"FBC" (space) message & send to 7575

اقتدار کا دل نہیں ہوتا

کہا جاتا ہے کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا، سیاست کے سینے میں دل ہو یا نہ ہو‘ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار دل نامی شے سے یکسر عاری ہوتا ہے۔ دنیا میں اس حوالے سے مثالیں جابجا بکھری پڑی ہیں کہ کیسے اقتدار کیلئے خونی رشتے ہی مدمقابل آ گئے اور اپنی تلواریں ایک دوسرے کے خون سے رنگ لیں۔ دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں‘ کہیں اقتدار کیلئے بھائی بھائی کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے تو کہیں باپ اور بیٹے کی اس بات پر ٹھن جاتی ہے۔ کبھی عمر رسیدہ باپ تخت کو خیرباد نہیں کہنا چاہتا اور کبھی جواں سال بیٹا وقت سے پہلے مسندِ اقتدار پر بیٹھنے کیلئے بے تاب نظر آتا ہے۔ افسوسناک اور دلخراش حقیقت یہ ہے کہ مذہبی تاریخ بھی اقتدار کی ہوس سے پاک نہیں رہی۔ اگر تاریخِ اسلام کی بات کی جائے تو نبی کریمﷺ کے اِس دنیا سے پردہ فرمانے کے صرف ساٹھ سالوں کے بعد ہی اُن کے خانوادے کو میدانِ کربلا میں ذبح کر دیا گیا۔ میدانِ کربلا میں اُس شخصیت کو خون میں نہلا دیا گیا جسے حضور اکرمﷺ نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ سیدنا امام حسینؓ حق اور اسلام کی سربلندی کیلئے میدان میں اُترے تھے جبکہ دوسری طرف اقتدار کی ہوس نے آنکھوں پر ایسی پٹی باندھ رکھی تھی کہ مارنے والوں نے یہ تک خیال نہ کیا کہ وہ جس پر تلواریں سونت رہے اور تیر برسا رہے ہیں‘ اُس ہستی کا تعلق کس عظیم گھرانے سے ہے۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ اقتدار کیلئے اتنا بڑا ظلم ڈھانے والا محض ساڑھے تین سال تک برسراقتدار رہا اور 39 برس کی عمر میں یہ کالک ہمیشہ کیلئے اپنے منہ پر مل کر دنیا سے چلا گیا۔ دوسری طرف حق کی خاطر آواز بلند کرنے کی پاداش میں موت کو گلے لگانے والی ہستی رہتی دنیا کیلئے ایک مینارۂ نور کی حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ واقعہ کربلا ہی نہیں‘ واقعہ حرہ بھی یزید ہی کے دور میں پیش آیا جس کی تفصیلات دل دہلا دیتی ہیں۔ شاید اُسے یہی گمان ہو گا کہ شاہانِ گزشتہ کی طرح اپنے راستے کی تمام رکاوٹیں ختم کرنے کے بعد اقتدار ہمیشہ کیلئے اُس کے گھر کی باندی بنا رہے گا مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ تاریخ کا اتنا بڑا ظلم کرنے کے بعد بھی اُسے بہت مختصر سے وقت کیلئے اقتدار میں رہنا نصیب ہوا۔ گویا ان مکروہ افراد کی فہرست میں اپنا نام درج کرا کے وہ دنیا سے رخصت ہو گیاجو اقتدار کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں اور جن کے نزدیک صرف اور صرف اقتدار اور طاقت ہی سب کچھ ہوتی ہے‘ چاہے اِس کیلئے کتنے ہی بے گناہوں کو خون کیوں نہ بہانا پڑے۔
تاریخِ اسلام میں بنو اُمیہ کا دور لگ بھگ نوے سالوں پہ محیط ہے مگر حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کے دور کے سوا یہ پورا دورِ اقتدار ظلم، جبر اور استبداد سے عبارت ہے۔ نوے سال کے بعد بنو عباس لوگوں کو یہ یقین دلانے کے بعد کہ وہ خاندانِ رسالت کے لوگ ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد کتاب و سنت کی عملداری اور حدود اللہ قائم کریں گے‘ اقتدار میں آنے میں کامیاب ہو گئے، لیکن ہوا کیا؟ بنو امیہ کے دارالسلطنت دمشق کو فتح کر کے عباسی فوجوں نے وہاں ایسا قتلِ عام کیا کہ 50ہزار مسلمان مارے گئے۔ ستر دن تک دمشق کی جامع مسجد گھوڑوں کا اصطبل بنی رہی، سابق حکمرانوں کی قبریں کھود کر ان کی لاشیں نکالی گئیں۔ ہشام بن عبدالملک کی باقیات قبر سے صحیح سلامت مل گئیں تو ان کو کوڑوں سے پیٹا گیا اور پھر کئی روز تک سر عام چوک میں لٹکائے رکھا، بعد ازاں اس لاش کو جلا کر اس کی راکھ اڑا دی گئی۔ حرمین شریفین بھی اس دور میں محفوظ نہ رہے۔ ابو العباس سفاح (بنو عباس کے پہلے خلیفہ) کے خلاف موصل میں بغاوت ہوئی تواس نے اپنے بھائی یحییٰ کو سرکوبی کیلئے بھیجا۔ یحییٰ نے اعلان کیا کہ جو شہر کی مسجد میں داخل ہو جائے گا اس کیلئے امان ہے۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں مسجد میں جمع ہو گئے۔ یحییٰ نے مسجد کے دروازوں پر پہرہ لگا کر ان تمام پناہ گزینوں کے قتلِ عام کا حکم جاری کر دیا۔ تین دنوں تک موصل میں قتل و غارت کا بازار گرم رہا۔ مشہور مصنف و مؤرخ محمد علی ابن طباطبا بحیثیت مجموعی خلفائے بنو عباس کی حمایت کرتا ہے مگر ساتھ ہی یہ اعتراف بھی کرتا ہے کہ عباسی حکومت بھی مکر و فریب اور بے وفائی کی حکومت تھی‘ اس میں جتنی قوت و طاقت تھی اس سے کہیں زیادہ حیلہ گری اور دغا بازی تھی، خصوصاً آخری دور میں عباسی خلفا نے فریب و دغا کو اپنا وتیرہ بنا لیا تھا۔ گویا جو ظلم و ستم بنو اُمیہ کرتے رہے‘ بنو عباس نے ان میں اضافہ ہی کیا۔ شاید اُنہوں نے یہی سوچ رکھا تھا کہ اب چونکہ وہ اقتدار میں آ گئے ہیں لہٰذا حکومت ہمیشہ کیلئے اُن کے گھر کی باندی بن گئی ہے۔ یہ سارا اقتدار کا کھیل تھا۔
خلافتِ عثمانیہ کی مثال لے لیجئے‘ وہاں ایک ایسی متنازع رسم رہی کہ جس کا داغ کبھی نہ دھل سکے گا۔ اِس سلطنت میں رواج تھا کہ جو بھی خلیفہ بنتا تھا‘ اُس کے دیگر تمام بھائیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا تاکہ بادشاہ کے اقتدار کو چیلنج کرنے والا کوئی بھی باقی نہ رہے۔ 1595ء کا ایک دن اِس رسمِ بد کی ایک نہایت خوفناک مثال پیش کرتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کا سورج اس وقت نصف النہار پر تھا۔ سلطان مراد سوم کے انتقال پر وقت کی سپر پاور کا اقتدار انکے بیٹے محمد (محمت) کو مل چکا تھا جو اب سلطان محمد سوم بن چکا تھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ استنبول کے شاہی محل میں نئے سلطان کی آمد کے ساتھ ہی وہاں سے 19 شہزادوں کے جنازے نکلے تھے۔ یہ جنازے سلطان محمد سوم کے بھائیوں کے تھے اور اُنہیں سلطنت میں رائج بھائیوں کے قتل کی شاہی روایت کی وجہ سے نئے سلطان کے تخت پر بیٹھتے ہی باری باری گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تھا۔ سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی کتاب ''Lords of the Horizons‘‘ (مشرق اور مغرب کے آقا) میں مصنف Jason Goodwin نے تاریخ کے مختلف ذرائع کے حوالے سے شہزادوں کی ہلاکت کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھا کہ شہزادوں کو ایک ایک کر کے سلطان کے سامنے لایا گیا۔ عمر میں سب سے بڑے شہزادے نے‘ جو خوبصورت اور صحتمند جسامت کا مالک تھا‘ التجا کی کہ 'میرے آقا! میرے بھائی! اب آپ میرے والد کی جگہ ہیں‘ میری زندگی اس طرح مت ختم کریں، غم سے نڈھال سلطان نے اپنی داڑھی نوچ لی لیکن جواب میں ایک لفظ نہ بولا‘‘۔ جیسن گڈوِن اس دن کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ گلیوں میں یہ جنازے جاتے دیکھ کر استنبول کے شہریوں کے دل ہل گئے تھے۔ یہ ہوتا ہے اقتدار کا ظالمانہ کھیل‘ جس کی کوئی توضیح پیش نہیں کی جا سکتی۔
اگر اپنے خطے کی تاریخ دیکھیں تو یہاں بھی اقتدار کیلئے یہی کچھ ہوتا رہا۔ جہانگیر 3 نومبر 1605ء کو مغل شہنشاہ بنا‘ اِس کی تخت نشینی کیساتھ ہی اس کے بیٹے خسرو مرزا کی بغاوت شروع ہو گئی۔ تزکِ جہانگیری کے مطابق: خسرو نے لاہور کا محاصرہ کر لیا تھا جس کا دفاع دلاور خان نے کیا۔ جہانگیر جلد ہی ایک بڑی فوج کے ساتھ لاہور پہنچا اور بھیرووال کی لڑائی میں خسرو کو شکست دی۔ خسرو اور اس کے ساتھیوں نے کابل کی طرف بھاگنے کی کوشش کی لیکن چناب کو عبور کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ خسرو کو سب سے پہلے لاہور لایا گیا، جہاں اُسے ہاتھی پر بٹھا کر کامران کی بارہ دری سے شاہی قلعے تک لیجایا گیا۔ سڑک کے دونوں طرف اس کا ساتھ دینے والوں کو نیزوں پر پرویا اور پھانسی پر لٹکایا گیا تھا۔ خسرو یہ بھیانک منظر دیکھنے اور ان لوگوں کی چیخ و پکار سننے پر مجبور تھا، یہ عمل متعدد بار دہرایا گیا۔ ودیا دھرمہاجن اور ایلیسن بینکس فاینڈلی کے مطابق: خسرو کی آنکھیں پھوڑ کر اُسے آگرہ میں قید کر دیا گیا؛ تاہم اُس کی بینائی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ 1616ء سے 1620ء تک وہ شاہجہاں کے سسر اور ملکہ نور جہاں کے بھائی آصف خان کی تحویل میں رہا‘ 1620ء میں اسے شاہجہاں کی تحویل میں دے دیا گیا اور 26 جنوری 1622ء کو شاہجہاں کے حکم پر خسرو کو دکن میں قتل کر دیا گیا۔ بعد میں جب اورنگزیب عالمگیر اقتدار کے حصول کی جنگ جیت گیا تو اُس نے اپنے والد شاہجہاں کومعزول کرکے نظر بند کر دیا اور اپنی موت تک شاہجہاں کو رہائی نہ مل سکی۔ اورنگزیب عالمگیر اور اُس کے بھائی دارا شکوہ کے درمیان ہونے والی جنگ اور اِس کے نتیجے میں دارا شکوہ کا اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنا ایک الگ قصہ ہے۔ ایک دوسرے کو مارنے کا یہ سلسلہ ہر دور میں جاری رہا اور ان واقعات نے پوری شدت کے ساتھ ثابت کیا کہ اقتدار کادل نہیں ہوتا۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں