"FBC" (space) message & send to 7575

دل دکھتا ہے

ہمارے دو برادر مسلم ممالک ایک دوسرے سے ناراض ہیں، دونوں نے ہمیشہ مشکل وقت میں ہمارے کندھے سے کندھا ملایا ہے اس لیے ان کے درمیان بہترین تعلقات ہماری دیرینہ خواہش ہے۔ یہ خواہش بے جا نہیں لیکن یہ پوری نہیں ہو پارہی۔ دونوں کی ایک دوسرے پر برتری کی دوڑ محض الزامات تک محدود رہتی تو شاید گزارہ ہو جاتا لیکن افسوس کہ بات کچھ آگے بڑھ چکی ہے۔ سب سے زیادہ دکھی کر دینے والی صورت حال یمن کی ہے۔ کم و بیش پانچ لاکھ اٹھائیس ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر مشتمل اس انتہائی غریب ملک کی حالت دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ پورے ملک کا انفراسٹرکچر تباہ ہو چکا ہے، میڈیکل کی سہولتیں ناپید ہیں لیکن دور دور تک جنگ کا خاتمہ دکھائی نہیں دے رہا۔ 2011ء میں شروع ہونے والے اِس تنازع کو کم و بیش ایک دہائی ہونے کو ہے۔ یہاں طویل عرصے سے حکومت کرنے والے آمر علی عبداللہ صالح کو عرب سپرنگ کے نتیجے میں اقتدار اپنے نائب منصور ہادی کے سپرد کرنا پڑا تھا۔ اقتدار کی اِس تبدیلی کے فوراً بعد ہی ملک کے جنوبی علاقوں میں علیحدگی پسند تحریک زور پکڑ گئی اور 2015ء کے اوائل میں حوثی باغی دارالحکومت صنعا پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ یہاں بھی حصولِ اقتدار کا ایک دلچسپ پہلو دیکھنے میں آتا ہے کہ موقع غنیمت جانتے ہوئے علی عبداللہ صالح کی افواج نے حوثی باغیوں کی حمایت کی لیکن بعد میں اِنہی کے ہاتھوں مارے گئے۔ اِس صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک عسکری اتحاد قائم کیے جانے کے بعد یمن پر فضائی حملوں کا آغاز کیا گیا۔ ابتدا میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ یہ جنگ زیادہ سے زیادہ چار ہفتوں تک جاری رہے گی لیکن آج اِسے شروع ہوئے پانچ سال گزر چکے ہیں لیکن اِس کے ختم ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔ 
اندازہ ہے کہ طویل خانہ جنگی اور دوسرے عوامل کے باعث براہ راست جنگ میں ہونے والی تقریباً 12ہزار ہلاکتوں سمیت اب تک ایک لاکھ کے قریب یمنی جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سِیوْ دی چلڈرن نامی ایک تنظیم کا اندازہ ہے کہ مرنے والوں میں بہت بڑی تعداد بچوں کی ہے۔ ملک کی دوکروڑ چالیس لاکھ آبادی میں سے کم و بیش 80 فیصد آبادی کو ہنگامی بنیادوں پر تحفظ اور امداد کی اشد ضرورت ہے۔ خود اقوام متحدہ کی مختلف رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ کم و بیش 20 لاکھ بچے غذا کی شدید ترین کمی کا شکار ہیں جبکہ پونے دو کروڑ افراد کی صاف پانی اور صحت کی بنیادی سہولتوں تک بھی رسائی نہیں رہی۔ رہی سہی کسر کورونا نے پوری کر دی ہے۔ اب خبردار کیا گیا ہے کہ یمن میں طبی سہولتوں کی دستیابی اتنی کم ہے کہ کورونا کے باعث مرنے والوں کی تعداد بھوک اور جنگ کے باعث مرنے والوں کی مجموعی تعداد سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ مغربی دنیا کو یہ فکر کھائے جا رہی ہے کہ اگر یہ خطہ عدم استحکام کا شکار رہتا ہے تو یہاں القاعدہ اپنے پنجے گاڑ سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہرکسی کو اپنے اپنے مفادات عزیز ہیں لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا مل بیٹھ کر تنازعے کا کوئی حل نہیں نکالا جا سکتا؟ افسوس کی بات یہ ہے کہ مرنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اتنا سب کچھ ہو جانے کے باوجود ارد گرد کے ممالک اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ کسی کی کوشش ہے کہ یمن میں برسر اقتدار حوثیوں کو نکال باہر کیا جائے تو کسی کی فرمائش ہے کہ اُس کی حمایت یافتہ یمنی حکومت ہر صورت اقتدار میں رہے۔ اِس تمام تر صورتِ حال کا نتیجہ غریب یمن کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
شام کی صورتحال یمن سے زیادہ مختلف نہیں۔ حسین لوگوں کی سرزمین کہلائے جانے والے شام کا حال دیکھ کر دل میں ہوک سی اُٹھتی ہے۔ عالم اسلام کی کیسی کیسی شخصیات کا مسکن رہا ہے یہ شام۔ اِس خوبصورت ملک کی بدقسمتی تو یمن سے بھی بڑی ہے کہ یہاں کئی بڑی طاقتیں میدانِ کارزار میں سرگرم عمل ہیں۔ کچھ ممالک صدر بشار الاسد کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ دیگر ممالک بشار الاسد کو اقتدار سے محروم دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہاں ترکی کے اپنے مفادات ہیں جن کا تحفظ کرنے کے لیے اُس کی افواج بھی کچھ علاقوں میں موجود ہیں۔ امسال فروری کے دوران شام کے حکومتی اتحاد نے صوبہ ادلب میں ترکی کے فوجیوں کو نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں تقریباً 32 ترک فوجی جاں بحق ہو گئے تھے۔ جوابی کارروائی میں تین سو شامی فوجیوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا۔ بہت بڑی قیمت ادا کرنے کے بعد صدر بشار الاسد ابھی تک اپنا اقتدار محفوظ رکھنے میں کامیاب دکھائی دیتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ 10ویں سال میں داخل ہونے والی اس جنگ میں کم از کم چار لاکھ شامی اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اِن میں تئیس ہزار بچے اور پندرہ ہزار کے قریب خواتین بھی شامل ہیں۔ تیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین محض ترکی میں ہیں۔ مختصراً یہ جان لیجئے کہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق شام کی جنگ نے دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے بڑے انسانی المیے کو جنم دیا ہے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اب اگرچہ اِس جنگ میں بشار الاسد کا پلڑا بھاری نظر آ رہا ہے لیکن سوالات یہاں بھی وہی ہیں جنہوں نے یمن کی جنگ کے دوران سر اُٹھایا۔
اِن تمام حالات و واقعات کو تاریخی پس منظر میں دیکھا جائے تو حالات میں تبدیلی گزشتہ صدی کے آخری ربع کے آغاز میں آنا شروع ہوئی۔ عراق میں صدر صدام حسین کی حکومت ختم ہونے کے بعد علاقائی ممالک کے لیے خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی راہ ہموار ہوئی۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی تنازعات اور تلخیاں عروج پر پہنچتی گئیں۔ معاملات کی سنگینی کا اندازہ حال ہی میں کچھ ممالک کی طرف سے ایک دوسرے کو شدید تنقید کا نشانہ بنانے سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
دیکھا جائے تو مستقبل قریب میں بھی مڈل ایسٹ میں تلخیاں کم ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا بلکہ اسرائیل کے ساتھ بعض عرب ریاستوں کے تعلقات استوار کرنے کے بعد اِن میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ بڑی طاقتیں بھی یہ نہیں چاہتیں کہ مڈل ایسٹ میں رنجشوں میں کمی آئے لیکن اِس صورت حال کے اثرات تو بہرحال عالم اسلام کو ہی بھگتنا پڑ رہے ہیں۔ اِس چپقلش نے متعدد دوسرے مسلم ممالک کے لیے بھی مشکلات پیدا کر رکھی ہیں۔ پاکستان کی تو حتی المقدور کوشش رہی ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے درمیان تعلقات بہتر ہو جائیں اور اس مقصد کے لیے کئی کوششیں بھی کی گئیں لیکن اِن کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ 
بلاشبہ یہ صورتحال دکھی کر دینے والی ہے جو انسانی حوالے سے بھی بہت تکلیف دہ ہے۔ یقینا تمام ممالک کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں، جن کا تحفظ کرنا اُن کا حق ہوتا ہے لیکن انسانیت کو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے۔ ایک طرف ہم مسلم اُمہ کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن عملاً بہت کچھ اِس کے اُلٹ بھی ہوتا ہے۔ کیا یہ اِسی رویے کا نتیجہ نہیں کہ آج مسلم دنیا کے متعدد ممالک انتہائی تکلیف دہ صورتحال کا شکار ہیں۔ ہم چاہے لاکھ کہتے رہیں کہ یہ سب کچھ غیروں کی سازشوں کا نتیجہ ہے اور ممکن ہے کہ یہ سچ ہو لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں بھی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے تو پھر ہم کیوں اِس سے کام نہیں لیتے؟ دکھی کردینے والی اس صورتحال سے ہم خود کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں