"FBC" (space) message & send to 7575

جپھی ہضم نہ ہوئی‘ ملاقات کیسے ہوتی؟

1945ء سے پہلے شمالی اور جنوبی کوریا ایک ہوا کرتے تھے۔ مختلف وجوہ کی بنا پر تقسیم عمل میں آئی‘ تو یہ شمالی اورجنوبی کوریاؤں میں منقسم ہوگیا۔دونوںممالک بالترتیب 46ہزار 5سو اور 38ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل ہیں۔راہیں جدا ہونے کے بعد سے باہمی دشمنی بھی بڑھتی گئی اور بالآخر 25جون 1950ء کو شمالی کوریا نے سوویت یونین کی مدد سے جنوبی کوریا پر حملہ کردیا۔امریکہ ‘ جنوبی کوریا کے دفاع میں سامنے آگیا۔تین سال تک جاری رہنے والی اس جنگ کی ہولناکیاں آج بھی بہت سی یادداشتوں میں محفوظ ہیں۔جنگ کے دوران 30لاکھ افراد مارے گئے۔1953 ء میں جنگ بندی عمل میں آئی اور اس کے ساتھ ہی دونوں کوریائی ریاستیں مستقل طور پر تقسیم ہو کر رہ گئیں۔ 
سرحد کو بارودی سرنگوں اور خاردار تاروں سے محفوظ بنانے کا اہتمام کیا گیا اور دونوں ممالک کی سرحد دنیا کی خطرناک ترین سرحد بن گئی۔کورین جنگ کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان انتہائی کشیدگی رہی۔کئی مواقع پر شمالی کوریا کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے سے روکنے کے لیے امریکہ اور جنوبی کوریا کی طرف سے حملے کے خطرے کا بھی سامنا رہا۔ بالآخر دونوںممالک نے یہ جان لیا کہ امن کا راستہ ہی بھلائی کا راستہ ہے۔شمالی کوریا کے صدر کی امریکی صدر ٹرمپ سے ہونے والی تاریخی ملاقات کے بعد امن کا جو سفر شروع ہوا ہے‘ تو اس میں بتدریج تیزی آرہی ہے۔ دونوں کوریاؤں کے صدور کے درمیان بھی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گویا کشیدگی چاہے ‘افراد کے درمیان ہو یا پھر ممالک کے درمیان‘ اس سے حاصل کچھ نہیں ہوتا اور بالآخر امن کا راستہ اپنانا ہی پڑتا ہے ‘ بالخصوص ایسے ممالک کے درمیان‘جو ایک دوسرے کے ہمسائے بھی ہوں۔جب اس بات کا یقین ہو کہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جاسکتے ‘تو پھر بلاوجہ کی کشیدگی ان کے درمیان ترقی کا راستہ روکنے کی وجہ بنتی ہے۔
پاکستان اور بھارت کی کہانی بھی دونوں کوریاؤں کی کہانی سے زیادہ مختلف نہیں۔1947ء میں وجود میں آنے والے دونوں ممالک کے درمیان تقریبا ًہمیشہ سے ہی کشیدگی کی فضا برقرار رہی ہے۔ دونوںممالک چار بڑی جنگیں لڑ چکے ہیں‘ تو دیگر کم از کم دومواقع پر دونوں کی جنگ کے دہانے پر پہنچنے کے بعد واپسی ہوئی۔ دونوں کی طرف سے ایک دوسرے پر پراکسی وار کے الزامات بھی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اب یہ الگ بات کہ بھارت کی طرف سے صرف الزامات ہی سامنے آتے رہے ہیں‘ لیکن پاکستان میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کی گرفتاری نے عالمی سطح پر پاکستان کے الزامات کوبڑی حدتک صحیح ثابت کیا ہے۔آج دونوں ممالک کو آزادی حاصل کیے ہوئے 71سال ہوچکے ہیں ‘ دونوں اس بات کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ ہمسائے تبدیل نہیں کیے جاسکتے ‘لیکن اس کے باوجود ‘ دونوں کے درمیان تعلقات ہیں کہ بہتری کی طرف جانے کا نام ہی نہیں لے رہے؛اگر دیکھا جائے ‘تو تعلقات کی بہتری کے لیے پاکستان کی طرف سے متعدد مواقع پر پیش قدمی کی گئی‘ لیکن بھارت کی طرف سے ہمیشہ منفی اشارے ہی سامنے آئے۔پاکستان میں آنے والی نئی حکومت کی طرف سے بھارت کو کرتار پور بارڈر کھولنے کی پیشکش کی گئی ‘لیکن مثبت جواب نہیں ملا؛اگر بھارت کی طرف سے اس پیشکش پر مثبت جواب ملتا‘ تو اِس کا سب سے زیادہ فائدہ سکھوں کو ہوتا جو کرتارپور میں اپنے مقدس مقام کی یاترا کے لیے بلاروک ٹوک آجاسکتے تھے۔
بھارت کی طرف سے مثبت جواب نہ ملنے کے باوجود پاکستان کی طرف سے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کی تجویز دی گئی۔ مجوزہ ملاقات نیویارک میں ہونے والے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ہونی تھی۔ بھارت کی طرف سے پہلے اس ملاقات کے لیے رضامندی ظاہر کی گئی‘ لیکن بعد میں راہ فرار اختیار کرلی گئی۔بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے بتایا گیا کہ ملاقات مقبوضہ کشمیر کی حالیہ صورتحال کے باعث منسوخ کی گئی۔بھارتی وزارت خارجہ کے بیان میں یہاں تک کہا گیا کہ ملاقات کے اعلان کے بعد رونما ہونے والے بعض واقعات سے پاکستان کے نئے وزیر اعظم عمران خان کا اصلی چہرہ سامنے آگیا ہے‘ جس کے بعد نیو یارک میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کا کوئی مطلب باقی نہیں رہ جاتا۔اصل میں بھارت نے مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرنے کے لیے مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے دوواقعات کو بنیادبنایا ہے۔ کشمیر کے علاقے شوپیاں میں جمعے کو تین پولیس اہلکاروں کی لاشیں ملی تھیں ‘جنہیں اغوا کے بعد قتل کیا گیا۔ اس کے علاوہ منگل کو جموں سیکٹر میں سرحد کے قریب بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کا ایک حوالدار مارا گیا۔ انہیں دوواقعات کے تناظر میں بھارتی وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ پاکستان کے نئے وزیراعظم کا اصلی چہرہ سامنے آگیا ہے ‘لیکن بات صرف اتنی نہیں۔
دراصل ملاقات کے اعلان کے بعد سے ہی بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ حزب اختلاف کے رہنما اور بھارتی میڈیایہ سوال اٹھا رہا تھا کہ باہمی رشتوں میں آخر کیا بدلا ہے‘ جو پاکستان کو سبق سکھانے کا دعوی کرنے والی بی جے پی کی حکومت ملاقات کے لیے تیار ہوگئی ہے۔اندرونی طور پر سامنے آنے والے شدید ردعمل کے باعث بی جے پی کی حکومت اس وجہ سے بھی پریشان ہوئی کہ کہیں اس کے نتیجے میں اسے آنے والے انتخابات میں نقصان نہ اٹھانا پڑ جائے‘ورنہ نہ تو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی اہلکار پہلی مرتبہ مارے گئے ہیں اور نہ ہی سرحد پر پہلی مرتبہ بی ایس ایف کے اہلکار کی ہلاکت ہوئی ہے۔بھارت میں ہونے والے گزشتہ عام انتخابات کے دوران موجودہ بھارتی حکومت نے‘ پاکستان دشمنی کو اپنی انتخابی مہم کا اہم حصہ بنائے رکھا تھا‘جس کے نتیجے میں اسے فائدہ بھی پہنچا۔ برسراقتدار آنے کے بعد بھی موجودہ بھارتی حکومت نے اپنی روش برقرار رکھی‘ جس کے باعث اب اس کے لیے پاکستان سے مذاکرات کرنا آسان نہیں رہا۔ ایسا نہیں ہے کہ بھارتی حکومت پاکستان کی طرف سے باربار مذاکرات کی پیش کش مسترد کرنے کے نتائج سے آگاہ نہیں ہے۔ بھارتی پالیسی ساز بخوبی جانتے ہیں کہ بار بار ایسا کرنے سے اس پر عالمی دباؤمیں اضافہ ہوگا۔اسے پاکستان کی پیشکش باربار مسترد کرنے کی توجیہات پیش کرنا ہوں گی۔ صرف یہ کہنے سے بات نہیں بنے گی کہ پہلے پاکستان مذاکرات کے لیے سازگار ماحول پیدا کرے۔بھارتی حکومت کے لیے بڑی مشکل یہ ہے کہ وہ خود ہی پاکستان دشمنی میں اتنا آگے نکل گئی ہے کہ اب اسے اپنے ووٹرز کو مذاکرات کے حوالے سے مطمئن کرنے میں مشکل پیش آرہی ہے۔
دوسری طرف عمران گورنمنٹ برسراقتدار آنے کے فورا بعد سے بھارت پر مذاکرات کے لیے زور دے رہی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان بہتر تعلقات کی خواہش کے تناظر میں ہی بھارت کے تین سابق کرکٹرز کو وزیراعظم عمران کی خان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔کیپل دیو اور سنیل گواسکر نے تو پاکستان آنے سے پہلو تہی کرلی‘ لیکن نوجوت سنگھ سدھو نے تقریب میں شرکت کی۔ اس دوران آرمی چیف سے ان کے بغلگیر ہونے کو بھارت میں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور بے چارے کو اپنا دفاع کرنا مشکل ہوگیا؛اگر بھارتی حکومت نے صرف اپنے سیاسی مفادات کے لیے اپنے ہاں شدید پاکستان دشمنی کی فضا پیدا نہ کی ہوتی‘ تو شاید نوجوت سنگھ سدھو کی آمد ایک بریک تھروثابت ہوسکتی تھی۔افسوس ہمارے سپہ سالار کے بڑے پن کے باوجود بھارت ‘ امن کے لیے پاکستانی خواہش کی قدر نہ کرسکا۔پاکستانی سپہ سالار اور حکومت نے کھلے دل سے بھارتی حکومت کو کرتار پور سرحد کھولنے کی پیشکش کی ‘لیکن دوسری طرف سے ہٹ دھرمی برقرار رہی۔اب اگر مقبوضہ کشمیر میں پیش آنے والے واقعات کو بنیاد بنا کروزرائے خارجہ کی ملاقات سے انکار کیا گیا ہے‘ تو اسے کوئی ٹھوس وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میںظلم و ستم کا جو بازار گرم کررکھا ہے‘ اہلکاروں کی ہلاکتیں‘ انہیں کے ردعمل کے طور پر ہورہی ہیں۔بھارت اگر یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ کشمیر ی کسی صورت اُس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے ‘تو اس میں خود اُس کی اپنی غلطی ہے۔اُس کے اسی رویے کی وجہ سے صورت حال آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ برملا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جہاں ایک جپھی برداشت نہ ہوسکی‘ وہاں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کی کیا توقع رکھی جاسکتی تھی؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں