"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ حقیقت‘ کچھ فسانہ

کوئٹہ سے لگ بھگ ایک سو تیرہ کلومیٹر دور ایک پہاڑی سلسلہ واقع ہے جسے خواجہ عمران کا پہاڑی سلسلہ کہا جاتا ہے۔ قلعہ عبداللہ کے اسی پہاڑی سلسلے میں شیلا باغ اور شانزلہ کے درمیان جنوبی ایشیا کی طویل ترین ریلوے ٹنل واقع ہے۔ پانچ روپے کا نوٹ‘ جو اب متروک ہو چکا ہے‘ اُس کی پشت پر اِس ٹنل کے دہانے کی تصویر ہوا کرتی تھی۔ اِس کی تعمیر انجینئرنگ کی دنیا کا ایک بڑا کارنامہ قرار دی جاتی ہے کہ جب اِسے تعمیر کیا گیا تھا‘ تب ٹیکنالوجی اس قدر جدید نہیں تھی۔ اسی لیے جب اِس کی تعمیر کا سوچا گیا تو بیشتر ماہرین کی طرف سے اسے ایک ناقابلِ عمل منصوبہ قرار دیا گیا لیکن بالآخر یہ ٹنل بن ہی گئی۔ اس کی تعمیر سے کئی کہانیاں اورکئی افسانے وابستہ ہیں۔ ایک کہانی یہ بتاتی ہے کہ اگر ہم اپنی ذمہ داریاں پوری نہ کر سکیں تو ہمیں یہ قبول کر لینا چاہیے کہ ہم ناکام رہے‘ ہمیں اپنی کوتاہیوں کو تسلیم کرنا چاہیے۔ ویسے تو یہ ہر کسی کے لیے ایک سبق ہے مگر ہمارے ملک میں خصوصاً اِس رجحان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں تو یہ عالم ہے کہ ملک کے سب سے بڑے سانحے کے کسی ذمہ دار کو بھی سزا نہیں مل پائی۔ جس شخص کے دورِ اقتدار میں ملک دو لخت ہوا‘ اُسے مرنے کے بعد پورے اعزاز کے ساتھ دفنایا گیا۔ دو مرتبہ آئین کو پامال کرنے والا آمر مرنے کے بعد جب وطن واپس آتا ہے تو اُسے بھی پورے اعزاز کے ساتھ دفنایا جاتا ہے۔ اس وقت عالم یہ ہے کہ ملکی خزانہ خالی ہو چکا ہے اور عوام بھوکوں مر رہے ہیں۔ ملک پر قرضوں کے انبار نے عام آدمی کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل بنا دیا ہے لیکن سب کے سب خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم خود اپنے ساتھ بھی مخلص نہیں اور اسی لیے اپنے وطن کے ساتھ یہ کھلواڑ کر رہے ہیں۔ ہمارے سیاستدان حکومت یہاں کرتے ہیں اور مال و اسباب سمیٹ کر اقتدار سے محرومی کے بعد بیرونی ممالک کا رخ کر لیتے ہیں۔ وہ جو خود کرپشن کے الزامات کا سامنا کرتے رہے‘ طاقت و اختیار ملنے پر دوسروں کو کرپٹ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور ایسا کہتے ہوئے اپنے ماضی پر نظر ڈالنا بھی گوارا نہیں کرتے۔
خیر‘ یہ سیاسی داستانِ الم تو اس قدر طویل ہے کہ محسوس ہوتا ہے کہ کبھی ختم ہونے ہی میں نہ آئے گی اور ایسے ہی چلتی رہے گی۔ ہم بیان کر رہے تھے بلوچستان کے قلعہ عبداللہ میں شیلا باغ کی خوجک (کھوجک) ٹنل کی۔ واقعہ یہ ہے کہ برٹش سرکار کو ایک موقع پر یہ خدشہ ستانے لگا کہ روسی افغانستان سے قندھار کے راستے ہندوستان میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اِس خطرے کا سدباب کرنے کے لیے انہوں نے قندھار تک ریلوے پٹڑیوں کا جال بچھانے کا فیصلہ کیا تاکہ روسی افواج کا مقابلہ کرنے کے لیے وہ بروقت اپنی افواج کو متعلقہ علاقے میں بھیج سکیں۔ اس مقصد کے لیے خوجک ٹنل کی تعمیر کا منصوبہ بنایا گیا۔ پہاڑوں کو کاٹ کر بنائی جانے والی 3.9 کلومیٹر اِس طویل سرنگ کی مصدقہ تاریخ کے مطابق اِس کی تعمیر کے لیے ہندوستان کے کونے کونے سے مزدور بڑی تعداد میں منگوائے گئے۔
انگلینڈ کے ہمسایہ ویلز سے 65 کان کن خصوصی طور پر برصغیر لائے گئے۔ 6 ہزار 549 روشنی دینے والے بڑے چراغ اور لیمپ منگوائے گئے اور پانی کی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہر روز بڑی مقدار میں پانی کا خصوصی انتظام کیا جاتا۔ 14 اپریل 1888ء کو سرنگ کی تعمیر کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اس کے انجینئر نے شانزلہ اور شیلا باغ‘ دونوں جانب سے پہاڑوں کو کھودنے کے کام کا آغاز کرایا۔ انجینئر کا اندازہ تھا کہ لگ بھگ 3 سال 4 ماہ بعد1891ء میں دونوں طرف سے کام کرنے والے مزدور پہا ڑوں کو کھودتے کھودتے ایک ایسے مقام پر آ جائیں گے جہاں وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوں گے اور یوں ٹنل کی تعمیر مکمل ہو جائے گی۔ اس کھدائی کے دوران بے شمار مسائل سامنے آتے رہے لیکن کام مسلسل جاری رہا۔ اِسی دوران 1890ء کا موسم سرما آ گیا جو اس منصوبے کی تکمیل کے دوران سب سے سخت موسم ثابت ہوا۔ مزدورں میں مختلف بیماریاں پھوٹ پڑیں اور بڑی تعداد میں افراد ہلاک ہونے لگے۔ جو مزدور مر جاتے ان کی جگہ نئے مزدوروں کو لایا جاتا تاکہ کام کی رفتار کم نہ ہو سکے۔ اِس ٹنل کی تعمیر سے متعلق دستاویزات کے مطابق پورے منصوبے کی تکمیل میں آٹھ سو سے زائد مزدور اپنی جانوں سے محروم ہوئے۔ کرتے کرتے ستمبر 1891ء آ گیا‘ مقررہ تاریخ سر پر آگئی تھی لیکن ابھی تک دونوں اطراف سے کھدائی کرنے والے مزدوروں کا ملاپ نہیں ہو سکا تھا اور یہ صورتحال چیف انجینئر کے لیے بہت خوفناک تھی۔
یہاں تک کی کہانی تو مصدقہ ہے مگر یہاں سے آگے سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچنے والی ایک کہانی اس علاقے سمیت پورے خطے میں بہت مشہور ہے۔ یہ کہانی بہت عرصہ پہلے ہم علاقے کے لوگوں کی زبانی بھی سن چکے ہیں جو نسل در نسل منتقل ہوتی رہی۔ یہ تب کی بات ہے جب بلوچستان کے حالات خاصے پُرامن تھے۔ اس وقت چند دوستوں کے ہمراہ بلوچستان کی سیاحت کے لیے گئے تھے۔ وہاں کہانی سنانے والے قسمیں کھایا کرتے تھے کہ یہ کہانی سچی ہے۔ اس سینہ بہ سینہ کہانی کے مطابق جب چیف انجینئر نے دیکھا کہ اُس کی دی گئی تاریخ کے مطابق کام مکمل ہونے میں تاخیر ہو رہی ہے تو وہ حواس باختہ ہو گیا کیونکہ اس کا خواب ٹوٹ رہا تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ شاید حساب کتاب میں کوئی غلطی ہو گئی ہے اور اب مزدور آپس میں نہیں مل سکیں گے۔ اسے اپنی ناکامی کا خوف ستانے لگا۔ ایک دن وہ ٹنل سے باہر نکلا اور وہ خاموشی سے چلتا ہوا پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ گیا اور وہاں سے نیچے چھلانگ لگا کر اپنی جان دے دی۔ جس رات اُس نے ٹنل کی متوقع ناکامی کے خدشے کے پیشِ نظر خودکشی کی‘ اُس سے اگلے دن دونوں طرف کے مزدور پہاڑ کی آخری دیوار گرا رہے تھے۔ ٹنل کی تعمیر مکمل ہونے پر مزدور جشن منا رہے تھے مگر اس منصوبے کا ماسٹر مائنڈ کہیں نہیں مل رہا تھا۔ مزدوروں نے چیف انجینئر کی تلاش شروع کر دی اور پھر ایک کھائی سے انہیں انجینئر کی لاش مل گئی۔ اُس کی موت کی بابت یہی قیاس کیا گیا کہ اُس نے مقررہ تاریخ پر ٹنل کی تعمیر مکمل نہ ہونے پر مایوسی کے عالم میں خودکشی کی۔ یہ کہانی علاقے میں اتنی کثرت سے سنائی گئی کہ ہمیں بھی یقین ہونے لگا کہ یہ قصہ یونہی ہو گا لیکن جب کہانی سنانے والوں سے انجینئر کا نام پوچھا تو وہ خاموش ہو گئے۔ مسلسل جستجو کے باوجود کہیں سے بھی اِس چیف انجینئر کا نام نہیں مل سکا لہٰذا اِس بنا پر اِس بات کے کافی امکانات موجود ہیں کہ یہ ایک گھڑا ہوا فسانہ ہے جس میں صداقت کا کوئی عمل دخل نہیں۔
ویسے تو یہ کہا جاتا ہے کہ یہ روایت سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچی؛ البتہ اِس کہانی کے گھڑنے کا مقصد یہی دکھائی دیتا ہے کہ دوسروں کو اُن کی ذمہ داری کا احساس دلایا جائے کہ جب کوئی کام آپ کے ذمے لگایا جائے تو اُسے پوری نیک نیتی کے ساتھ انجام دو۔ اگر اپنی ذمہ داری انجام نہ دے سکو تو پھر اپنی ناکامی کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرو۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کم از کم ہمارے ملک میں اب اس کا کوئی تصور باقی نہیں رہ گیا اور شاید یہی ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اتنی تیز رفتاری سے تنزلی کا سفر جاری ہے کہ یہ بات سمجھ سے ماورا ہے کہ آخر ہم کرنا کیا چاہتے ہیں۔ ہر شخص اور ہر ادارہ‘ وہ کام کر رہا ہے جو سرے سے اُس کا کرنے کا ہی نہیں۔ اِس پر مستزاد یہ کہ ایسے قوانین پاس کر لیے جاتے ہیں کہ لوگ مثبت تنقید سے بھی باز رہتے ہیں۔ آج جو ہمارے ملک کا حال ہو چکا ہے‘ یہ اِنہی رویوں کا نتیجہ ہے۔ طاقتور ہمیشہ سے خود کو احتساب سے بالاتر سمجھتے آئے ہیں‘ ہمارے نظامِ عدل کا جو حال ہے اور عالمی سطح پر جو مقام ہے‘ وہ کس سے ڈھکا چھپا ہے؟ انصاف حاصل کرتے کرتے لوگوں کی نسلیں رُل جاتی ہیں مگر انصاف نہیں مل پاتا۔ پہلے کبھی سنتے تھے کہ جج خود نہیں بلکہ اُن کے فیصلے بولتے ہیں لیکن اب حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ مختصراً یہ کہ چاہے خوجک ٹنل کے چیف انجینئر کی خودکشی محض ایک افسانہ ہو‘ حقیقت یہ ہے کہ جب تک ہم اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کریں گے اور اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنے کی عادت نہیں ڈالیں گے‘ تب تک بہتری کی توقع عبث ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں