"FBC" (space) message & send to 7575

کجھ اُنج وی راہواں اوکھیاں سن

ایک آدمی اپنے گھرسے باہر نکلے ‘تو دس پندرہ مسلح باڈی گارڈز اُس کا پہرہ دے رہے ہوں‘ تووہ بڑا آدمی کہلاتا ہے۔ وڈیرے کے گھر میں بیٹا پیدا ہوتو پورا علاقہ فائرنگ سے گونجنے‘ تو وہ وڈیرہ سمجھا جائے گا۔امیر گھرانے میں کوئی شادی ہو تو دولت کا دکھاؤا سرچڑھ کر بولے‘ تو بلے بلے ہوتی ہے۔ بولنے والا آستینیں چڑھائے منہ سے جھاگ اُڑائے تو ہی بات بنتی ہے۔ لکھاری لکھتے ہوئے اتنے مشکل الفاظ کا چناؤ کرے کہ پڑھنے والے کو مطلب سمجھنے کیلئے ڈکشنری کا سہارا لینا پڑے‘ تو تبھی لکھنے والا دانشور کہلاتا ہے۔ لکھتے لکھاتے بڑے بڑے لوگوں سے اپنے رابطوں کا ذکر بھی تحریر میں شامل کردیا جائے تو سونے پر سہاگہ والی بات ہوجاتی ہے‘ مثلاً: یہ کہ میں شہر کے فائیوسٹار ہوٹل میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک فون بجنے لگا ۔ دیکھا تو انتہائی ذمہ دار عہدے پر فائز ایک دوست کا فون تھا۔ یہ سوچتے ہوئے فون ہی نہ اُٹھایا کہ یہ لوگ تو کہیں بھی کسی بھی وقت چین نہیں لینے دیتے۔معاملہ ایسے بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ بڑے لوگوں کی طر ف سے کافی دنوں سے اسلام آباد آکر ملنے کا دعوت نامہ آیا ہواتھا ۔ میں نے تو اُسے کافی نظرانداز کیا ‘لیکن بار بار کے اصرار پر آخر کارجانا ہی پڑا۔ ملاقاتیں ہوئیں ‘ تو چشم کشا حقائق سامنے آئے‘ جو اپنے پڑھنے والوں کے سامنے رکھنا بہت ضروری ہے‘ وغیرہ وغیر ہ وغیرہ۔ عوامی سطح پر یہ سب چل رہا ہے‘ تو حکومتوں کی سطح پر‘ اگر نئی حکومت آئے اور سابقہ حکومتوں کے لتے لیتے ہوئے عوام کا مزید خون نچوڑے تو جنگل میں مور ناچ کس نے دیکھا والی بات ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں کے یہی رسم و رواج ہیں۔
تبدیلی کے نعروں کے ساتھ برسراقتدار آنے والی نئی حکومت بھی پوری طرح سے ان روایات پر عمل کررہی ہے۔موجودہ حکومت کے برسراقتدارآنے کے فورا بعد سے حالات نے جو رخ اختیار کیا ہے‘ اُس نے سوائے حکومتی عہدیداروں کے‘ سبھی کیلئے پریشان کن صورت حال پیدا کردی ہے ۔ اس صورت حال کو نئے بجٹ کی آمد نے مزید گمبھیر بنا دیا ہے۔ انہی حالا ت کیلئے عوام کو ذہنی طور پر تیار کرنے کیلئے کافی طویل عرصے سے وہی روایتی گردان کی جارہی تھی کہ عوام کو قربانی کیلئے تیار رہنا چاہیے۔ معیشت کی بہتری کیلئے سخت فیصلے کرنا ہوں گے‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب‘ جو سخت فیصلے سامنے آئے ہیں تو سبھی کے پاؤں تلے سے زمین کھسک سی گئی ہے۔ کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں چھوڑا گیا‘ جسے قابل ِمعافی سمجھا گیا ہو۔ تنخواہ دار طبقے کی مشکلات میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے‘ تو کاروباری طبقے کو بھی کوئی ریلیف نہیں ملا۔مہنگائی کے عفریت نے عام آدمی کو پہلے سے ہی پوری مضبوطی کے ساتھ اپنے پنجوں میں جکڑ رکھا ہے ‘جس پر اب بجٹ مزید ستم ڈھائے گا۔
اتنے سخت بجٹ کے باعث ہی یہ تاثر تقویت پکڑتا جارہا ہے کہ ملک کے اندر دوبڑی جماعتوں کے رہنماؤں آصف علی زرداری اور حمزہ شہباز کی گرفتاریوں کا تعلق بھی بجٹ سے ہے ۔ دونوں پر گرفت کرنے والوں نے ٹائمنگ کا انتخاب کس قدر عقلمندی سے کیا ہے۔ پہلے سے ہی مہنگائی کی ماری عوام پر ٹیکسوں کا جو نیا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔اُس سے توجہ ہٹانے کیلئے ان دونوں کی گرفتاری سے اہم اور کیا ہوسکتا تھا۔ احتساب کا بھرم بھی باقی رہ گیا اور سب کی توجہ بھی تقسیم کردی گئی۔ اب جب تک دونوں سیاسی رہنماؤں کی گرفتاری کی دھول بیٹھے گی‘ تب تک عوام بھی صبر شکر کرکے بجٹ کو قبول کرچکے ہوں گے۔معیشت کی بحالی کے نام پر عوام کا جو رہا سہا خون نچوڑا گیا ہے‘ اُسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرلیا جائے گا۔جنہوں نے احتجاج کرنا تھا‘ وہ اپنی نبیڑنے میں ہی لگے رہیں گے۔ اس سے پہلے شہباز شریف کی وطن واپسی کے معاملے کو خوب مرچ مصالحہ لگا کر پیش کیا جارہا تھا کہ وہ وطن واپس نہیں آئیں گے۔ وہ بھاگ گئے ہیں ‘لیکن اس غبارے سے ہوا نکلی تو دونوں بڑی جماعتوں کے رہنماؤں کی گرفتاری کا ڈول ڈال دیا گیا۔ایک بڑا فائدہ اور بھی ہوگا کہ حکومت کے خلاف سیدھی ہونے والی اپوزیشن کی صفوں میں بھی دراڑ یںڈال دی گئی ہیں۔ اللہ کرے کہ اب کچھ ریکوری بھی ہوجائے ۔ اس سے اچھی بات کیا ہوسکتی ہے کہ اگر گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ لوٹی ہی دولت کے بھی کچھ درشن ہوجائیں ‘ورنہ ڈاکٹرعاصم ‘ شرجیل میمن اورنواز شریف کے معاملے میں تو مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑا۔غالب گمان یہی ہے کہ پہلے کوئی ریکوری ہوئی‘ نہ اب ہونے کی توقع ہے ‘لیکن حکومت کو جس طرح کی صورت حال کا سامنا ہے‘ اُس کے پیش نظر ضروری تھا کہ مخالفین کو زیرزبر کیا جاتا‘ سو کیا گیا۔ اب‘ اس کا جو بھی نتیجہ نکلے‘ فی الحال تو حکومت عوام کو بجٹ کا کڑواگھونٹ پلانے میںبھی کامیاب ہوجائے گی ‘تو اس کے ساتھ اُس نے اپوزیشن کو بھی ٹف ٹائم دینا شروع کردیا ہے۔ آنے والے دنوں میں صورت حال کی طلاطم خیزی میں مزید اضافے کے خدشات کے ساتھ کچھ صلح صفائی کے امکانات بھی موجود ہیں کہ بہرحال سیاست نام ہی گیو اینڈ ٹیک کا ہے۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ درست ‘ لیکن کیا یہ سب کچھ کرنے سے ملکی حالات میں کچھ بہتری آسکتی ہے؟بس یہی وہ احساس ہے‘ جو اُداسی کی شدید کیفیت پیدا کرتا ہے۔ملکی حالات ہرگزرنے والے دن کے ساتھ خراب ہوتے چلے جارہے ہیں۔ حکومت کی طرف سے اُٹھائے جانے والے کسی بھی قدم کے فروٹ فل نتائج سامنے نہیں آرہے ۔ گو‘ حالات میں بہتری کیلئے مسلسل کوششوں کے حکومتی دعوے بھی تسلسل سے سامنے آرہے ہیں‘ لیکن زمینی حقائق میںکوئی مثبت تبدیلی دیکھنے کو ملے تو بات بنے۔ حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جی ڈی پی کی شرح نمو 5.8فیصد سے گر کر کچھ تین فیصد تک گرچکی ہے‘ جس کے مزید گرنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت کہاں جا پہنچی ہے۔معاشی حجم 313بلین ڈالر سے کم ہوکر 281بلین ڈالر ہوگیا ہے۔ ان حالا ت میں بھی بعض محاذ بلاوجہ ہی کھولے جارہے ہیں‘ جن سے صورت حال میں مزید ابتری پیدا ہورہی ہے۔ بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اس حوالے سے صورت حال پرویز مشرف دور کے اُس وقت کی طرف جارہی ہے‘ جب وکلا نے افتخار چوہدری کی برطرفی کے خلاف تحریک چلائی تھی۔ اس تحریک نے ملک کے باوردی صدر کو اقتدار سے الگ ہونے پر مجبور کردیا تھا ۔یہ حکومت تو ویسے ہی مانگے تانگے کی سپورٹ پر ٹکی ہے ؛ اگر وکلا کی تحریک شروع ہوتی ہے ‘تو حکومت کے اپنا وجود برقرار رکھنا کافی مشکل ہوجائے گا۔ سو‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ چلیں کچھ مسائل تو سابق حکمرانوں پر ڈال کر جان چھڑائی جارہی ہے ‘لیکن حکومت جو مسائل خود ہی اپنے لیے پیدا کررہی ہے‘ اُس کیلئے کس کو قصور وار ٹہرایا جائے گا؟بظاہر تو حکومت کو ان تمام تر معاملات میں الجھنے کی ضرورت نہیں تھی‘ لیکن شاید اُس کی کوئی مجبوری رہی ہوگی ‘جو اُس نے یہ غلطیاں جان بوجھ کر کی ہیں‘ جن کے نتائج اچھے نکلنے کی توقع تو بہرطور نہیں رکھی جاسکتی۔ان حالا ت میں مختصراً منیرؔ نیازی کی زبان میں اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ: ؎ 
کج اُنج وی راہواں اوکھیاں سن
کج گل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوگ وی ظالم سن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں