"FBC" (space) message & send to 7575

شاید اسی طرح کچھ بہتری آجائے

گزشتہ دنوں پاکستان تحریک انصاف کے انتخابی نشان کے حوالے سے ایک عدالتی فیصلہ سامنے آیا جس میں الیکشن کمیشن کا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کے تناظر میں 22دسمبر کا فیصلہ درست قرار دے دیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد کافی سوالات اٹھائے گئے اور عدلیہ پر تنقید کا سلسلہ بھی دیکھنے میں آیا‘ جس کے بعد اب حکومتی سطح پر ایک جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی ہے جس کی تشکیل کا مقصد اس تنقید کا سلسلہ روکنا ہے۔ یہ چھ رکنی کمیٹی اس بات کا تعین کرے گی کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو عدلیہ مخالف مہم چلا رہے ہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے کمیٹی کی سربراہی کر رہے ہیں۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائبر کرائم ونگ ایف آئی اے کمیٹی کے کنوینیر ہوں گے۔ کمیٹی میں گریڈ 20کا آئی بی اور آئی ایس آئی کا ایک ایک رکن بھی شامل ہو گا۔ کمیٹی میں اسلام آباد پولیس کے ڈی آئی جی بھی بطور ممبر شامل ہیں جبکہ پی ٹی اے کا ایک نمائندہ بھی کمیٹی کے اراکین میں شامل ہے۔ کمیٹی کو جو فرائض تفویض کیے گئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں کہ کمیٹی عدلیہ مخالف مہم میں ملوث ذمہ داران کا تعین کرے گی۔ مستقبل میں ا یسے واقعات کی روک تھام کے لیے تجاویز بھی مرتب کرے گی اور 15روز میں وزارتِ داخلہ کو اپنی رپورٹ جمع کروائے گی۔ اس کمیٹی کی تشکیل اس تناظر میں ایک اچھا اقدام ہے کہ شاید اسی طرح عدلیہ کے بارے میں پائے جانے والے عوامی تاثر میں کچھ بہتری آجائے۔ شاید یہ کمیٹی بنائے جانے سے ہی جو لوگ حصولِ انصاف کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں‘ ان کے دن پھر جائیں گے۔
شاید اسی طرح لاہور ہائی کورٹ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق جو دو لاکھ کے قریب مقدمات زیر سماعت ہیں اُن کی تیز رفتار سماعت ممکن ہو سکے گی۔ اسی طرح ماتحت عدلیہ میں جو تیس لاکھ سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں‘ ان میں بھی جلد فیصلے سنانا شروع کر دیے جائیں گے۔ ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے 2023ء کے رول آف لاء انڈیکس کے مطابق پاکستان انصاف کی فراہمی کے حوالے سے 142ممالک میں 130ویں نمبر پر ہے۔ اندازہ کریں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف کی فراہمی کی یہ صورتحال ہے۔ دوسری طرف سالانہ چھٹیوں کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے یہاں موجود برطانوی جج صاحبان موسمِ گرما میں موسم کی سختی سے بچنے کے لیے برطانیہ لوٹ جاتے یا کسی پُر فضا مقام پر ڈیرہ لگا لیتے تھے اور اس دوران عدالتیں بند رہتیں تھیں۔ یوں بھی وہ تو یہاں دور دیس سے حکمرانی کرنے کے لیے آئے تھے اور برصغیر کے عوام ان کی رعایا تھے۔ اس لیے وہ تو ایسا کچھ بھی کر سکتے تھے جو اُن کا دل چاہتا۔ آج پاکستان کے قیام کو 76 برس گزر جانے کے بعد بھی انگریزوں کی چھوڑی ہوئی اس روایت پر بھرپور طریقے سے عمل ہوتا ہے۔ 2022ء میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے اہم دنوں کی تعطیلات کی ایک فہرست جاری کی گئی تھی۔ اس کے مطابق اعلیٰ عدلیہ میں اہم قومی دنوں اور تہواروں پر 13چھٹیاں‘ موسم سرما میں 16اور موسم گرما کی تین ماہ کی تعطیلات کے علاوہ اتوار کی سال میں 52چھٹیاں اور جج صاحبان کو ملنے والی معمول کی چھٹیاں ملا کر تعطیلات کی مجموعی تعداد چھ ماہ کے قریب قریب بنتی ہے۔ اندازہ کریں کہ جہاں لاکھوں کی تعداد میں مقدمات زیر سماعت ہیں‘ وہاں بھی اتنی زیادہ چھٹیوں کا رواج ہے۔ البتہ انتہائی اہم کیسز کی سماعت کے لیے ڈیوٹی ججز بہرحال موجود ہوتے ہیں۔ کسی اور سرکاری ادارے کو اتنی سالانہ چھٹیوں کی سہولت حاصل نہیں ہے۔ کسی کو کوئی پروا ہی نہیں کہ فراہمی ٔ انصاف میں تاخیر لوگوں کی زندگیوں کو کس طرح برباد کر رہی ہے۔ کیسے لوگوں کی نسلوں کی نسلیں اُجڑ رہی ہیں۔
ایک طرف عام آدمی کے لیے انصاف کی یہ صورت حال ہے اوردوسری طرف سیاسی مقدمات کی سماعت کے لیے پورا پورا دن سماعتیں جاری رہتی ہیں۔ آدھی رات کو بھی عدالتیں کھول دی جاتی ہیں۔ کاش کوئی ایسی کمیٹی بھی تشکیل دی جائے جو اس صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے اپنی سفارشات مرتب کرے۔ لاکھوں کی تعداد میں مقدمات التوا میں پڑے ہوں اور انصاف فراہم کرنے والے سالانہ چھٹیوں پر چلے جائیں۔ یہ وہ روایت ہے جو برصغیر کے علاوہ دنیا کے کسی دوسرے ملک میں نہیں پائی جاتی لیکن ہم نے اس روایت کو جی جان سے سینے سے لگایا ہوا ہے۔ کتنے ہی صاحبِ اختیار آئے اور دعوے کرتے کرتے چلے گئے لیکن مجال ہے جو صورت حال میں رَتی برابر بھی بہتری دیکھنے میں آئی ہو۔ ویسے معاملات کو دیکھنے کی بھی اپنی اپنی نظر ہوتی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس محمد امیر بھٹی کا تو یہ کہنا تھا کہ لاکھوں کی تعداد میں نئے مقدمات کا د ائر ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ صوبے کے عوام اپنے معاملات کے حل کے لیے عدالتوں پر بھروسا کرتے ہیں۔ دوسری طرف وکلا تنظیمیں قرار دیتی ہیں کہ سیاسی شخصیات کے کیسز کو فوقیت دینے اور عوام کے مقدمات کو پسِ پشت ڈالنے کی وجہ سے لوگوں کی اکثریت کا عدالتی نظام سے اعتماد اٹھ رہا ہے۔ اُن کے نزدیک زیر التوا کیسز کی تعداد میں اضافے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے کہ اب سیاسی مقدمات کی بھرمار ہو چکی ہے اور بیشتر صورتوں میں انہیں سماعت کے لیے فوقیت دی جاتی ہے۔
یہ عرضداشت پیش کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ براہِ کرم عام آدمی کو ریلیف کی فراہمی بھی ترجیح بنائی جائے۔آج ہمارا ملک بے شمار ایسے مسائل میں گھِر چکا ہے کہ جن کا کوئی حل بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ اس لیے کہ ان مسائل کی بروقت نشاندہی نہیں ہو سکی۔ گند کو قالین کے نیچے چھپا دینے میں ہی عافیت سمجھی گئی اور اب معاملات اس نہج پر آن پہنچے ہیں کہ مستقبل کے اندیشے دل دہلاتے رہتے ہیں۔ یہ جو پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت برسراقتدار رہی تھی‘ اس مختصر سے عرصے میں ایسے ایسے قوانین پارلیمنٹ نے پاس کیے کہ عقل دنگ رہ گئی۔ حیرت کی بات یہ بھی رہی کہ یہ سب کے سب لوگ خود کو سیاسی قرار دیتے تھے لیکن عملاً اُن کا طرزِ عمل بہت ہی برا رہا۔ شاید اُن کی تمام توجہ یہ قوانین پاس کرانے پر ہی مرکوز رہی تھی‘ اسی لیے تو عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیس کر رکھ دیا گیا۔ پی ڈی ایم کے دور میں مہنگائی کو ایسی ایڑھ لگی ہے کہ ابھی تک رُکنے کا نام نہیں لے رہی۔ گزشتہ ہفتے کے دوران قلیل مدتی مہنگائی کی شرح آٹھ ماہ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے لیکن حکومت اس سے ایسے بے خبر ہے کہ جیسے یہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ مہنگائی میں اضافے کی سنگینی کا اندازہ اُن لوگوں کی حالت زار سے لگایا جا سکتا ہے جو دو وقت کی روٹی کو ترس کر رہ گئے ہیں۔ جن کے بچے تعلیم کا سلسلہ منقطع کر کے مزدوری کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ دوسری طرف آپ دیکھیں کہ سولہ ماہ تک اقتدار میں رہنے اور عوام کو مسائل کے گرداب میں پھنسا دینے والے سب کے سب لوگ نو بھر نو ہیں اور زندگی سے بھرپور لطف اُٹھا رہے ہیں۔ یہاں تک کہ چہروں پر پشیمانی کا کوئی تاثر بھی دکھائی نہیں دیا۔ مت ظلم کریں کہ مظالم کو ایک دن حساب دینا ہی پڑتا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ کیا کوئی ایسی کمیٹی بھی تشکیل پاتی ہے یا نہیں جو حصولِ انصاف کے لیے دربدر پھرتے ہوؤں کو کوئی ریلیف فراہم کر سکے۔ ان کے دلوں میں اُمید کی شمع جگا سکے کہ اب انہیں انصاف کے حصول کے لیے دربدر نہیں ہونا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں