"FBC" (space) message & send to 7575

وہی حالات، وہی سوالات

امریکی رات کے اندھیرے میں افغانستان میں اپنا سب سے بڑا بگرام ایئر بیس خالی کرچکے۔ وہاں سے آخری امریکی فوجی کی واپسی سے پہلے ہی افغانوں کے چہروں پر وہی ماضی جیسا خوف جھلکنے لگا ہے۔ وہی سوالات دوبارہ اُٹھنا شروع ہوچکے ہیں کہ اب آگے کیا ہوگا؟اُن کا یہ خوف بلاوجہ نہیں ہے‘ 1978ء کے بعد سے‘ ہرچند سالوں کے بعد اُنہیں ایسے ہی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آج سے ٹھیک بیالیس سال پہلے افغانستان میں جو اتھل پتھل ہوئی تھی‘ وہ تو جیسے مستقلاً افغانوں کا مقدر بن کر رہ گئی ہے۔ 27دسمبر 1979ء کے بعد شاید ہی کوئی دن ایسا گزارا ہو جب افغانوں کو سکون کا سانس نصیب ہوا ہو۔ یہی وہ دن تھے جب ایک رات روس(تب سوویت یونین) کی اشیرباد سے افغانستان میں بغاوت برپاہوئی تھی۔ چند ہی گھنٹوں میں افغان صدر حفیظ اللہ امین کو قتل کرکے حکومت کا تختہ اُلٹ دیا گیا تھا۔ اِس سے پہلے 1973ء میں چالیس سالوں تک ملک کے بادشاہ رہنے والے ظاہر شاہ کا تختہ اُلٹ کر داؤد خان بر سرِاقتدار آئے تھے۔ داؤد خان کو 1978ء میں انقلابِ ثور کے نتیجے میں نورمحمد ترکئی نے دنیا سے رخصتی کا پروانہ تھمایا۔ نورمحمد ترکئی کو بھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ اُن کے وزیرخارجہ حفیظ اللہ امین نے بغاوت کرکے خود اقتدار سنبھال لیا۔ دسمبر 1979ء میں حفیظ اللہ امین بھی راہیِ ملکِ عدم ہوئے اور روسیوں کی اشیر باد سے ببرک کارمل ملک کے نئے حکمران بن گئے۔ اِس سے اگلے ہی روز روس کی فوج دریائے آمو پار کرکے افغانستان میں داخل ہوگئی۔ حملہ آوروں کا خیال تھا کہ وہ چند ہی ماہ میں نئی کمیونسٹ حکومت کو استحکام فراہم کرکے واپس چلے جائیں گے۔ حصولِ مقصد کیلئے ہرممکن حد تک فوجی طاقت استعمال کی گئی لیکن 15فروری 1989ء کو جب آخری روسی فوجی نے اپنے وطن واپسی کے لیے دریائے آموپار کیا تو نوسالوں سے زائدکا عرصہ گزر جانے کے باوجود وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے تھے۔ روسی تو افغانستان اور افغانوں کو بے یارومدد گار چھوڑ کر واپس چلے گئے لیکن افغانستان کوایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں جھونک دیا گیا۔ روسیوں کی واپسی کے بعد افغانستان طویل عرصہ تک شدید خانہ جنگی کی لپیٹ میں رہا جس کا اختتام 1995ء میں طالبان کے کابل پر قبضے سے ہوا۔ طالبان کی حکومت کے قیام سے بظاہر تو خانہ جنگی کا اختتام ہوگیا لیکن اِس کے بعد وہاں جو کچھ ہوا‘ اُس نے نئے مسائل اور نئی مشکلات پیدا کردیں۔
طالبان نے افغانستان میں اپنا تسلط قائم کیا تو افغانوں کے لیے گویا ابتلا کا نیا دور شروع ہوگیا۔ پوری دنیا میںپاکستان کے علاوہ‘ دوتین ممالک ہی ایسے تھے جنہوں نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کررکھا تھا۔ نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا تو اِس کے ڈانڈے افغانستان میں مقیم اسامہ بن لادن سے ملنے لگے۔ امریکا کی طرف سے مطالبہ ہوا کہ طالبان اسامہ بن لادن کو اُس کے حوالے کر دیں لیکن انکار پر امریکا اپنے اتحادیوں سمیت افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ ایک مرتبہ پھر وہی حالات‘ جو روسیوں کی جارحیت کے بعد پیدا ہوئے تھے۔ افغانستان ایک مرتبہ پھر میدانِ جنگ بن گیا ۔ ابتدا میں طالبان نے زیادہ مزاحمت کے بجائے عام شہریوں میں گھل مل کر خود کو بچانے کی حکمت عملی اپنائی جس میں وہ کامیاب رہے۔ اِسی دوران اُنہوں نے خود کو منظم کرکے غیرملکی افواج کی مزاحمت کا سلسلہ شروع کردیا۔ 2004ء میں کابل میں باقاعدہ امریکا نواز حکومت قائم کی گئی۔ آج امریکا بھی روسیوں کی طرح اپنے افغان اتحادیوں کو چھوڑ کر واپسی کا راستہ اختیا ر کر رہا ہے۔ امریکیوں کے افغان اتحادی تو یہاں تک شکوہ کررہے ہیں کہ امریکیوں نے بگرام ایئربیس خالی کرنے سے پہلے اُنہیں بتایا تک نہیں۔ اب یہ وثوق کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ افغانوں نے ایک مرتبہ پھر اِس بات کو ثابت کردیا ہے کہ کوئی غیرملکی طاقت اُنہیں اپنا غلام نہیں بنا سکتی۔
تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ اب ایک مرتبہ پھرپورے افغانستان میں طالبان کے قدموں اور خانہ جنگی کی آہٹ محسوس کی جا رہی ہے۔ ایک طرف طالبان کی جانب سے مختلف علاقوں پر تیزی سے قبضوں کی خبریں سامنے آرہی ہیں تو دوسری طرف اِن کے مخالف افغان گروہ اِن کا مقابلہ کرنے کی تیاریاں کررہے ہیں۔ حیران کن طور پر افغان خواتین بھی اِس معاملے میں کافی پُرجوش دکھائی دے رہی ہیں۔ سوشل میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا میں افغان خواتین کے ایسے بیانات کی بھرمار دکھائی دے رہی ہے کہ اُنہیں طالبان سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ خواتین کی ایسی تصاویر بھی سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں جن میں ہاتھوں میں اسلحہ اُٹھائے وہ طالبان کے خلاف نعرے لگاتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔ یہ سب تو افغانستان کی اندرونی صورتِ حال ہے لیکن تشویش کی کچھ لہریں سرحد کے اِس پار بھی محسوس کی جا رہی ہیں۔ وجہ بہت سیدھی اور صاف ہے کہ ہمسایہ ملک میں بے یقینی کی صورتِ حال سے ہم متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
1979ء کے بعد سے‘ کسی نہ کسی طور ہم افغانستان کی صورتِ حال سے متاثر ہوتے آئے ہیں۔ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب چالیس لاکھ سے زائد افغانوں نے اپنا ملک چھوڑ کر ہمارے ہاں پناہ لی تھی۔ دہشت گردی کے عفریت نے ہماری سانسیں الگ سے خشک کیے رکھیں۔ اِس جنگ کے نتیجے میں ہم نے جو کچھ سہا‘ وہ اب تاریخ کا حصہ ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارا حاصل حصول کیا ہے؟ آج افغان حکومت ہم سے یہ چاہتی ہے کہ ہم طالبان کو موجودہ سیٹ اَپ کا حصہ بننے پر رضا مند کریں۔ ایک طرف تو افغانوں کا ہم سے یہ تقاضا ہے تو دوسری طرف افغان صدر ماضی کی طرح آج بھی افغان حالات میں ابتری کے لیے پاکستان کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھی فراموش کردیتے ہیں کہ ہم نے کتنے طویل عرصے تک لاکھوں افغان شہریوں کو اپنے ہاں پناہ دیے رکھی۔ دوسری طرف طالبان یہ چاہتے ہیں کہ ہم اُنہیں کسی مفاہمتی فارمولے پر لانے کے بجائے اُن کی عسکری حکمتِ عملی کی حمایت کریں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ افغانستان کی صورتحال ہمارے لیے کافی پریشان کن ہوچکی ہے۔ یقینا افغان پالیسی مرتب کرنے والوں نے اِس بابت اپنا ہوم ورک کیا ہوگا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کس حد تک کارگر ثابت ہوتا ہے۔
افغانستان کی صورتحال کا بنظرِغائر جائزہ لیا جائے تو صورتحال انتہائی گمبھیر دکھائی دیتی ہے۔ وہاں سیاسی مفاہمت کے امکانات بہت تیزی سے معدوم ہوتے چلے جارہے ہیں۔ کسی بھی وقت صورتحال کوئی بھی کروٹ لے سکتی ہے۔ امریکہ بھی افغانستان کے حوالے سے سوویت یونین والی تاریخ دہرا رہا ہے۔ کہنے کو بھلے ہم یہ کہتے رہتے ہیں کہ تاریخ سے سبق سیکھنا چاہیے لیکن تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ اِس سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ ماضی میں افغانستان کے حوالے سے جو پالیسیاں اختیار کی گئیں‘ اُن کے نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اگر کچھ بہتر نتائج برآمد ہوئے ہوتے تو ہمارے لیے کبھی تو کوئی خیر کی خبر آ جاتی۔ اِس تمام صورتحال میں اگر کوئی خیر کا پہلو سامنے آیا ہے تو وہ یہ کہ ایک مرتبہ پھر ناراض بلوچوں کو منانے کی سعی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اِس کے لیے شاہ زین بگٹی کو وزیراعظم نے معاونِ خصوصی مقرر کیا ہے۔ بے شک ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانا وقت کی اہم ضرورت ہے لیکن ہم حالات کا تبھی ادراک کرتے ہیں جب سر پر پڑتی ہے۔ بہرحال اب اگر یہ کوشش شروع کی گئی ہے تو اِس کے لیے سبھی کو نیک نیتی سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ افغانستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بھی یہ انتہائی ضروری ہے کہ ہم اپنے اندرونی حالات میں بہتری لے کر آئیں‘ اس مسئلے کا واحد حل یہی دکھائی دیتا ہے کہ طالبان، افغانستان، پاکستان اور خطے کے دوسرے ممالک مل بیٹھ کر کوئی راستہ نکالیں‘ ورنہ حالات قابو سے باہر بھی ہوسکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں