"FBC" (space) message & send to 7575

دھڑکا یہی لگا ہوا ہے

صدیوں سے جن رسومات پر عمل کیا جارہا تھا‘ وہ بھی اگر ہمیشہ کیلئے نہیں تو کم از کم وقتی طور پر ہی سہی‘ دم توڑرہی ہیں۔ ان میں سماجی کے ساتھ مذہبی رسومات بھی شامل ہیں‘ جن میں تبدیلی کو وقت کی اہم ترین ضرورت قرار دیا جا چکا۔وقت کی رفتارگویا تھم سی گئی ہو ‘ ہرکوئی اس انتظار میں ہے کہ کب اس بلا سے جان چھوٹے اور وہ پھر سے خود کو کاروبار زندگی میں مصروف کرسکے۔ اس سے پہلے تو جیسے ہم سب سانس لیے بغیر بگٹٹ بھاگے چلے جارہے تھے۔ ہرکوئی دوسرے کو کچل کر آگے بڑھنے کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ جانا چاہتا تھا۔ہم میں سے ہی تھے بہت سے ایسے احباب جن کے پاس اپنے والدین کو دینے کیلئے وقت تھا‘ نہ اپنے بچوں کے ساتھ کچھ لمحات گزارنے کی فرصت۔ مبادا ایسا کرنے کی صورت میں کاروبار زیر و زبر ہوجائے۔ جان پر بن آئی ہے تو سب کچھ ہی تبدیل ہوکر رہ گیا ہے۔نہیں تبدیل ہوئی تو مخالفین پر تنقید کے نشتر چلانے کی روش تبدیل نہیں ہوپائی۔بس‘ ایک ہمارا دماغ ہی عالی ہے‘ باقی سب کو تو عقل ودانش سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ بس‘ ایک ہم ہی عقل کل ہیں باقی سب تو گھامڑ ہیں ۔ بھلا یہ بھی کوئی وقت ہے‘ اس بحث کا کہ شاہراہیں کیوں تعمیر کی گئیں‘ ہسپتال کیوں نہیں بنائے گئے؟ 
بھلا یہ بھی گھڑیا ں ہیں‘ اس بحث میں اُلجھنے کی کہ کس کی کیا ترجیحات رہیں؟ اگر تب یہ کیا ہوتا تو آج یہ نہ ہوتا۔کوئی جانے والوں سے پوچھے کہ وہ ‘ وہ کیوں کرتے رہے‘ جو انہوں نے کیا ۔ کوئی اب والوں سے پوچھے کہ وہ ‘ وہ کیوں نہیں کررہے ‘جو ہم چاہتے ہیں ۔ خدارا اپنے اپنے نسخہ ہائے کیمیا اپنے اپنے پاس رکھیں۔ فی الحال تو بس ضرورت اسی امر کی ہے کہ کورونا کی صورت میں حملہ آور ہونے والے دشمن کو سب ایک جان ہوکر مقابلہ کرتے دکھائی دیں۔اتفاق سے جو نئی سوچیں جنم لیتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں تو ان میں سے اچھی سوچوں کو آنے والوں دنوں میں بھی خودسے الگ نہ کرنے کی بابت سوچا جائے۔ وقت نے جو کروٹ بدلی ہے تو بہت کچھ ایسا بھی رونما ہورہا ہے‘ جس پر اگر بعد میں بھی اس پر عمل جاری رکھا جائے تو زندگی کسی قدر آسان ہوجائے۔وہی زندگی جسے بہت سی صورتوں میں ہم نے خود ہی اپنے لیے مشکل تر بنا دیا تھا۔آج ہم عطا کرنے والے سے اپنی اپنی زندگیوں کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ رونا نہ آنے کے باوجود رونے کی اداکاری کرتے ہوئے توبہ تائب کررہے ہیں۔ سب اپنی جگہ لیکن دھڑکا یہی لگا ہوا ہے کہ ہم بھلا کہاں سدھرنے والے ہیں۔ 
شاید یہ انسان کی جبلت میں ہی شامل ہے کہ بس اُسے مصیبت ٹلنے کا انتظار ہوتا ہے کہ یہ ختم ہو اور وہ پھر سے اپنی پرانی روش اپنا لے۔پہلے بھی تو ایسی وبائیں پھوٹتی رہیں ہیں ‘جن کے ختم ہونے پر سب کچھ پہلے جیسا ہوجاتا رہا ہے۔ معلوم تاریخ کی بات کرلی جائے تو سنتے ہیں کہ آج تک کی معلوم تاریخ میں سب سے بڑی وبا ہسپانوی فلو کی صورت میں دنیا پر وارد ہوئی تھی۔ یہی کوئی ایک صدی پہلے کی بات ہے جب دنیا دوکروڑ جانیں لینے والی پہلی عالمی جنگ کے دھچکوں سے سنبھل رہی تھی۔ تب اچانک ہی افواج کے پرہجوم کیمپوں سے یہ وبا پھوٹ پڑی۔اس وبا کا شکار ہونے والے ‘ دنیا کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے فوجی اپنے اپنے ممالک کو لوٹے تو یہ وبا بھی ساتھ ہی لیتے گئے۔ تب طیارہ سازی کی انڈسڑی تو اپنے ابتدائی دور میں ہی تھی اورزیادہ سفر بحری جہازوں کے ذریعے ہی طے ہوتا تھا‘ اسی لیے کئی خطوں میں تو یہ وبا دو‘ دوسال بعد پہنچی‘ لیکن یہ جہاں بھی گئی ‘ وہاں اس نے سب کچھ زیروزبر کردیا‘ پھر اِس وبا کا غصہ تقریباً 5سے 10کروڑ افراد کی جانیں لینے کے بعد ٹھنڈا ہوا۔ تب بھی اس وبا کو پھیلنے سے روکنے کیلئے کم و بیش وہی طریقے اختیار کئے گئے تھے ‘جو آج اختیار کیے جارہے ہیں۔ 
اس حوالے سے ایک مثال امریکا کے ایک علاقے الاسکا کے گاؤں برسٹل کی دی جاتی ہے۔ وہاں سکول بند کردئیے گئے۔ عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کردی گئی اور گاؤں کی مرکزی شاہراہ ہی بند کردی گئی۔ اس حربے کو مختلف دوسرے علاقوں میں بھی آزمایا گیا‘ جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ آج ایک صدی بعد کورونا کے وارد ہونے پر بھی کچھ ایسے ہی طریقے اختیار کیے جارہے ہیں۔اگر ایک صدی پہلے پھوٹنے والی تاریخ انسانی کی ہولناک ترین وبا پر قابو پالیا گیا تھا تو کچھ وقت گزرتا ہے‘ جب کورونا بھی اپنی موت آپ مر جائے گا۔ سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلی وباؤں کے بعد ہم نے سیدھے راستے پر چلنے کے جو عہدوپیمان کیے تھے‘ اُن کا کیا ہوا؟تب ہم نے یہ عہد نہیں کیا ہوگا کہ آئندہ ہم سیدھے راستے پر چلیں گے ۔ کبھی کسی کا حق نہیں ماریں گے ‘ مزدور کی مزدوری اُس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کریں گے۔ اندازہ لگائیے کہ آج چند ہزار افراد کی ہلاکت پر دنیا زیروزبر ہوئی جاتی ہے تو اُس وقت کیا عالم ہوگا جب لوگ کروڑوں کی تعداد میں اپنی جانوں سے محروم ہورہے تھے۔
یقینا حالات آج کی نسبت کہیں زیادہ خوفناک ہوں گے۔ یقینا دعائیں بھی زیادہ دل کے ساتھ مانگی جاتی ہوں گی‘ لیکن پھر کیا ہوا؟مصیبت ختم ہوئی تو سب کچھ پہلے جیسا‘ بلکہ پہلے سے بھی خراب ہوگیا۔ ترقی کی دوڑ میں ہم نے اپنے مسکن کو ہی تباہ کرنا شروع کردیا۔ بتانے والے بتاتے رہے کہ بھئی فضائی سفر میں کمی لاؤ‘‘صنعتوں کی تعداد محدود رکھو‘ ورنہ ان سے پیدا ہونے والی گرین ہاؤس گیسز اس سیارے کو رہنے کے قابل نہیں چھوڑیں گی ‘لیکن ہم نے سب سنی ان سنی کردی۔ایسے ہتھیار تیار کیے‘ جو پوری دنیا کو ایک سے زائد بار تباہ کرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتے ہیں۔ آج سب ہتھیار اور تمام ٹیکنالوجی کورونا کے سامنے ہیچ ہے۔ انسان تو انسان ہم نے تو اللہ تعالیٰ کی دوسری مخلوقات سے بھی جینے کا حق چھین لیا؛ بلاشبہ چین نے کورونا پر قابو پا کر بہت بڑا کارنامہ سرانجام دیا ہے‘ لیکن وہاں بہت کچھ ایسا بھی ہورہا ہے یا ہوتا رہا ہے‘ جس کے باعث بہت سے سوالات سامنے آتے ہیں۔ گریز اس لیے ہے کہ کہیں ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے گہری دوستی کو زک نہ پہنچ جائے۔ 
رہی بات ہماری تو ہمارا کیا ہے ‘ ہمارے لیے تو ہرطرح کے حالات ہی اپنا اپنا سازوسامان بیچنے کے وافر اور موزوں مواقع فراہم کرتے ہیں ہوتے ہیں۔میرے سمیت جن کے ہاتھ میں قلم ہے ‘ وہ وبا سے نمٹنے کیلئے کیسے کیسے شاندار طریقے بتا رہے ہیں‘ یہ تو حکومت کی نااہلی ہے کہ وہ اِن سے فائدہ نہیں اُٹھا پارہی۔ رونا آئے یا نہیں آئے‘ ظاہر یہی کرنا پڑرہا ہے کہ وہ اس وقت شدید کرب میں مبتلا ہیں اور سارے عالم کا غم اُنہیں کھائے جارہا ہے۔ اس کے دوران خدا لگتی بات تو یہی ہے کہ ہمیں کم از کم یہ احساس ضرور ہوا ہے کہ تقدیر کے ساتھ تدبیر کا اشتراک ہی چیزوںکو بہتر بناتا ہے ‘ورنہ تو ہم گلی گلی میں موجود درباروں کو ہی اپنے لیے کافی سمجھتے تھے۔رہی سہی کسر ٹوٹکوں اور تعویذ گنڈوںسے پوری کرلیتے تھے۔زیادہ بات کرنے سے یہاں بھی گریز ہے کیوں کہ ہمارے جذبات بہت جلد مجروح ہوجاتے ہیں۔ خیر اب‘ جو ہم نے چاہے‘ ضرورت کے تحت ہی سہی‘خشوع خضوع کے ساتھ توبہ تائب کا سلسلہ شروع کردیا ہے تو ضروری ہے کہ یہ وبا ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہے۔ تقدیر کے ساتھ تدبیر کے اشتراق کا فارمولا مستقبل میں بھی ہمارے زیرعمل رہے۔ 
آج ہمیں جتنی پروا‘ اپنی زندگیوں کی ہے اُتنی ہی پروا بعد میں دوسروں کی زندگیوں کی بھی لاحق رہے۔ آج جس طرح سے ضرورت مندوں کی ضروریات پوری کرنے کا جذبہ سامنے آرہا ہے‘ ضروری ہے کہ حالات نارمل ہوجانے پر بھی یہ سلسلہ جاری رہے‘اگراِن اچھی باتوں پر صورت ِحال معمول پر آنے کے بعد بھی عمل جاری رہے تو کیا ہی کہنے ‘لیکن ماضی کے تجربات تو کچھ اور ہی بتاتے ہیں اور دھڑکا اب بھی یہی لگا ہوا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں