"FBC" (space) message & send to 7575

جنگ ستمبر کے غازیوں اور شہیدوں کو سلام

وقت کا پہیہ گھومتا ہوا چھ ستمبر سے آگے بڑھ کر آٹھ ستمبر 1965ء تک پہنچ چکا تھا۔ پاکستان اور بھارت کی افواج‘ برُی طرح سے ایک دوسرے کے ساتھ اُلجھی ہوئی تھیں۔توپوں کی گھن گھرج‘ ٹینکوں کی یلغار‘ مشین گنوں کی تڑتراہٹ اور فضاؤں میں بھارتی اور پاکستانی طیاروں کی مڈبھیڑغضب ڈھا رہی تھی۔سندھ کی صحرائی سرحد سے لے کر لاہور اور اس سے آگے قصور تک دونوں افواج ایک دوسرے پر ٹوٹی پڑ رہی تھیں۔ لیفٹیننٹ جنرل ہربخش سنگھ کی قیادت میںبھارتی فوج کی 11ویں کور نے 6ستمبر1965ء کو قصور اور لاہور کے محاذوں پر حملہ کیا تھا۔ بھارتی فوج کے 25ویں ڈویژن کو لاہور پر قبضے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی اور لاہور پر قبضہ ان کے حملے کا اصل ہدف تھا۔اپنی بے پناہ طاقت کے بل بوتے پر بھارتی فوج جلوموڑ کی بی آر بی نہر تک بڑھ تو آئی تھی‘ لیکن اس سے آگے پاک فوج کے جوانوں نے آگ‘ لوہے اور اپنے خون سے دیوار کھڑی کردی تھی۔ایک ایسی دیوار‘جس سے سرپٹختے پٹختے بھارتی فوجی لہولہان ہوگئے‘ لیکن دیوار میں دراڑ تک نہ آسکی۔بھارتی فوج کے کمانڈرانچیف جنرل چوہدری کا لاہور جمخانہ میں جام لنڈھانے کا دعویٰ دم توڑرہا تھا۔آگ اور خون کی اس لڑائی میں 8ستمبر کا دن آن پہنچاتھا۔پاک فوج لاہور کے دفاع میں اپنا سب کچھ جھونک چکی تھی اور دشمن کو نظرآنے لگا تھا کہ وہ اب بی آر بی سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔8ستمبر کی صبح بھارتی افواج نے اپنی حکمت عملی کے تحت چونڈہ کے محاذ سے ٹینک ڈویژن کے ساتھ حملہ کیا۔بعد میں طشت از بام ہونے والی تفصیلات کے مطابق منصوبہ یہ تھا کہ چونڈہ سے حملہ کرنے والا ٹینک ڈویژن پاکستانی دفاع کو کچلتے ہوئے‘ گوجرانوالہ کے قریب پہنچ کر جی ٹی روڈ کو کاٹ دے گا۔اُس وقت تک ‘اگر لاہور پر حملہ کرنے والی بھارتی فوج لاہور کا دفاع توڑنے میں ناکام رہی تو یہ ٹینک ڈویژن لاہور کے دفاع کو عقب سے دبوچ کر بے بس کردے گا۔بھارت کی طرف سے ٹینکوں کی جنگ کے لیے میدان بہت سوچ سمجھ کر چنا گیا تھا۔ یہ تمام علاقہ مکمل طور پر میدانی تھا اور سیالکوٹ سے لے گوجرانوالہ تک راستے میں کوئی قدرتی رکاؤٹ بھی موجود نہیں تھی۔حملے کی شدت بہت زیادہ تھی ‘جسے روکنے کے لیے پاکستانی دستوں کو بھاری قربانی دینا پڑی خصوصاً فرنٹیئرفورس کو شدید نقصان ہوا۔ ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ جب یہاں سے پسپائی اختیار کرکے گوجرانوالہ کی نندی پورنہر کے کنارے دوسری ڈیفنس لائن پر پہنچ کر جنگ لڑنے کے بارے میں سوچا جانے لگا۔نوجوان افسران کی طرف سے اس سوچ کی شدید مخالفت کی گئی۔ان کا موقف تھا کہ اگر لوہے کے اس طوفان کے سامنے ایک مرتبہ قدم اُکھڑ گئے‘ تو یہ طوفان ہمیں پھر کہیں بھی ٹکنے نہیں دے گا۔بالآخر کسی بھی قیمت پر یہیں ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا گیا اور ا س محاذ پر بھی دشمن کو بری طرح اُلجھا دیا گیا ۔ بے پناہ قربانیاں دے کر حملے کا ڈنک نکال دیا گیا تھا۔دریں اثناء سندھ کے صحرائی علاقوں اور قصور میں بھی دشمن کو نہ صرف روکا جاچکا تھا‘ بلکہ جنگ کو اُس کے علاقے میں پہنچا دیا گیا تھا۔دشمن سمجھ چکا تھا کہ کھیل ختم ہوچکا ہے ‘جس کے بعد بالآخر یہ سترہ روز جنگ اپنے اختتام کو پہنچ گئی‘ لیکن ختم ہونے سے پہلے یہ جنگ قوم کو ایک نیا ولولہ بخش گئی تھی۔
جنگ ِ ستمبرمیںبری فوج کے ساتھ ساتھ فضائی اور بحری افواج نے بھی جنگ میں اپنا بھرپورکردار ادا کیا ۔حجم میں کم ہونے کے باوجود پاکستان ائیرفورس 7ستمبر کو ہی بھارتی فضائیہ کو آسمانوں سے بے دخل کرچکی تھی۔آٹھ ستمبر کوآسمانوں پر پاکستانی شاہینوں کا مکمل راج قائم ہوچکا تھا۔ائیرفورس کی بھرپور سپورٹ نے ہرمحاذ پر بری فوج کو تقویت بخشی ۔چھ ستمبر کو جب لاہو رکے محاذ پر پاکستانی دستوں پر بے پناہ دباؤ تھا‘ تو فضائیہ کی چھ طیاروں پر مشتمل پہلی فارمیشن کو کارروائی کا حکم ملا‘ جس کے ایکشن نے بھارتی حملے کا زور توڑنے میں اہم ترین کردار ادا کیا۔آٹھ ستمبر سے پہلے پاک فضائیہ بھارت کے 53طیارے تباہ کرنے کے بعد اپنی حکمرانی قائم کرچکی تھی ‘جس کے بعد اُس کا بڑا مقصد بری فوج کو سپورٹ دینا اور بھارت کے اندر جا کر کارروائیاں کرنا تھا۔ یہ فرض فضائیہ نے بخوبی نبھایا تو بحری فوج بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی۔دوارکا میں اس کی کارروائی نے بھارتی افواج کو مکمل طور پر بے بس کرکے رکھ دیا تھا ۔گویا بری‘ فضائی اور بحری افواج نے قوم کی بھرپورحمایت سے ایک ایسی جنگ جیت لی تھی ‘جو اُس پر مسلط کی گئی تھی‘جس کے مسلط کرنے کا مقصد بلاشبہ پاکستان پر قبضہ کرنا تھا‘ لیکن اللہ کی تائید ونصرت اور بے پناہ قربانیوں کے باعث دشمن کا یہ منصوبہ ناکام رہا۔
آج ستمبر 1965ء میں لڑی جانے والی پاک بھارت جنگ کو 53سال مکمل ہوچکے ہیں ۔ ایسی جنگ جس میںزیادہ مادی وسائل سے محروم ایک فوج نے اپنی قوم کی لازوال حمایت کے باعث اپنے سے بڑے دشمن کی جارحیت کا ناکام بنایا۔ایک ایسی جنگ ‘جس نے ثابت کیا کہ جذبے جوان ہوں‘ تو پھر سازوسامان کی کمی جیسی مشکلات سے بخوبی نمٹا جاسکتا ہے۔ ایک ایسی جنگ ‘جس میں پاک فوج کے ایک ایک افسر اور جوان نے اپنا سب کچھ مادر وطن کی حفاظت کے لیے وقف کر دیاتھا۔ایک ایسی جنگ‘ جس نے پوری قوم کی سوچ ہی بدل کررکھ دی۔گواس جنگ کو طویل عرصہ گزر چکا ہے‘ لیکن اکثر اس پر آج بھی یہ سوال اُٹھایا جاتا ہے کہ اس کا آغاز کس کی طرف سے کیا گیا تھا؟عموماً اس کی وجہ پاکستان کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں شروع کیے جانے والے آپریشن جبرالٹر کو قرار دیا جاتا ہے‘ لیکن معاملات کچھ اور بھی ہیں۔بھارت کی طرف سے تقسیم ہند کے ساتھ ہی مسلسل ایسے اقدامات سامنے آرہے تھے‘ جو بین الاقوامی سطح پر کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو متاثر کررہے تھے۔کشمیر میں استصواب رائے کی بجائے اسے اپنا حصہ بنانے کے لیے بھارت کی طرف سے کیے جانے والے آئینی اقدامات ‘ پاکستان کے لیے انتہائی تشویش کا باعث تھے۔بالآخر نندا کمیشن کی رپورٹ پر عمل کرتے ہوئے بھارت نے‘ مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے دیا‘ جو کسی صورت بھی پاکستا ن کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔نومبر 1947ء میں بھارتی وزیراعظم پنڈت نہرو نے آل انڈیا ریڈیو پر تقریر کرتے ہوئے یہ واضح اعلان کیا تھا کہ ہم نے کشمیر میں استصواب رائے کا عہد دیا ہے‘ جسے ہم توڑیں گے‘ نہ توڑ سکتے ہیں‘ لیکن بھارت کی طرف سے کشمیر کے مسئلے پر تمام وعدے توڑ دئیے گئے تھے۔اس صورت حال نے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی پیدا کردی تھی ۔صورت حال ایسی نہج پر پہنچ چکی تھی کہ پاکستان کے لیے خاموش رہنا ممکن ہی نہیں تھا۔اس دوران اپریل 1965ء میں رن آف کچھ کے علاقے میں پہلے دونوں ممالک کی سرحدی اور اُس کے بعد باقاعدہ افواج کے درمیان تصادم ہوگیا‘ جس نے صورت حال انتہائی سنگین بنا دی۔ان تمام حالات کے پیش نظر ہی پاکستان نے آپریشن جبرالٹر کا فیصلہ کیا تھا‘ تاکہ کشمیریوں کو اُن کا حق دلایا جاسکے۔ جنگ ستمبر کے آغاز کی وجہ آپریشن جبرالٹر کو تو قرار دیا جاتا ہے‘ لیکن بھارت کی طرف سے پیدا کیے جانے والے عوامل کو یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے۔اس حقیقت سے کون انکار کرسکتا ہے کہ اگر بھارت نے کشمیر کے حوالے سے اپنے وعدے پورے کیے ہوتے ‘ تو کیا پھر بھی جنگ ہوتی؟اگر کشمیریوں کو وعدے کے مطابق استصواب رائے کا حق دیا جاتا‘ تو کیا پاکستان آپریشن جبرالٹر لانچ کرتا؟یقینا اس کا جواب نفی میں ہے۔بھارت یہ سمجھنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل ہی خطے میں امن کی ضمانت ہے۔
جنگ کیسے شروع ہوئی‘ کس نے شروع کی؟ حقائق سب کے سامنے ہونے کے باوجوداس بحث کو تو ختم کرنا شاید ممکن نہ ہو‘ لیکن اس کا جو نتیجہ نکلا‘ اُس نے اس بات کو پوری طرح سے ثابت کیا کہ دفاع وطن کے لیے پوری قوم ہمیشہ سے سیسہ پلائی ہوئی دیوار تھی اور ہے۔یونس حسن شہید‘سرفراز رفیقی‘میجرعزیز بھٹی اور ایسے کتنے ہی نام ہیں‘ جنہوں نے مادر وطن کی حفاظت کرتے ہوئے جام شہادت نوش کیا۔یقینا ہم آج بھی ان شہدا اور غازیوں کے احسان مند ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ زندگی سے قیمتی کچھ نہیں ہوتا‘ لیکن قوم کے شہید ہونے والے سپوتوں نے اسے مادر وطن پر نچھاور کردیا۔ہے کوئی ‘جو ان کے احسان کا بدلہ چکا سکے؟ہے کوئی‘ جو انہیں جنم دینے والی ماؤں کی قربانی کا صلہ دے سکے ؟ ہے کوئی‘ جو ان کی بیواؤں کا احسان مند نہ ہو؟نہیں! کوئی ایک بھی ایسا نہیں‘ پوری قوم ان کے سامنے عقیدت سے سر جھکاتی ہے۔آج بھی جب آپ ان شہدا کی قبروں پر جائیں ‘تو کوئی بہن یا کوئی بچہ وہاں فاتحہ پڑھتے ہوئے ‘ آنسو پونچھتا دکھائی دے گا‘ لیکن آنکھوں میں فخر کا ایسا احساس لیے ہوگا‘ جو صرف شہدا کے ورثا کی آنکھوں میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ہم سب جھک کر جنگ ِستمبر کے شہدا اور غازیوں کو سلام کرتے ہیں اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔

 

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں