"FBC" (space) message & send to 7575

رام مندر کا سیاسی استعمال

برصغیر میں مغل سلطنت کی بنیاد رکھنے والے ظہیرالدین بابر کے حکم پر 1527ء میں ایودھیا میں ایک مسجد تعمیر کی گئی تھی جسے بابری مسجد کا نام دیا گیا۔ ایودھیا آج کی بھارتی ریاست اُتر پردیش میں واقع ہے جہاں کا وزیراعلیٰ ایک انتہا پسند‘ یوگی آدتیہ ناتھ ہے۔ مسجد کی تعمیر کے وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ شہنشاہ بابر کے حکم پر میر باقی کی تعمیر کردہ یہ مسجد قریب پانچ سو سال بعد ایک بہت بڑے تنازع کا شکار ہو جائے گی۔ یہ مسجد مغل اسلامی فنِ تعمیر کے اعتبار سے ایک شاہکارگردانی جاتی تھی۔ اِس کے اوپر تین گنبد تعمیر کیے گئے جن میں سے درمیانی گنبد بڑا تھا اور اس کے دونوں اطراف ایک‘ ایک چھوٹا گنبد تھا۔ یہ گنبد چھوٹی اینٹوں سے بنائے گئے تھے اور ان پر چونے کا پلستر کیا گیا تھا۔ مسجد کو خوبصورت پتھروں سے تعمیر کیا گیا جس میں اس کا صحن بھی شامل تھا۔ صحن میں وضو کے لیے پانی فراہم کرنے کی غرض سے ایک کنواں بھی کھودا گیا۔ مسجد کو ٹھنڈا رکھنے کی غرض سے اس کی چھت کو بلند رکھا گیا۔ روشنی اور ہوا کے لیے جالی دار کھڑکیاں نصب کی گئیں۔ اندرونی تعمیر میں بھی مغل فن اپنے عروج پر نظر آتا تھا۔ مغل ادوار کی مساجد کی ایک انتہائی خاص بات یہ ہے کہ محراب میں کھڑے شخص کی معمولی سی سرگوشی کو بھی مسجد کے اندرونی حصے میں بہ آسانی سنا جا سکتا ہے۔ اس طرح اُس دور میں اذان و خطبہ وغیرہ لائوڈ سپیکر کے بغیر ہی ہر شخص بہ آسانی سن لیتا تھا۔ الغرض یہ مسجد اسلامی فنِ تعمیر کا ایک شاہکار تھی۔ 1850ء کی دہائی میں کچھ ہندو انتہا پسند تنظیموں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ بابری مسجد بھگوان رام کی جائے پیدائش پر تعمیر کیے گئے مندر کو گرا کر تعمیر کی گئی تھی۔ انتہا پسندوں کا پروپیگنڈا روز بروز شدت اختیار کرتا گیا جس پر 1853ء میں ایودھیا میں پہلے ہندو‘ مسلم فسادات شروع ہو گئے۔ انگریز سرکار نے اِس صورتحال سے نمٹنے کے لیے یہ حل نکالا کہ 1859ء میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے عبادت کی الگ الگ جگہیں مختص کر دیں۔ تقسیمِ ہند کے محض دو برس کے بعد ہندو تنظیموں کی طرف سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ مسجد کے اندر سے بھگوان رام کی مورتیاں دریافت ہوئی ہیں جو اِس بات کا ثبوت ہے کہ یہی بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔ کشیدگی اتنی بڑھی کہ حکومت نے مسجد کو متنازع مقام قرار دے کر اِسے بند کر دیا۔ وہ مسجد جہاں لگ بھگ سوا چار سو سال سے پنج وقتہ باجماعت نماز ادا کی جا رہی تھی‘ یکایک ویران ہو گئی۔ اُس وقت کی کانگریسی حکومت کا خیال تھا کہ شاید مسجد کو بند کرنے سے معاملات ٹھنڈے پڑنا شروع ہو جائیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ 1984ء میں‘ جب ایک طرف سکھوں سے تنائو عروج پر تھا‘ انتہا پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد کی جانب سے بھگوان رام کی جائے پیدائش کو آزاد کرانے کے لیے تحریک کا اعلان کر دیا گیا جس کی قیادت بی جے پی کے رہنما لال کرشن ایڈوانی نے سنبھال لی۔ یہ وہ دور تھا جب بھارتیہ جنتا پارٹی سیاسی طور پر استحکام حاصل کرنے کی کوششوں میں مصروف تھی۔ عوامی پذیرائی دیکھ کر اُسے محسوس ہوا کہ بابری مسجد تنازع کو سیاسی طور پر بھی کیش کرایا جا سکتا ہے‘ سو بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایل کے ایڈوانی کی قیادت میں سخت گیر ہندو تنظیموں‘ وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دَل اور شیو سینا کے ساتھ مل کر رام مندر کی تعمیر کے لیے ایک تحریک چلانا شروع کر دی۔ اسی دوران ایک ملک گیر ''رتھ یاترا‘‘ ریلی بھی نکالی گئی جس کا مقصد ہندو اکثریت کی ہمدردیاں حاصل کرنا اور حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا۔ اِسی تحریک کے دوران 6 دسمبر 1992ء کو ہزاروں ہندو انتہاپسندوں نے بی جے پی اور وشوا ہندو پریشد کی اعلیٰ قیادت اور نیم فوجی دستوں کے ہزاروں مسلح جوانوں کی موجودگی میں بابری مسجد پر حملہ کر کے اس کو مسمار کر دیا۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ حکومت کی طرف سے اِس یاترا کی اجازت اِس شرط پر دی گئی تھی کہ بابری مسجد کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ یہ شرط قبول کرنے کے باوجود بی جے پی نے انتہاپسند تنظیموں کے ساتھ مل کر مسجد کو شہید کر دیا۔ بی جے پی کے رہنما جانتے تھے کہ ہندو اکثریت کی ہمدردیاں حاصل کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں ہندو‘ مسلم فسادات بھڑک اُٹھے جن میں قریب تین ہزار افراد مارے گئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اِس واقعے کا ردعمل پوری دنیا میں محسوس کیا گیا۔
بابری مسجد کی شہادت کے باعث بھارت میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین پیدا ہونے والے کشیدگی طویل عرصے تک قائم رہی جس کا بی جے پی بھرپور فائدہ اُٹھاتی رہی۔ اُسے اِس بات سے کوئی غرض نہیں کہ نفرت انگیزی اور مذہبی منافرت سے بھارت کی وحدت کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد جب بی جے پی نے اقتدار سنبھالا تو اس نے بابری مسجد کی جگہ پر عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کا اعلان کر دیا۔ گویا بی جے پی اِس معاملے کو طویل مدت تک لے کر چلنے کی پہلے سے تیاری کر چکی تھی۔ رام مندر کی تعمیر کا کیس طویل عرصے تک بھارتی عدالتوں میں زیرِ سماعت رہا اور آخرکار نومبر 2019ء میں بھارتی سپریم کورٹ نے حکومت کو بابری مسجد کی جگہ پر رام مندر تعمیر کرنے کی اجازت دیدی۔ اس فیصلے نے انتہاپسند ہندوؤں کو خوش کر دیا اور اب اُن کی خوشی دوبالا ہو چکی ہے کیونکہ 22 جنوری کو رام مندر کی تعمیر نامکمل ہونے کے باوجود اُس کا افتتاح کیا جا چکا ہے۔ رام مندر کی تعمیر مکمل ہونے میں ابھی مزید دو‘ تین سال درکار ہیں مگر اس کے افتتاح کو بی جے پی نے سیاسی طور پر خوب کیش کرایا ہے۔
رام مندر کی تعمیر کے منصوبے کا آغاز ہو جانے کے بعد سے اِس کی خوب تشہیر کی جا رہی ہے۔ اس کی تعمیر کے آغاز پر حکومت کے ساتھ ساتھ بھارت کے امرا کی طرف سے بھی بھاری بھرکم عطیات دیے گئے جبکہ بی جے پی اور دیگر انتہا پسند تنظیمیں گزشتہ تیس سال سے رام مندر کے نام پر فنڈز اکٹھے کر رہی تھیں۔ ان تنظیموں نے 30 ارب سے زیادہ کا فنڈ اکٹھا کیا جبکہ اس مندر کی تعمیر پر اب تک 18 کروڑ ڈالر (پانچ کھرب روپے) خرچ ہو چکے ہیں۔ 22 جنوری کو اس کا افتتاح بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کیا جبکہ تقریب میں آٹھ ہزار اہم اور نمایاں بھارتی شخصیات کو شرکت کی دعوت دی گئی۔ ان میں زیادہ تر وہ افراد تھے جنہوں نے رام مندر کی تعمیر میں مالی طور پر تعاون کیا یا عملاً رام مندر تعمیر تحریک میں شامل رہے۔ بالی وُڈ اداکاروں کی اکثریت اس تقریب میں نظر آئی جن میں انوپم کھیر، مادھوری ڈکشت، ہیما مالنی، رنبیر کپور، عالیہ بھٹ، کترینہ کیف، کنگنا رناوت اور وکی کوشل کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد نامور بھارتی کرکٹرز بھی اِس تقریب میں شریک ہوئے۔ رام مندر کی تعمیر کے حق میں فیصلہ سنانے والے سپریم کورٹ کے پانچوں ججوں کو بھی تقریب میں بلایا گیا تھا۔ گویا حکومتی سطح پر اِس بات کی بھرپورکوشش کی گئی کہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی جائے تاکہ بی جے پی کا پیغام ہر جگہ پہنچ جائے کہ وہی ہندوؤں کے مذہبی مفادات کی اصل محافظ ہے۔ اِس تقریب کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کے پیش نظر کئی ہندو مذہبی رہنمائوں اور اپوزیشن جماعتوں نے اس تقریب کا بائیکاٹ کیا۔
اب جبکہ رام مندر کا افتتاح ہو چکا ہے‘ بی جے پی کو بھرپور اُمید ہے کہ وہ دو ماہ بعد ہونے والے عام انتخابات میں بھرپور سیاسی فوائد اُٹھانے میں کامیاب رہے گی۔ اگرچہ بھارت کے چند سنجیدہ طبقات مندر کی تعمیر میں کھربوں روپے جھونکنے کی مخالفت بھی کر رہے ہیں کہ بھارت میں مندروں کی کچھ کمی نہیں اور ان کی تعمیر سے عام آدمی کی زندگی پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہوں گے مگر اس وقت اکثریتی ہندو ووٹر بی جے پی کے انتہاپسند اقدامات سے کافی خوش دکھائی دیتا ہے۔بی جے پی کو پوری اُمید ہے نریندر مودی ہیٹ ٹرک کرتے ہوئے مسلسل تیسری بار وزیراعظم بنیں گے اور اسی لیے وہ خود بھی سیاست میں بھرپور طریقے سے مذہبی کارڈ استعمال کر رہے ہیں۔ ماضی قریب میں بھی جن ریاستوں میں بی جے پی نے مذہبی کارڈ استعمال کیا‘ وہاں اُسے بھرپور سیاسی فوائد حاصل ہوئے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں