"FBC" (space) message & send to 7575

جسٹس کھڑک سنگھ

مولانا ابو الکلام آزاد کے حوالے سے گزشتہ کالم پر قارئین کا کافی اچھا رِسپانس دیکھنے میں آیا۔ کچھ قارئین کی طرف سے اِس خواہش کا اظہار بھی کیا گیا کہ اِن کے بارے میں مزید لکھا جائے۔ وہ جاننے کی خواہش رکھتے ہیں کہ تقسیمِ ہند کے بارے میں مولانا آزاد کیا خیالات رکھتے تھے۔ اِسی طرح کئی ای میلز موصول ہوئیں جن میں لوگوں نے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ گاہے گاہے تاریخی کرداروں کے بارے میں ضرور لکھنا چاہیے۔ لاہور سے ایک صاحب نے اِس بات کا بھی برملا اظہار کیا کہ اگر آئندہ کسی تاریخی کردار کے حوالے سے لکھیں تو براہِ کرم اُن باتوں کو دہرانے سے گریز کریں جو ہمیں طویل عرصے سے پڑھائی اور بتائی جا رہی ہیں۔ اِن کے کہنے کا مطلب تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ اِس رسپانس کو دیکھتے ہوئے اِس بات کا شدت سے احساس ہوا کہ اِس وقت ہمارے ملک میں جو کھیل تماشے چل رہے ہیں‘ عوامی سطح پر اُنہیں زیادہ توجہ نہیں مل رہی اور لوگ اکتاہٹ محسوس کر رہے ہیں۔ صبح سے شام تک عجیب و غریب بیانات‘ ہر وقت جھوٹ در جھوٹ در جھوٹ کی ایک نہ ختم ہونے والی یلغار‘ ہر لحظہ نت نئے پینترے جن کا ایک ہی مقصد نظر آتا ہے کہ کسی طرح سے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔ عوام اِس حوالے سے کیا سوچتے ہیں یا اُن کا کیا ردعمل سامنے آ رہا ہے‘ اِس سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔ دیکھا جائے تو اِس میں اچنبھے کی کوئی بات نہیں کیونکہ ماضی میں بھی کب عوامی اُمنگوں کا احترام ملحوظِ خاطر رکھا گیا؟ جب سے ملک وجود میں آیا ہے‘ اقتدار، طاقت اور اختیارات کا ایسا چاک چکر چلتا چلا جا رہا ہے جس میں کوئی اخلاقیات باقی رہی ہیں نہ آئین اور قانون کا ہی وجود باقی بچا ہے۔ ہاں‘ ایک بات ضرور ہے کہ یہ کھیل اِس مرتبہ جس انداز سے کھل کر کھیلا جا رہا ہے، اِ س کی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔ دوسری طرف کچھ طبقات اس ابتری سے بھی امید کشید کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ معاملات بہتری کی طر ف جانے سے پہلے اِسی طرح بدترین حد تک خرابی سے شکار ہوا کرتے ہیں۔ کسی بھی نئی عمارت کی تعمیر سے پہلے پچھلی عمارت کی باقیات کو مٹانا ناگزیر ہوتا ہے اور یہ شکستہ حال عمارت تو خود بخود منہدم ہوتی جا رہی ہے۔ بہرکیف‘ بات ہو رہی تھی تاریخی کردار کی‘ آج جس کردار کی بات کرنے جا رہے ہیں وہ تاریخی کے ساتھ ایک اساطیری کردار بھی ہے اور اس کا نام ہے جسٹس کھڑک سنگھ۔
ویسے تو کھڑک سنگھ نام کے کافی تاریخی کردار ہو گزرے ہیں جن میں سب سے مشہور مہاراجہ کھڑک سنگھ تھے جو پنجاب کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے بڑے اور لاڈلے صاحبزادے تھے۔ اپنے اِس لاڈلے صاحبزادے کے لیے رنجیت سنگھ نے لاہور کے شاہی قلعہ میں حویلی کھڑک سنگھ تعمیر کرائی تھی۔ یہ الگ بات کہ کھڑک سنگھ کو اِس حویلی میں بہت کم عرصے کے لیے رہنا نصیب ہوا۔ ہوا کچھ یوں کہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد جب مسندِ اقتدار پر کھڑک سنگھ براجمان ہوا تو صرف چھ ماہ بعد ہی اُس کے بیٹے نونہال سنگھ نے اپنے والد کو معزول کرکے قید میں ڈال دیا اور اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ اِس کے بعد حویلی کھڑک سنگھ مختلف دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہوتی رہی۔ انگریز دور میں اِسے سرکاری افسران کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا۔ تقسیمِ ہند کے بعد یہ حویلی طویل عرصے تک بند رہی جسے آج کل والڈ سٹی اتھارٹی نئے سرے سے چمکا رہی ہے۔ اس ساری کہانی سے البتہ یہی سبق ملتا ہے کہ اقتدار جیسی بے وفا اور خون آلود شے کوئی نہیں ہے۔ یہ بھائی کو بھائی کے سامنے لاکھڑا کرتا ہے۔ باپ کو بیٹے کے خون سے ہاتھ رنگنے پر مجبور کر دیتا ہے یا بیٹے کو باپ کے مقابلے پر اترنے کی راہ دکھاتا ہے۔ مخالفین کو دیوار سے لگانے کے لیے ہرممکن راستہ اپنایا جاتا ہے۔ ویسے ہم بادشاہوں اور راجوں‘ مہاراجوں کو خواہ مخواہ رگیدتے رہتے ہیں‘ آج کے دور میں بھی حالات ویسے ہی ہیں البتہ طور طریقے کچھ بدل گئے ہیں۔ آج بھی اُسی کا طوطی بولتا ہے جس کے ہاتھ میں طاقت ہوتی ہے۔ بہرکیف‘ مہاراجہ کھڑک سنگھ کے علاوہ تاریخ میں کھڑک سنگھ نام کا ایک سکھ لکھاری بھی بہت مشہور ہوا جبکہ اِسی صف میں جسٹس کھڑک سنگھ بھی کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وہ کھڑک سنگھ ہیں جن کے بارے میں یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ ''کھڑک سنگھ کے کھڑکنے سے کھڑکتی ہیں کھڑکیاں‘ کھڑکیوں کے کھڑکنے سے کھڑکتا ہے کھڑک سنگھ‘‘۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ برٹش انڈیا کے دور میں پیدا ہونے والا کھڑک سنگھ بہت بڑا جاگیردار، پنچایتی تھا اور رشتے میں مہاراجہ پٹیالا کا ماموں لگتا تھا مگر تھا چٹا اَن پڑھ۔ کھڑک سنگھ کو نجانے کیا سوجھی کہ اس پر جج بننے کا شوق سوار ہو گیا۔ اس نے فی الفور اپنے بھانجے مہاراجہ پٹیالا سے اس کا ذکر کیا۔ اُس دور میں سیشن جج بننے کے لیے وائسراے کی منظوری ضروری ہوا کرتی تھی۔ مہاراجہ پٹیالا نے وائسراے کے نام ایک چٹھی لکھ کر اپنے ماموں کو وائسرائے کے پاس بھیج دیا۔ وائسراے نے مہاراجہ کا خط پڑھا اور کھڑک سنگھ سے پوچھا کہ کتنا پڑھے لکھے ہو؟ اس پر کھڑک سنگھ نے نے کڑک دار آواز میں جواب دیا: آپ نے مجھے جج لگانا ہے یا ہیڈ ماسٹر؟ بالآخر وائسرے نے کھڑک سنگھ کے جج بننے کی منظوری دے دی اور کھڑک سنگھ کے نام کے ساتھ جسٹس کا سابقہ لگ گیا۔ چند روز بعد پٹیالا پہنچنے کے بعد کھڑک سنگھ سیشن جج کی کرسی پر براجمان ہو گیا۔ روایت ہے کہ اُس کی عدالت میں جو پہلا کیس پہنچا وہ ایک قتل کا کیس تھا۔ تھانیدار نے عدالت کو بتایا کہ عدالت میں جو خاتون موجود ہے‘ اس کے شوہر کو قتل کر دیا گیا ہے اور دوسری طرف جو چار ملزمان کٹہرے میں کھڑے ہیں‘ ان پر اس قتل کا الزام ہے۔ کھڑک سنگھ غصے سے بولا کہ بدبختوں تم نے بندہ مار دیا؟ اتنا کہنے کے بعد وہ اپنا فیصلہ لکھوانے ہی لگا تھا کہ اچانک ایک شخص اندر داخل ہوا اور بولا: جناب! یہ ایک پیچیدہ کیس ہے جس کی بابت میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ کھڑک سنگھ نے گرج دار آواز میں پوچھا: یہ کون ہے؟ بتایا گیا کہ یہ اِن ملزمان کا وکیل ہے اور اِنہیں بری کرانا چاہتا ہے۔ کھڑک سنگھ نے کچھ دیکھے سنے بغیر چند سطری فیصلہ یہ لکھوایا کہ ملزمان کے ساتھ ساتھ اُن کے وکیل کو بھی پھانسی کی سزا دی جائے۔ اِس فیصلے پر عمل ہوا یا نہیں‘ اِ س بابت زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں مگر کہتے ہیں کہ اس کے بعد پٹیالا میں خاصا امن و امان قائم ہو گیا تھا اور کوئی بھی وکیل کسی ایسے شخص کا کیس لینے سے انکار کر دیتا جس نے واقعی جرم کیا ہوتا۔
ہمارے تاریخ دان دوست شہزاد احمد کا کہنا ہے کہ یہ ایک من گھڑت واقعہ ہے کیونکہ تاریخ کی کتب میں اِس کا کوئی مستند حوالہ نہیں ملتا۔ اُن کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اِس واقعہ میں ایک طرف تو یہ کہا جاتا ہے کہ جسٹس کھڑک سنگھ چٹا اَن پڑھ تھا لیکن واقعے کے آخر میں بتایا جاتا ہے کہ اُس نے اپنے ہاتھ سے فیصلہ تحریر کرکے اُس پر دستخط کیے۔ شہزاد احمد کا یہ بھی اعتراض ہے کہ اِس واقعے میں اِس کا بھی کوئی ذکر نہیں ملتا کہ وہ کس مہاراجہ پٹیالا کا ماموں تھا کیونکہ پٹیالا کے تو کئی مہاراجہ گزرے۔ البتہ وہ اِس بات کی تائید کرتا ہے کہ راجائوں، مہاراجاؤں کے دور میں انصاف ایسے ہی ہوا کرتا تھا۔ راجہ خوش ہوتا تو مجرم کو بھی انعام و اکرام سے نواز دیتا‘ ناراض ہو جاتا تو کسی بے گناہ کو بھی ہاتھی کے پاؤں تلے روند ڈالنے یا جلاد کے حوالے کر دینے کا حکم صادر کر دیتا۔ ہمارے تاریخ دان دوست بہت سے مستند حوالوں کے ساتھ بتاتے ہیں کہ راجے مہاراجے انصاف کا کیسے ''بول بالا‘‘ کیا کرتے تھے۔ ممکن ہے کہ کچھ قارئین یہ اعتراض کریں کہ اگر یہ واقعہ مستند نہیں تو پھر کیونکر اِسے بیان کیا گیا۔ دراصل کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں پڑھ کر دل خواہ مخواہ خوش ہو جاتا ہے۔ جیسے فلموں میں ہیرو وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو عملی زندگی میں کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ سب کچھ غیر حقیقی ہے مگر اِس کے باوجود لوگ سیٹیاں مارتے‘ تالیاں پیٹتے ہیں۔ اس وقت ان کے دل میں یہ خواہش بیدار ہو رہی ہوتی ہے کہ کاش یہ سب کچھ عملی زندگی میں بھی ممکن ہو سکے۔ عملی زندگی میں بھی اِس طرح ایک ہیرو برائی کی قوتوں کا قلع قمع کر سکے۔ جب عملاً وہ ایسا نہیں کرتے پاتے تو پھر یہ سب کچھ فلموں میں دیکھ کر یا اس قسم کے واقعات پڑھ کر ان کا لطف اُٹھاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں