"FBC" (space) message & send to 7575

سکون کی نیند

معروف تجزیہ کار جناب رؤف کلاسرا کی تحریروں اور تجزیے کے ہم ایک عرصے سے مداح ہیں، اللہ تعالیٰ نے اُنہیں زبان و بیان پر بہت اچھی دسترس بخشی ہے۔ اُن کی تحریریں معلومات سے بھرپور ہوتی ہیں جبکہ ان کا تجزیہ ماضی کے حوالوں سے مزین ہوتا ہے۔ گزشتہ دنوں میانوالی کے امجد خان نیازی سے متعلق اُن کا ایک کالم نظر سے گزرا جس میں اُنہوں نے میانوالی سے دو مرتبہ ایم این اے منتخب ہونے والے‘ ڈاگٹر شیرافگن نیازی کے صاحبزادے امجد خان کے سیاسی کردار پر روشنی ڈالی۔ اُن کے بارے میں بتایا کہ کس طرح سے کئی مرتبہ اِس شخصیت نے اپنی پارٹی کے دورِ اقتدار میں وزارت لینے سے انکار کیا اور کس طرح سے وہ مظاہرین کو توڑ پھوڑ سے روکتے رہے۔ یہ بھی بتایا کہ کس طرح اُنہیں نام نہاد کیسز میں ملوث کرکے جسمانی و ذہنی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔ اس ایک کالم میں انہوں نے کافی کچھ بتا دیا؛ البتہ کالم کے اختتام پر اُنہوں نے ایک ایسا جملہ لکھا کہ جس سے میں سوچ میں پڑ گیا۔ کلاسرا صاحب کا کہنا تھا کہ اُن کے لیے یہ بات حیران کن ہے کہ کس طرح سے لوگ دوسروں کے بچوں کو تکلیف دے کر خود اپنے بچوں کے ساتھ سکون کی زندگی بسر کر لیتے ہیں؟ ایسا نہیں کہ انہیں اس بات کا علم نہیں مگر انہوں نے کس سادہ انداز سے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ خود فریبی کی روش ہے جس کا ہم بحیثیت مجموعی شکار ہو چکے ہیں۔ یقینا وہ بھی جانتے ہیں کہ امجد نیازی کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اپنی نوعیت کی واحد مثال نہیں بلکہ اب تو یہ سب کچھ ہمارے ہاں ایک معمول کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ ہر شخص سہما سہما نظر آتا ہے۔ ہر کوئی خوفزدہ دکھائی دیتا ہے کہ معلوم نہیں کب کیا ہو جائے۔ یہ سب کچھ ہم اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ ہوتا دیکھ رہے ہیں کہ جب ملک میں آئین کی عملداری رہی اور نہ ہی قانون کی پاسداری۔ اب صرف طاقت اور اختیار کی زبان باقی رہ گئی ہے جو ہر طرف چنگھاڑتی سنائی دے رہی ہے۔ اِس آواز میں سب کی چیخیں جیسے دم توڑ چکی ہیں اور ہر طرف خوف کا ماحول پیدا ہو چکا ہے۔
رہی یہ بات کہ کوئی کسی دوسرے کے ساتھ زیادتی کرکے کس طرح سے سکون کی نیند سو سکتا ہے تو اِس کا جواب گزشتہ جمعہ کو اسلام آباد میں پیش آنے والے واقعے سے بخوبی مل جاتا ہے۔ سب نے اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھے کہ اسلام آباد پولیس نے دسمبر کی یخ بستہ رات میں مظاہرین پر کس طرح پہلے ٹھنڈے پانی کی بوچھاڑ کی اور اُس کے بعد کیسے لاٹھی چارج کے جوہر دکھائے ۔ یہ سب کچھ دیکھ کر یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ سب کچھ پاکستان کے دارالحکومت میں‘ حکومت کی ناک کے عین نیچے ہو رہا ہے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ دسمبر کی انتہائی ٹھنڈی رات میں یخ بستہ پانی سے جنہیں نہلایا جا رہا تھا، اُن میں اکثریت چھوٹے چھوٹے بچوں اور خواتین کی تھی۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اِس صورتِ حال کا سامنا کرنے کے دوران اُن پر کیا بیت رہی ہو گی۔ سوشل میڈیا پر اس ٹھنڈے پانی کی بوچھاڑ سے کانپنے والے بچوں کی وڈیوز بھی نظروں سے گزری ہوں گی جو بے بس اور خاموش نظروں سے سوال کر رہے تھے کہ آخر ان کا قصور کیا ہے۔ جنہوں نے یہ سب کچھ کیا اور جن کے کہنے پر کیا‘ وہ سب تو بعد میں اپنے اپنے گھروں میں جاکر اپنے بیوی‘ بچوں کے ساتھ سکون سے سو گئے‘ انہیں کیا فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ہاں اب یہ سب کچھ کون سوچتا ہے۔
یہ جو تھانوں میں روزانہ کی بنیادوں پر ہو رہا ہوتا ہے‘ اسے کس کھاتے میں رکھیں گے؟ یہ سب بھی تو بعد میں اپنے اپنے گھروں میں جاکر سکون کی نیند سو جاتے ہوں گے۔ ایک طرف یہ عالم ہے کہ آئی جی صاحب پولیس فورس کا امیج بہتر بنانے کے لیے دن رات مصروفِ عمل ہیں‘ دوسری طرف وہ عملی کارروائیاں ہیں جن سے ہمارا روزانہ کی بنیاد پر پالا پڑتا ہے۔ اس وقت پولیس کی مقبولیت اور اس کی کارکردگی کہاں کھڑی ہے‘ یہ بتانے کے ضرورت نہیں ہے اور یہ صورتحال کیونکر پیدا ہوئی ہے‘ یہ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ سیاسی مخالفین سے نمٹنے کے لیے جس طرح اس ادارے کو استعمال کیا گیا‘ اس کی ماضی میں شاید ہی کوئی مثال ملتی ہو۔ پہلی بار ہے کہ اس طرح چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا۔ آج کل ہمارے ہاں یہی سب کچھ ہو رہا ہے اور یہ سب کچھ کرنے والے بھی اپنے گھروں میں جا کر سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔
اِسی فضا میں انتخابات کا ڈول بھی ڈالا جا چکا ہے، جس بابت ایک گردان مسلسل جاری ہے کہ یہ انتخابات صاف اور شفاف انداز میں منعقد کیے جائیں گے۔ عجیب بات ہے کہ حکومتی سطح پر اِس بات کو ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے کہ انتخابات صاف اور شفاف ہوں گے لیکن عوامی سطح پر کوئی اِس پر یقین نہیں کر رہا۔ پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے لیے ہر روز ہمارا واسطہ عوام سے پڑتا ہے۔ اِس دوران اُن مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہو جاتی ہے جن سے عام آدمی نبرد آزما رہتا ہے۔ یقین کیجیے کہ شاید ہی کسی ایسے شخص سے ملاقات ہوئی ہو جو ملکی حالات سے دلبرداشتہ نہ دکھائی دیتا ہو۔ ہر کسی کے پاس مسائل کی ایک طویل فہرست ہے جس میں پہلے مہنگائی کا مسئلہ سرفہرست ہوا کرتا تھا لیکن اب ملکی حالات پر سب سے زیادہ تشویش کا اظہار سننے میں آرہا ہے۔ لوگ اس بات پر تشویش کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں کہ دوکی جگہ ایک وقت روٹی کھائی جا سکتی ہے مگر ملک میں جس طرح منافرت اور تقسیم کو بڑھاوا دیا جا رہا ہے‘ خدانخواستہ کوئی ناقابلِ تلافی نقصان ہو گیا تو پھر کیا ہو گا؟ سوچوں میں اِس تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ عام آدمی کا جینا مرنا اِسی ملک میں ہے۔ اُس کے پاس تو بیرونی ممالک میں جائیدادیں نہیں ہیں کہ وہ وہاں چلا جائے۔ یوں سمجھ لیں کہ اِس وقت عام آدمی انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ سوچوں میں یہ تبدیلی ایک آدھ دن میں پیدا نہیں ہوئی۔ اِس کے لیے ہمیں طویل ''جدوجہد‘‘ کرنا پڑی ہے۔ ہم نے اپنے عمل سے عوام کے ذہنوں میں یہ بات راسخ کی ہے کہ یہاں خواص کے لیے الگ قوانین ہیں اور عوام کے لیے الگ۔ اُنہیں بار بار باور کرایا گیا کہ اپنے مفادات کے لیے اشرافیہ کسی بھی حد تک جا سکتی ہے اور اسے اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ اس دوران کسے کتنا نقصان پہنچتا ہے۔ اب تو یہ بات بھی ایک لاینحل گتھی بن چکی ہے کہ آخر ہم چاہتے کیا ہیں؟ آخر اپنے ملک اور اِس کے عوام کے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ اِس وقت جو کچھ بھی ملک میں ہو رہا ہے‘ اُسے کم از کم الفاظ میں خطرناک ہی قرار دیا جائے گا۔ اس کی تائید گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے نگران حکومت کی غیر جانبداری پر اٹھائے گئے سوالات سے ہو جاتی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ نگران حکومت کے زیر نگرانی خوفناک نظام چل رہا ہے۔ ایک ایسی حکومت‘ جس کا مینڈیٹ ہی انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بنانا ہے‘ اگر اس پر ہی سوالات اٹھنا شروع ہو جائیں تو مزید کیا کہا جائے۔ حیرت تو تب ہوتی ہے جب جمہوریت کا چیمپئن ہونے کے دعویدار بھی چپ سادھے بیٹھے نظر آتے ہیں۔
دیکھا جائے تو اب صاف دکھائی دیتا ہے کہ ہمارے تمام سیاسی رہنماؤں کی جدوجہد کا صرف ایک ہی مقصد رہ گیا ہے کہ کسی طرح سے وہ اقتدار حاصل کر لیں۔ اس کے لیے انہیں اخلاقیات کو تیاگنا پڑے یا اپنے گزشتہ بیانات سے رجوع کرنا پڑے‘ انہیں کچھ پروا نہیں۔ جو کل تک ملکی اداروں اور عدلیہ کے احترام کا درس دے رہے تھے‘ اب وہی عدالتوں کے خلاف محاذ کھولے نظر آ رہے ہیں۔ اِس منظرنامے میں انتخابات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا‘ یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ بھی ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آ رہا ہے کہ ابھی انتخابات ہوئے بھی نہیں اور ایک سیاسی جماعت حکومتی پروٹوکول انجوائے کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کے لیے عوامی سطح پر موردِ الزام بھی اسے ہی ٹھہرایا جا رہا ہے۔ معلوم نہیں وہ سمجھنے کے لیے کیوں تیار نہیں کہ جو انتخابات اپنے انعقاد سے پہلے ہی متنازع ہو گئے ہیں‘ اُن کے نتائج کون تسلیم کرے گا؟ نفرتوں کو یوں بڑھاوا دے کر اقتدار ملنے پر بھی حکومت نہیں کی جا سکتی، مگر اقتدار کے حصول میں کسی کو پروا ہی کب ہے؟ اور یہ سب کچھ کرنے والے بھی تو سکون کی نیند ہی سوتے ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں