"FBC" (space) message & send to 7575

آئیے تہیہ کرتے ہیں

ہمارے ہاں شاید ہی کوئی دور ہنگامے کے بغیر رہا ہو۔ کوئی نہ کوئی ایسا 'سیاپا‘ پڑا ہی رہتا ہے کہ شہر میں ہر شخص ہی پریشان دکھائی دیتا ہے ۔ ملک ہمیشہ نازک دور سے گزرتا رہتا ہے ‘جس کی گردان کچھ اس تسلسل سے سننے میں آتی ہے کہ اب تو اس کی عادت سی ہو گئی ہے ۔کم از کم الفاظ کا چناؤ ہی تبدیل کر لیا جائے ۔ سلامتی کو لاحق رہنے والے خطرات کا چورن بیچنا بھی پہلے جیسا آسان نہیں رہا ‘جسے بیچنے میں ہم اتنے مگن رہے کہ اصل خطرات ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے ‘ان میں سے ایک پانی کی قلت کا مسئلہ ہے ۔ اب اپنے اس چلن کا خمیازہ تو بہرحال ہمیں بھگتنا ہی ہوگا ۔صرف ہمیں ہی نہیں‘ بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا ہو گا‘ جو ہمیں لعن طعن کرتی رہیں گی کہ اُن کے بڑے اُنہیں پانی کے لیے ترستا کیوںچھوڑ گئے ؟ وہ یہ کیوں نہ سمجھ سکے کہ پانی سے زندگی نہیں‘ بلکہ پانی ہی زندگی ہے ۔ اور اُن کو اپنے اپنے مفادات اس قدر کیوںعزیز تھے کہ وہ ہمارے بارے میں کچھ سوچ ہی نہ سکے اور وہ عملاً کوئی اقدام اُٹھانے کی بجائے کیوںصرف بحث ومباحثے میں ہی اُلجھے رہے ؟
آنے والی نسل کے متذکرہ بالا سوالات کے جوابات دینے کے لیے اس وقت ہم موجود نہیں ہوںگے‘ لہٰذاان سوالات کے جوابات پیشگی دے دیتے ہیں۔اُنہیں کم از کم2018ء تک کی صورتحال کے بارے میں ابھی سے ہی بتا دیتے ہیں ۔ اُنہیں بتا دیتے ہیں کہ ہم اپنے اللوں تللوں میں اُلجھ کر رہ گئے تھے ۔سویلین‘عسکری بالادستی ہمارے لیے سب سے اہم مسئلہ بن گیا تھا ۔ ہمیں بحث و مباحثے اور ایک دوسرے کی پگڑیاں اُچھالنے میں مزہ آنے لگا تھا۔ ہم ہر روز شام کو ٹولیوں کی صورت میں بیٹھ جاتے اور پھر ایک دوسرے کے خوب لتے لیتے ۔ ہم نے اس کے باوجود اپنی آنکھیں نہ کھولیں کہ قیام پاکستان کے وقت ہر شہری کے لیے پانچ ہزار کیوبک میٹر پانی سالانہ دستیاب تھا اور2018ء تک یہ مقدار کم ہو کر صرف ایک ہزار سترہ کیوبک میٹر رہ گئی تھی ۔ہم نے اس کے باوجود اپنی آنکھیں نہ کھولیں کہ2018ء تک ہمارے پاس صرف تیس دنوں تک کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت باقی رہ گئی تھی‘ لیکن یہ سال تو انتخابات کا سال تھا اور انتخابات کے وقت اتنی فرصت کس کو ہوتی ہے کہ وہ پانی جیسے معاملات کی طرف توجہ دے‘ جس کے بعد اگلا سال آنے والے حکومت کو اپنی ترجیحات طے کرتے ہوئے گزر گیا۔ بالکل اُسی طرح جس طرح ماضی کی حکومتوں کو پانی کی سنگین ہوتی قلت کی طرف توجہ دینے کا موقع نہیں ملا اور نتیجتاً صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی کہ خود سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق ‘ بڑھتی ہوئی آبادی‘ شہروں کی طرف نقل مکانی‘ موسمیاتی تبدیلیوں اور حکومتوں کی کوتاہیوں نے پاکستان کو پانی کی شدید قلت کے شکار ممالک کی صف میں شامل کر دیا ۔ملک کے تین بڑے آبی ذخائر منگلا‘تربیلا اور چشمہ میں صرف 30دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رہ گئی ہے اور وہ بھی مسلسل کم ہوتی جارہی ہے ‘جبکہ عالمی معیار کے مطابق ہمارے پاس کم از کم 120دن کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت ہونی چاہئے۔ ترقی یافتہ ممالک تو اب ایک سے دو سال کے لیے پانی ذخیرہ کر رہے ہیں‘ لیکن ہمارے ہاں ہرسال دریاؤں میں آنے والے پانی کا صرف 10فیصد پانی ہی ذخیرہ ہو پاتا ہے ۔ حالات اگر یوں ہی رہے‘ تو صرف بارہ سال بعد یعنی2030ء میں پاکستان ان 33ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جنہیں پانی کا شدید بحران درپیش ہے۔ مزید10سال بعد شہریوں کے لیے بھی پانی کی فراہمی مشکل ہوجائے گی ‘ جن میں سے کم از کم پانچ کروڑ افراد تو ابھی سے ہی کسی نہ کسی صورت متاثر ہورہے ہیں۔اسی تناظر میں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ پانی کا بحران دہشت گردی سے بھی زیادہ خطرہ ہے‘ لیکن ہمارے پاس اس مسئلے کو حل کرنے کی ابھی فرصت نہیں ۔
ایسے مسائل پر نظر رکھنے والے برادرم ہارون اکرم گل کے بقول اگر ہم توانائی کے بحران سے نکل بھی گئے ‘تو پانی کی کمی کے باعث ‘جو غذائی بحران‘ ہماری طرف بڑھتا چلا آرہا ہے ‘ اُس سے نکلنا بہت مشکل ہوگاکہ اس مرتبہ فصل خریف کے لیے پانی کی قریباً بتیس فیصد کمی کا سامنا ہے ‘جو آنے والے سالوں میں بتدریج بڑھتی چلی جائے گی‘ کیونکہ ہمارے دریاؤں میں سالانہ جو144ملین ایکٹر فٹ پانی آتا ہے‘ ہم اُس میں سے صرف 13.8ملین ایکٹر فٹ پانی ہی ذخیرہ کرپاتے ہیں۔عالم یہ ہے کہ ساٹھ کی دہائی کے بعد سے ہم ایسی لمبی تان کر سوئے رہے کہ ہماری آنکھ کھل ہی نہیں پائی ۔1967ء میں منگلا ‘ اُس کے بعد تربیلا ‘پھر چشمہ اوراس کے بعد '' چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ ۔ معاملہ اور بھی گھمبیر ہوجاتا ہے‘ جب ہم اپنی ہرکوتاہی کا الزا م بھی دوسروں کے سر ڈال کر خود بری الذمہ ہوجاتے ہیں ۔ البتہ اس حقیقت سے انکار بہرحال ممکن نہیں کہ دشمن کبھی بھی دشمنی سے باز نہیں آتا ‘ اُس کی طرف سے کسی نہ آبی جارحیت کاسلسلہ تو جاری ہے ‘لیکن ہمیں یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا ہوگی کہ اس معاملے میں اپنے دشمن سے زیادہ ہم نے خود اپنے ساتھ دشمنی کی ہے اور مسلسل کررہے ہیں۔ دشمن کی آبی جارحیت کا مقابلہ کرنے کے لیے ہم نے باتوں کے علاوہ کیا ہی کیا ہے؟ہم سے زیادہ تو شاید ہمارے ملک میں جرمنی کے سفیر مارٹن کوبلر کرگزرے ہیں‘ جنہوں نے ایک بالٹی پانی سے گاڑی دھو کر ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بھائی لوگو یہ جو تم پائپ لگا کر اپنی گاڑی دھوتے ہو ‘ اس سے قریبا ًسو لیٹر پانی ضائع ہوتا ہے۔ لہٰذا بالٹی میں پانی بھر کر گاڑی دھولیا کرو‘ تاکہ زیادہ سے زیادہ پانی بچا سکو۔ گویا اس مسئلے کی سنگینی کا احساس وہ بھی کررہے ہیں جو ایک محدود مدت کے لیے یہاں رہنے کے لیے آئے ہیں لیکن ہمارے نل خراب ہیں تو خراب ہیں، پانی بہتا ہے تو بہتا چلا جارہا ہے ، دریا خشک ہورہے ہیں تو ہوتے چلے جارہے ہیں ، ڈیموں میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہورہی ہے تو ہوتی چلی جارہی ہے ۔ ہر رپورٹ خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے کہ خدا کے لیے ہوش کے ناخن لو ، خود کو اور اپنی آنے والی نسلوں کو بچا لو لیکن مجال ہے جو کانوں پر جون تک رینگتی ہو،آجا کے کالاباغ ڈیم کی صورت ایک اُمید ہے کہ اگر کہیں اس پر صوبوں کے درمیان اتفاق رائے ہوجائے‘ تو شاید بات بن جائے‘ لیکن یہ منصوبہ اتنا متنازعہ ہوچکا ہے کہ شایدہی ہمارے ملک کی تاریخ میں کوئی اور منصوبہ اتنا متنازعہ رہا ہو، لہٰذا بظاہر تو اس کے بننے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی‘ لیکن ایک منصوبہ متنازع ہونے کا مطلب یہ تو نہیں کہ دوسرے منصوبے شروع ہی نہ کیے جائیں ۔ ضرورت تو اس بات کی بھی تھی کہ شہریوں کو سیاست میں اُلجھائے رکھنے کے ساتھ ساتھ پانی احتیاط سے استعمال کرنے کے بارے میں بھی بتایا جاتا ، اُنہیں بتایا جاتا کہ پانی کی ایک ایک بوند کو احتیاط سے استعمال کریں کہ اگر اب بھی پانی کو عزت نہ دی گئی تو پھر کسی کے بس میں کچھ نہیں رہے گا۔حکومت تواس حوالے سے کیا کرتی ، اُسے ایک طرف رکھیے ‘ آئیے ہم سب آج سے تہیہ کریں کہ ہم اپنی گاڑیاں پائپ سے نہیں، بالٹی میں پانی بھر کر دھوئیں گے ۔ گھر کا کوئی نل خراب ہے‘ تو اُسے فوراً ٹھیک کرائیں گے ۔ نہاتے ہوئے ضرورت سے زیادہ پانی نہیں بہائیں گے ۔ پیڑ‘ پودوں کو پانی دیتے ہوئے بھی احتیاط سے کام لیں گے‘ تاکہ آنے والی نسلوں کے سامنے کچھ تو 'فیس سیونگ‘ ہوسکے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں