گیا۔بچھے کھچے خوابوں کے ساتھ امیدوں کا نیا محل تعمیر کیا گیا اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا مگر سیاسی عدم استحکام ہمیشہ ہمارے راستے میں حائل رہا۔ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے بھارت میں آج تک جمہوریت ڈی ریل نہیں ہوئی جبکہ آج وہ چاند پر کمندیں ڈال رہا ہے اور ہم کیا کر رہے ہیں؟ من پسند حکومت کی تشکیل کے لیے ساری توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔ کون کون سے حربے نہیں استعمال کیے جا رہے لیکن اِس کے باوجود بات بنتی نظر نہیں آ رہی۔ اِس صورتحال کا ماضی سے تقابل کیا جائے تو دوست اعتراض کرتے ہیں کہ اتنی دور کی کیوں سوچنے لگتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ خرابی کا آغاز ہمیشہ اسی وقت ہوتا ہے جب زبانِ خلق کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ خلق کی آواز کو ایسے ہی نقارۂ خدا نہیں کہا گیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی عوامی آرا کے خلاف جانے کی کوشش کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ وہ جو کررہا ہے‘ ٹھیک کر رہا ہے تو عنقریب وہ وقت آ جاتا ہے کہ سوائے پچھتاوے کے کچھ بھی ہاتھ میں نہیں رہتا۔ مختصراً یہ ہے کہ تاریخ سے کبھی کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ہرکوئی سمجھتا ہے کہ وہ بہتر معاملہ فہمی رکھتا ہے مگر وقت کی میز جب گھومتی ہے‘ تب اندازہ نہیں ہو پاتا۔ آنکھیں تب کھلتی ہیں جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔
ہم نے انگریز سے آزادی تو حاصل کر لی مگر اس کے دیے گئے نظام سے آج تک چمٹے ہوئے ہیں حالانکہ اس نظام کو عوام کو سہولت دینے کے بجائے ان کا استحصال کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ ہر چیز کی ایک حد اور برداشت ہوتی ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ اب عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے اور گزشتہ سات دہائیوں کے حساب کا وقت آن پہنچا ہے۔ گوادر سے گلگت اور کراچی سے خیبر تک مایوسی اور ناامیدی کے گہرے بادل چھائے ہوئے ہیں مگر ہمارے اہلِ حکومت اور اربابِ اختیار اپنی روش بدلنے پر تیار دکھائی نہیں دیتے۔ وہ یہ حقیقت سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ اس نظام کے ساتھ اب زیادہ دیر تک نہیں چل سکتے۔ اب نظام بدلنا ہی ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں