"FBC" (space) message & send to 7575

پردے چاک ہو رہے ہیں

وہ بزرگ فلسطینی خاتون کہہ رہی تھی ''یہ جنگ ہم پرمسلط کی گئی سیاہ ترین جارحیت ہے، ہمارے سروں پر بم گرائے جا رہے ہیں اور زمین سردی سے یخ بستہ ہے، ہمارے اوپر عرصۂ حیات تنگ کردیا گیا ہے، ہم جائیں تو جائیں کہاں؟ جو اسرائیلی بمباری سے بچ گیا وہ سردی سے مر رہا ہے، ہمارے لیے کوئی جائے پناہ نہیں ہے، ہم ایک سکول میں بیٹھے ہیں، شدید سردی سے مر رہے ہیں، بیمار ہیں، سڑک پر سونے پر مجبور ہیں، ہم ملبے کے ڈھیروں پر پڑے ہیں، ریت اور پتھروں پر کیسے سوسکتے ہیں؟‘‘۔ یہ کہتے ہوئے غزہ کی وہ بوڑھی خاتون اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔ یہ غزہ کے عوام کے مصائب کی ایک تازہ مثال ہے۔
وہ فلسطینی نوجوان بھی سچ بول رہا تھا۔'' ہم زندہ ہیں اور ہم زندہ رہیں گے، ہم شہادت کے رتبے پر فائز ہورہے ہیں اور اپنے رب کے ہاں سرخرو ہو رہے ہیں، اِس لیے بہتر ہوگا کہ تم ہمارے جنازے مت پڑھو، ہم زندہ ہیں‘ مر تو آپ گئے ہو‘ تم لوگ اپنے جنازے پڑھو، تم پر موت واقع ہوچکی ہے کہ ہم پر بارود کی بارش کی جا رہی ہیں لیکن کہیں سے ہمارے حق میں کوئی آواز بلند نہیں ہورہی‘‘۔ جنگ زدہ غزہ سے ہرروز ایسی کتنی ہی آوازیں بلند ہوتی ہیں اور ہمارے کانوں پر دستک دینے کے بعد دم توڑ جاتی ہیں۔ مجال ہے کہ ہمارے کانوں پر کوئی جوں تک رینگتی ہو۔ ہم شاید اِن مصیبت زدہ لوگوں کے مرنے کے منتظر ہیں تاکہ یہ جھنجھٹ ختم ہو جائے۔ ہر روز سینکڑوں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے، کوئی دن نہیں جاتا جب سینکڑوں مزید مظلوم فلسطینیوں‘ جب میں زیادہ تعداد بچوں کی ہوتی ہے‘ کے مرنے کی خبر نہیں آتی مگر پوری دنیا پر ایک سکوت طاری ہے۔ سبھی غالباً اب اس انتظار میں ہیں کہ اسرائیل جلد از جلد غزہ کا قبضہ مکمل کر لے کہ پھر نہ غزہ کا کوئی مسئلہ ہو گا، نہ دنیا کو دکھانے کے لیے اسرائیل اور امریکہ کی مذمت کرنا پڑے گی اور نہ مسلم ممالک کے حکمرانوں کے اقتدار کو کوئی خطرہ ہو گا۔
ایک طرف غزہ میں جہنم کا عالم ہے اور دوسری طرف بے حسی، بے مروتی اور بے ضمیری کی کیسی کیسی مثالیں رقم کی جا رہی ہیں۔ شاندار انداز میں غزہ کی ہرلحظہ بدلتی تازہ ترین صورتحال سے آگاہی دی جاتی ہے‘ ہر نیوز بلیٹن میں زور شور سے بتایا جاتا ہے کہ آج اسرائیل کے نئے حملے میں مزید اتنے فلسطینی شہید ہوگئے ہیں۔ اسرائیل نے جارحیت کرکے مزید کئی شہری آبادیوں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا۔ اب یہ سننے کو ہی کان ترس گئے ہیں کہ اِس جارحیت پر مسلم اُمہ نے مضبوط آواز بلند کی۔ کئی مسلم ممالک اور مسلم حکمرانوں کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ بہت بہادر ہیں‘ وہ اسرائیل کو مزہ چکھا دیں گے‘ وہ اس جنگ کو تل ابیب کی گلیوں میں لڑیں گے لیکن افسوس اُمت کے ان جری رہنمائوں کی آواز تک سنائی نہیں دے رہی۔ مسلم اُمہ کے رہنمائوں کا تو اب کافی عرصے سے غزہ تنازع کے پس منظر میں کوئی بیان بھی سننے کو نہیں ملا۔ تمام عرب ممالک بھی چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ اِنہی میں سے ایک ملک میں ہونے والی غزہ کانفرنس کے دوران جب یہ تجویز سامنے آئی کہ کم ازکم اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات ہی ختم کردیے جائیں تو بیشتر ممالک کے نمائندوں نے اس تجویز کی نفی کی اور بالآخر طویل بحث و مباحثے کے بعد یہ تجویز رد کردی گئی۔ ہم تو یہ اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ اسرائیل کو منہ توڑ جواب دینے کے لیے اِس کے ساتھ سفارتی تعلقات رکھنے والے مسلم ممالک فی الفور اپنے سفارتی تعلقات ختم کردیں گے۔ یہ خواہش تو کیا پوری ہوتی‘ وہ تو تجارتی تعلقات تک ختم کرنے کے روادار دکھائی نہیں دیتے۔ اب تو ہمارے ملک کے اندر سے بھی اسرائیل سے تعلقات کے حوالے سے آوازیں بلند ہورہی ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ قائد اعظم نے اسرائیل کے معاملے پر جو رائے دی تھی‘ اُس سے اختلاف کرنا کفرتو نہیں ہے۔ گویا پوری اُمتِ مسلمہ نے فلسطینیوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا ہے۔
اِس صورتحال کے تناظر میں ایک مرتبہ پھر نگاہیں آسمان کی طرف اٹھ رہی ہیں کہ اب تو اللہ تعالیٰ ہی کی ذات ہے کہ جو امریکہ اور اسرائیل کے ہاتھوں کو روک سکتی ہے ورنہ بحیثیت مجموعی ہم تو کچھ کرنے کے قابل نہیں۔ یہاں بوسینا کی وہ صورتحال بھی شدت سے یاد آرہی ہے جب سربیا کی افواج نے بوسنیا کے مسلمانوں کے لیے زمین تنگ کردی تھی۔ تب سرب افواج نے قتل و غارت گری کا ایسا بازار گرم کیا تھا کہ جس کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں۔ اِس تنازع کے تناظر میں ''اپنوں‘‘ اور ''غیروں‘‘ کے طرزِ عمل کو واضح کرنے کے لیے صرف ایک مثال کافی ہوگی۔ 6 جولائی 1995ء کو سرب فورسز نے سریبرینیکا پر پوری شدت کے ساتھ حملہ کیا۔ وہاں پر اقوام متحدہ کی امن افواج تعینات تھیں‘ جنہوں نے یا تو ہتھیار ڈال دیے یا پھر شہر سے پیچھے ہٹ گئیں۔ جب نیٹو کی افواج کو فضائی حملے کے لیے بلایا گیا تو اس نے بھی سرب فورسز کی پیشرفت کو روکنے میں کوئی مدد نہیں کی اور یوں یہ قصبہ سرب افواج کے قبضے میں چلا گیا۔ یہاں مردوں کی بڑی تعداد کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اور بڑی تعداد میں خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ 20 ہزار کے قریب شہریوں نے ہالینڈ (نیدر لینڈز) کے زیرِنگرانی چلنے والے اقوام متحدہ کے ایک کیمپ میں پناہ لے رکھی تھی۔ سرب افواج نے اس کیمپ پر بھی دھاوا بول دیا اور یہاں بھی قتل وغارت گری کا بازار گرم کیا۔ 2002ء کی ایک رپورٹ میں ہالینڈ کی اس وقت کی حکومت اور فوجی عہدیداروں پر ان ہلاکتوں کو روکنے میں ناکامی کا الزام عائد کیا گیا۔ اس رپورٹ کے پیش نظر پوری ڈچ حکومت نے استعفیٰ دے دیا۔ 2019ء میں ہالینڈ کی عدالتِ عظمیٰ نے اس فیصلے کو برقرار رکھا جس میں ہالینڈ کو سریبرینیکا میں 350 افراد کی اموات کے لیے جزوی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ ہالینڈ کی امن افواج اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں ناکام رہیں تو اُنہیں نہ صرف اِس کے لیے موردِ الزام ٹھہرایا گیا بلکہ پوری حکومت کو ہی مستعفی ہونا پڑا۔
بوسینا کے مسلمانوں کی جان خلاصی تب ہوئی تھی جب امریکہ اور نیٹو فورسز نے یوگوسلاویہ پر حملہ کیا۔ ان حملوں میں یوگوسلاویہ کے مختلف علاقوں پہ شدید بمباری کی گئی جس پر سرب افواج نے بوسینا کو خالی کرنے پر رضامندی ظاہر کردی۔ اگر بوسینائی مسلمان بھی مسلم ممالک کے سہارے پر رہتے تو شاید اُن کا آج نام ونشان تک مٹ چکا ہوتا۔ بالکل ویسے ہی جیسے آج فلسطینیوں پر زمین تنگ کی جاچکی ہے لیکن پوری کی پوری مسلم اُمہ چپ سادھے بیٹھی ہے۔ فلسطینی سچ کہتے ہیں کہ تم ہمارے نہیں‘ اپنے جنازے پڑھو۔ اُن کو کون بتائے کہ ہم اب جنازے پڑھنے کے قابل ہی رہ گئے ہیں کیونکہ اور تو ہمارے بس میں کچھ رہا نہیں۔ آپ خود دیکھ لیں‘ کسی کو رتی برابر فکر نہیں کہ کسی طرح اسرائیلی جارحیت کو روکا جائے۔ ایک طرف یہ صورتحال ہے اور دوسری طرف بیانات ملاحظہ کیجئے۔ ''ہم مصیبت کی اِس گھڑی میں فلسطینیوں کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔ ''ہم اسرائیلی جارحیت کی شدید مذمت کرتے ہیں‘‘۔ ''اسرائیل کو اِس جارحیت کا مزہ چکھنا پڑے گا‘‘ وغیرہ وغیرہ۔
یقینا غزہ پر اسرائیلی جارحیت اہلِ غزہ کے لیے ایک آزمائش کی گھڑی ہے مگر اس امتحان نے مسلم دنیا کی حقیقت کو پوری طرح سے آشکار کردیا ہے۔ جتنے پردے اس کے گرد لپٹے ہوئے تھے‘ اُنہیں پوری طرح سے چاک کردیا ہے۔ اب سب کچھ عیاں ہو گیا ہے کہ کون کہاں کھڑا ہے‘ کس کی حمایت کس کے ساتھ ہے اور کون باہمی معاملات میں تجارتی تعلقات کو ترجیح دیتا ہے۔ اب کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ سبھی ممالک اب فلسطین ایشو کو بھول کر دیگر معاملات میں الجھے ہوئے ہیں۔ اپنے ہاں ہی دیکھ لیں‘ ہمیں اب فلسطین سے زیادہ حکومت سازی کی فکر ہے ۔ شاید فلسطین کی صورتحال کے ساتھ ملک کی صورتحال کو منسلک کرنا کچھ عجیب معلوم ہو لیکن دل اگر فلسطین کی صورتحال پر نوحہ و گریہ کناں ہے تو ملکی صورتحال پر بھی بے چین ہے کہ معلوم نہیں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اور آگے چل کر حالات کیا رخ اختیار کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں