"FBC" (space) message & send to 7575

میں چپ رہوں تو...!

لازم ہے کہ اُمید کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے‘لیک‘ زندگی کا اہم ترین فلسفہ ‘حقیقت کا ادراک کرنابھی توہے۔ اپنی حماقتوں کا تجزیہ کرنا ‘ہردم بہتری کے لیے مصروف عمل رہنا اور اپنی غلطیوں کی اصلاح کرنا۔ اب‘ اگر ایک کے بعد ایک ‘ وہی غلطیاں بار بار کی جاتی رہیں تو پھر برے حالات کے لیے کسی دوسرے کو کیوں کر مورد الزام ٹہرایاجاسکتاہے۔؎
میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا 
میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے
روز روشن کی طرح عیاں ہو چکا کہ جب تک سیاسی استحکام پیدا نہیں ہوتا‘ ملک میں افراتفری کا سلسلہ یونہی چلتا ہی رہے گا۔اس وقت ملک میں جو ہنگام برپا ہے یہ کوئی اپنی نوعیت کی پہلی مثال تو ہرگز نہیں۔ پیدائش کے بعد یہی سب کچھ دیکھتے آئے ہیں تو پیدا ہونے سے پہلے کے بارے میں بھی ایسا ہی کچھ پڑھتے اور سنتے آئے۔ پڑھتے اور سنتے آئے ہیں کہ شاید ہی کبھی ملک میں سیاسی استحکام آیا ہو۔قیام پاکستان کے بعد چند برسوں کے دوران ہی سات وزرائے اعظم کی تبدیلی کسی سانحے سے کم تو قرار نہیں دی جاسکتی ہے۔ یہی تو وہ صورت حال رہی ‘جس نے دشمنوں کو بھی ہم پر پھبتیاں کسنے کا موقع فراہم کیا‘ پھر طاقت نے اپنا زور دکھایااورملک میں ایوب خان کا مارشل لا آگیا۔ مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو جن سے سب سے زیادہ خطرہ تھا‘اُن میں سے سکندرمرزا کو بندوق کی نوک پر لندن اورحسین شہید سہروردی کو بیروت جانے پر مجبور کردیا گیا۔ بعد میں دونوں کو کبھی اپنے وطن آنے کا موقع نہ مل سکا۔ اُس کے بعد اپنے اقتدار کو جواز بخشنے کے لیے جو کچھ کیا جاتا رہا‘ وہ بھی ایک الگ کہانی ہے۔سیاستدانوں کو پابند سلاسل کیا گیا اور زبانوں پر تالے لگا دئیے گئے۔اپنی پسند کا نظام متعارف کرایا گیا۔ اپنی پسند کے لوگوں کو آگے لایا جاتا رہا ۔یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے ملک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ بعد میں آنے والے مارشل لا کے ادوار میں بھی یہی سب کچھ ہوتا رہا۔یحییٰ خان کو یہ کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اُنہوں نے تاریخ کے سب سے غیرجانبدارانہ انتخابات کروائے۔بالکل کروائے‘ لیکن انتخابات کے نتیجے میں حقدار کواُس کا حق نہ ملا تو نتیجہ ملک کے دولخت ہوجانے کی صورت میں سامنے آیا۔ضیاالحق بھی یہی کچھ کرتے رہے۔ پیپلزپارٹی کی بنیادوں کو اُکھاڑنے کے لیے ہرممکن حربہ آزمایا گیا۔ جنرل مشرف کے دور میں بھی ہر وہ حربہ بھی آزمایا گیا‘ جس سے اقتدار کو دوام بخشا جاسکتا تھا۔
سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک میں موجود تمام خرابیوں کی جڑ صرف مارشل لاز کو ہی قرار دیا جاسکتا ہے؟ جب کبھی بھی ملک میں کوئی جمہوری حکومت برسراقتدارآئی ہے تو کیا تب رواداری اور برداشت کو فروغ دینے کی شعوری کوششیں کی گئیں؟حالات کا جس بھی پہلو سے جائزہ لے لیں‘ ان سوالات کے جوابات بھی نفی میں ہی آئیں گے۔ زیادہ پیچھے جانے کی بجائے صرف ماضی قریب تک کی ہی چند جمہوری حکومتوں کا جائزہ لے لیا جائے تو صورت حال بڑی حد تک واضح ہوجاتی ہے۔مسلم لیگ (ن) برسراقتدارآئی تو پیپلزپارٹی کے برے دن آگئے اور اگر اقتدار کا ہما پیپلزپارٹی کے سر پر بیٹھا تو مسلم لیگ (ن) کے برے دن آگئے۔حکمران جو بھی آیا ‘ اُس نے اختیارات کلی کی ہی خواہش کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے حالات جو ایک مرتبہ بگڑنا شروع ہوئے توآج تک بگڑتے ہی چلے جارہے ہیں۔ہمارے آج کے آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ وزیراعظم عمران خان کے دور میں بھی حالات کابگاڑ بدستور جاری ہے۔احتساب کے جس نعرے کے ساتھ موجودہ حکومت نے اقتدار میں قدم رنجہ فرمایا تھا‘اُس عمل پیرا ہوتے ہوئے‘ تقریباً تقریباً تمام نمایاں اپوزیشن رہنماؤں کو جیل میں ڈالا جاچکا ہے۔ پچھلے چودہ ماہ سے یہی کام ہورہا ہے‘ لیکن حاصل وصول کچھ بھی نہیں ہورہا۔ اب یہ وہ دور تو رہا نہیں کہ اخبارات کے دفاتر میں ایک ایک افسر بٹھا دیا جائے۔ وہی فیصلہ کرے کہ کون سی خبر جانی ہے یا کون سی نہیں۔ 
سینئر صحافیوں کی زبانی سنتے رہے کہ کس طرح سے ایسے ادوار میں‘ اخبارات کے دفاتر میں بٹھائے جانے والے افسران فیصلہ کیا کرتے تھے ۔یہ بھی بڑے فخر سے بتایا جاتا تھا کہ وہ بعض اوقات کس طرح سے ان افسران کو جل دے کر اپنے مطلب کی خبر شائع کرلیا کرتے تھے۔
جان لینا چاہیے کہ آج وقت اُن ادوار سے کہیں آگے بڑھ چکا ہے۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بڑی حد تک متبادل کے طور پر سوشل میڈیا پوری طرح سے متحرک ہے۔ کوئی بھی کسی بھی لمحے صرف ایک بٹن دبا کر دنیا بھر کی معلومات حاصل کرسکتا ہے۔کسی ریڑھی والے کے پاس جا کر کھڑے ہوجائیں تو اُس کی معلومات پر بھی حیرانی سی ہونے لگتی ہے۔احتساب کے عمل پر رائے لے لیں یا موجودہ حکومت کی کارکردگی پر‘ ہرکسی پر سب کچھ عیاں ہے کہ کون کہاں سے اور کیسے آیا؟پھر کیسے یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاسکتی ہے؟دادوتحسین سمیٹنے کے لیے کچھ نہ کچھ کارکردگی تو دکھانا ہی پڑتی ہے۔اور‘اس وقت تو عالم یہ ہے کہ ہرطرف سے گرم ہوائیں ہی آرہی ہیں۔ اب تو پہلی مرتبہ تمام مقتدر حلقے ایک ہی پیج پر ہیں ‘لیکن پھر بھی اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف مقدمات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہورہے۔ یہ حکومت نے کیسا طرز عمل اختیارکرلیا ہے کہ اگر یہ لوگ کرپٹ ہیں تو بھی لوگوں کی نظروں میں معصوم بنتے جارہے ہیں۔ہر روز میاں نواز شریف کی صحت کے بارے میں سامنے آنے والی خبریں ‘ عوام میں اِن کے لیے ہمدردی بڑھا رہی ہیں۔ کئی اطراف سے ڈیل ‘ ڈیل کی صدائیں بھی بلند ہورہی ہیں ‘ لیکن ڈیل کے غبارے سے تو عدالتی فیصلوں نے ہوا نکال دی ہے۔ عدالتوں کی طرف سے نواز شریف کی بیماری کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اُن کی ضمانتیں منظور کی جاچکی ہیں۔اس کے بعد ہمارے ہاں کی روایات کے عین مطابق‘ اب نواز شریف کے لیے ہمدردی میں پہلے کی نسبت کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔آصف علی زرداری کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ مختلف رپورٹس کے مطابق‘ اُن کی حالت بھی بہتر نہیں ہے۔اب سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ احتساب کے نام پر یہ سب کچھ کرکے حکومت نے حاصل کیا کیا ہے؟ یہ حاصل کیا ہے کہ حکومت خود ہی اپوزیشن رہنماؤں کے لیے ہمدردی میں اضافے کا باعث بن گئی ہے۔اندازہ لگانا کیا مشکل کہ اگر خدانخواستہ دونوں رہنماؤں میں سے کسی ایک کو بھی کچھ ہوجاتا ہے ‘تو حکومت کہاں سٹینڈ کرے گی۔ یہ حاصل کیا ہے کہ ملک کی تمام نمایاں اپوزیشن جماعتوں کو اپنے ہی خلاف متحد ہونے کا موقع فراہم کردیا ہے یا پھر 14ماہ سے ایک ہی معاملے پر اپنی توجہ مرکوز کیے رکھنے سے ملک کی معیشت کومزید ڈانواںڈول کردیا ہے۔
14ماہ تک تو احتساب کے نعروں‘ مستقبل کی خوشحالی کے دعوؤں اور اچھے کی اُمید آس پر وقت گزرتا رہا‘ لیکن جب گھروں کے چولہے ٹھنڈ ے پڑنے لگیں تو پھر انسان کو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ کیا آج ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوچکی کہ بے روزگاری اپنی بلند ترین شرح کو چھوتی ہوئی نظرآرہی ہے۔ تاجر ہڑتال پر ہیں ۔ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس سٹاف کام شروع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔انڈسٹری کا پہیہ ٹھپ ہے اور مہنگائی تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سامنے آنے والی تازہ ترین رپورٹ دلوں کو مزید دہلائے دے رہی ہے ۔ رپورٹ بتا رہی ہے کہ معاشی شرح نمو گزشتہ 9سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔معاشی ترقی کی رفتار تین فیصد تک سست پڑ جانے کا امکان ہے۔رواں مالی سال کے دوران مہنگائی 12فیصد تک پہنچ جانے کے خدشات پوری طرح سے موجود ہیں۔برآمدات کا 26.2ارب ڈالر کا ہدف حاصل کرنا بھی ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔زراعت صنعت اور خدمت کے شعبوں کی نمو کا ہدف بھی پورا نہ ہوسکا۔وفاقی حکومت ٹیکس رعایتوں میں کمی اور ترقیاتی بجٹ کم کرنے کے باوجود ٹیکس محاصل کا ہدف پورا نہ کرسکی۔ اس صورت حال میں کیوں کر یہ قرار دیا جاسکتا کہ ہم ادراک حقیقت کے فارمولے پر عمل پیرا ہیں؟۔ بقول شاعر؎
میں بولتا ہوں تو الزام ہے بغاوت کا 
میں چپ رہوں تو بڑی بے بسی سی ہوتی ہے
14ماہ تک تو احتساب کے نعروں‘ مستقبل کی خوشحالی کے دعوؤں اور اچھے کی اُمید آس پر وقت گزرتا رہا‘ لیکن جب گھروں کے چولہے ٹھنڈ ے پڑنے لگیں تو پھر انسان کو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ کیا آج ایسی صورت حال پیدا نہیں ہوچکی کہ بے روزگاری اپنی بلند ترین شرح کو چھوتی ہوئی نظرآرہی ہے۔ تاجر ہڑتال پر ہیں ۔ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکس سٹاف کام شروع کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔انڈسٹری کا پہیہ ٹھپ ہے اور مہنگائی تمام ریکارڈ توڑ رہی ہے۔سٹیٹ بینک آف پاکستان کی سامنے آنے والی تازہ ترین رپورٹ دلوں کو مزید دہلائے دے رہی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں