"FBC" (space) message & send to 7575

اقتدار کا دل نہیں ہوتا…(2)

اقتدار کی ہوس کے حوالے سے کالم کے پہلے حصے میں جو چند مثالیں پیش کی گئی تھیں وہ تو دیگ کے چند دانے تھے۔ ورنہ یہ کھیل ازل سے کھیلا جارہا ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ ابد تک اِسی طرح کھیلا جاتا رہے گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ یہ سب کچھ مغربی دنیا میں بھی ہوتا رہا اور آج بھی ہو رہا لیکن ہم تو خود کو اُن سے بہترگردانتے ہیں۔ ہم تو ایسے دین کے پیروکار ہیں جو انتشار کے خدشے کے پیشِ نظر اپنا جائز حق چھوڑ دینے والے کو جنت کی بشارت دیتا ہے‘ جو ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے‘ پھر اقتدار کے لیے ہم وہ تمام حربے کیوں استعمال کرتے ہیں جن سے ہمارے دین نے منع فرمایا؟ہوسِ اقتدار کے حوالے سے جو مثالیں گزشتہ کالم میں آپ کے سامنے رکھیں‘ اُن کا تعلق اُس دور سے ہے جب پوری دنیا میں مطلق العنانیت اور بادشاہت کا بول بالا ہوا کرتا تھا۔ پھر وقت بدلا‘ لوگوں میں شعور آیا تو خاندانی بادشاہتوں کے بجائے حکمرانیٔ جمہور کا نعرہ بلند ہونے لگا اور دنیا میں جمہوریت رائج ہونے لگی۔ بیشتر مغربی ممالک اپنے نظاموں کو وقت کے تقاضوں کے مطابق تبدیل کرنے اور عوام دوست نظام میں ڈھالنے میں کامیاب ہوگئے۔ بدقسمتی سے مشرقی معاشرے اِس حوالے سے کوئی خاطر خواہ کام کرنے میں ناکام رہے۔ مسلم ممالک کی اکثریت چونکہ مشرق میں ہے‘ لہٰذا مسلم دنیا آج بھی جمہوریت کے فیوض سے کوسوں دور نظر آتی ہے۔ بیشتر ممالک میں بادشاہت یا آمریت کا دوردورہ نظرآتا ہے۔ اِن ممالک میں برسرِ اقتدار افراد اور حکومتوں کا مطمح نظر ہی یہ ہے کہ کسی طرح سے اُن کا اقتدار‘ ان کی طاقت برقرار رہے۔
کیا آج بھی حصولِ اقتدار کے لیے ایسے ایسے حربے استعمال نہیں کیے جا رہے کہ جو ماضی بعید میں استعمال کیے جاتے تھے یا جو مغربی دنیا میں متروک ہو چکے۔ آج فلسطینیوں پر کیا قیامت بیت رہی ہے لیکن فلسطین کے ہمسایہ ممالک سمیت پوری اُمتِ مسلمہ میں کہیں سے کوئی مضبوط آواز نہیں بلند ہو رہی‘ مبادااسرائیل اور اس کے حامیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کی صورت میں انہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں ۔ زبانی کلامی مذمت سب کر رہے لیکن عملی طور پر کوئی ایسا اقدام نظرنہیں آرہا جو فلسطینیوں کو اِس عذاب سے نجات دلا سکے۔ مرد، خواتین، بچے، بزرگ سب کو خون میں نہلایا جارہا لیکن پوری دنیا چپ ہے۔ کسی کو اِس سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا، سب کو غرض ہے تو صرف اِس بات سے کہ ان کا اقتدار و اختیار برقرار رہے۔
جو مسلم ممالک خود کو جمہوری کہلواتے ہیں‘ وہاں ہمیں نام نہاد جمہوریت ہی نظرآتی ہے ۔ بدقسمتی سے پوری مسلم دنیا میں سے کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں جو صحیح معنوں میں جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کرسکے۔ہمارا ملک بھی ایسے ہی ممالک میں شامل ہے۔ چند ہفتے قبل نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے لاہو رمیں ایک یونیورسٹی کے طلبہ کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے جب یہ کہا کہ ''پاکستان میں عبوری حکومت ہے‘ مستحکم جمہوریت نہیں‘ تو انہیں خاصی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ بیان زمینی حقائق پر مبنی ہے۔ ہم لاکھ خود فریبی کا سہارا لیں مگر اس سے حقیقت تبدیل نہیں ہو جائے گی۔ کون یہ جھٹلا سکتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کو کبھی پنپنے ہی نہیں دیا گیا۔ اپنے قیام کے فوراً بعد ہی مختلف مسائل میں گھر جانے والے اِس ملک کی تاریخ محلاتی سازشوں سے بھرپور نظر آتی ہے۔ ہر دور میں حکمرانوں نے اپنا اپنا اقتدار بچانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ۔ اپنے سیاسی مخالفین کی ناک رگڑنے کے لیے کیا کیا حربے استعمال نہیں کیے جاتے رہے۔ جس کے ہاتھ میں بھی طاقت آئی‘ اُس نے دوسروں کو نیچا دکھانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کرسکتا تھا۔ قیامِ پاکستان کے پہلے عشرے میں ہی اس قدر تیزی سے حکومتیں تبدیل ہوئیں کہ بھارت کے وزیراعظم نہرو کو بھی طنز کا موقع ملا گیا۔ ہوتے ہوتے سات اکتوبر 1958ء کی شب آن پہنچی جب پاکستان کے پہلے صدر اسکندر مرزا نے آئین کو معطل اور اسمبلیوں کو تحلیل کر کے سیاسی جماعتیں کالعدم قرار دے دیں اور مارشل لا لگا دیا۔ اس وقت کے آرمی چیف ایوب خان کو مارشل لا ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا گیا۔ ٹائپ رائٹر پر لکھا یہ فیصلہ رات قریب ساڑھے دس بجے سائیکلوسٹائل کر کے اخباروں کے دفاتر اور سفارتخانوں کو بھیجا گیا تھا۔ یوں جمہوری جدوجہد سے حاصل کیا جانے والا ملک آمریت کے چنگل میں جا پھنسا۔ مارشل لاایڈمنسٹریٹر بننے والے نے سب سے پہلے اُسی کو مکھن سے بال کی طرح باہر کیا جس کی مہربانی سے وہ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر بنا تھا۔ اسکندرمرزا کو اِس حالت میں جلاوطن کیا گیا کہ انہیں اپنی چیزیں سمیٹنے کا موقع بھی نہ مل سکا۔ ایوب خان کے دور میں بانیٔ پاکستان کی ہمشیرہ‘ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ ایک الگ داستانِ الم ہے۔ سیاستدانوں کو نااہل کرنے کے لیے اقتدار پر قبضہ کرنے کے چند ماہ بعد ہی ایوب خان نے ''الیکٹو باڈیز ڈِس کوالیفکیشن آرڈر‘‘ کا قانون نکالا جو ''ایبڈو‘‘ کے نام سے معروف ہوا۔ یہ قانون دراصل ''پبلک آفسز ڈِس کوالیفکیشن آرڈر‘‘ (پوڈو) کی توسیع تھا جو سرکاری افسروں اور سیاستدانوں کے احتساب کے لیے جاری کیا گیا تھا۔ اس وقت کے چند ممتاز سیاستدانوں نے ایبڈو کے قانون کے تحت الزامات کا سامنا کیا اور مختلف جرائم کے مرتکب قرار دے کر سیاست کے لیے نااہل کر دیے گئے۔ باقیوں نے مقدمات کا سامنا کرنے کے بجائے رضاکارانہ نااہلی قبول کر لی۔ ہزاروں سیاستدان اس قانون کی زد میں آ کر نااہل ہوئے۔ ایوبی آمریت کا دوسرا ہدف پریس تھا۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے قانون کے تحت اخبارات پرقبضہ کیا گیا‘ جو صحافی حکومت کے خلاف لکھتا اُسے جیل میں بند کر دیا جاتا‘ اخبار بند کر دیا جاتا۔ ایوب صاحب خود کوایک مدبر اور سٹیٹس مین سمجھتے تھے۔ ان کی فکر کاشاہکار 1962ء کاآئین ہے جس کوایک کمیٹی نے مرتب کیا مگر اس کی منظوری کسی اسمبلی نے نہیں بلکہ خود صدر موصوف نے دی۔ جب اقتدار سے رخصتی کا وقت آیا تو اپنے ہی آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار یحییٰ خان کو سونپ دیا۔ اس سارے عرصے اور بعد ازاں مشرقی پاکستان میں جو کچھ ہوتارہا‘ اب وہ تاریخ کا حصہ بن چکا۔ یحییٰ خان کا دور صرف ایک حوالے سے یاد رکھا جاتا ہے۔ اِس حوالے سے حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ پڑھیں تو چودہ طبق روشن ہوجاتے ہیں۔ اس کے بعد ملک میں جمہوریت آئی اور ذوالفقار علی بھٹو ملک کے پہلے منتخب وزیراعظم بنے مگر اُنہوں نے بھی سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کیے رکھا۔ اُن کا دور مختلف حوالوں سے آج بھی زیرِ بحث رہتا ہے۔ یہ پہلا جمہوری دور اپنے ہی فیصلوں کے بوجھ سے دھڑام سے نیچے گرا اور ملک دوبارہ آمریت کے شکنجے میں پھنس گیا۔ اب اس دور کا آغاز ہوا جب لسانی سیاست کو سرکاری سرپرستی میں فروغ دیا گیا۔ ملک کو پرائی جنگ میں دھکیل کر بارود کے ڈھیر پر بٹھا دیا گیا۔ کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر متعارف کرایا گیا جس سے آج تک ہماری جان نہیں چھوٹ سکی۔ اس شبِ ظلمت کا خاتمہ ہوا تو پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے اقتدار کا چاک چکر شروع ہوگیا۔ جو بھی برسراقتدار آیا‘ اُس نے دوسرے کو دیوار سے لگانے کی کوشش میں سارے وسائل جھونک دیے۔ اس ایک دہائی کی جمہوریت کے بعد دوبارہ آمریت کی تاریکی چھا گئی۔ اس دوران سیاسی رہنماؤں کو جلاوطن ہونا پڑا‘ اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ساٹھ کے قریب ججز کو گھر بھیج دیا گیا۔ یہ الگ بات کہ بعد میں یہ فیصلہ ہی پرویز مشرف کی اقتدار سے محرومی کی وجہ بنا۔ اِس دوران کراچی میں جو کچھ ہوتا رہا‘ وہ ایک الگ دردناک باب ہے۔ یہ تمام حربے بھی اقتدار کو طول بخشنے سے قاصر رہے۔ اس کے بعد ملک میں تین جمہوری اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی مگر آج بھی وہی سب کچھ ہورہا ہے جو ماضی میں ہوتا آیا۔ ہرطرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے لیکن صاحبانِ اختیار اپنا اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ سب کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح سے اقتدار حاصل ہو جائے ۔ مختصراً یہی کہا جاسکتا ہے کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ کچھ ایسا نہیں ہوا کہ عوام صحیح معنوں میں خود کو طاقت کا سرچشمہ سمجھ سکیں۔ ہم نے تاریخ سے بھی کچھ نہیں سیکھا ۔ وہی اقتدار اور طاقت کا کھیل آج بھی جاری ہے۔ اس دوران ملک اور قوم کا جو حال ہوا وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ تبدیلی کی کوئی امید تک نظر نہیں آ رہی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں