"FBC" (space) message & send to 7575

خطے کی خطرناک صورتِ حال

افغانستان کی صورتِ حال پر چند روز قبل اِنہی سطور میں کچھ حقائق بیان کیے تھے۔ کالم کی اشاعت کے بعد کافی تعداد میں قارئین کی ای میلز موصول ہوئیں جن میں سب نے اپنی اپنی آرا کا اظہار کیا تھا۔ اِن برقی پیغامات کو پڑھنے کے بعد واضح طور پر محسوس ہوا کہ افغانستان کی صورتحال پر ہماری عوامی آرابھی منقسم ہیں۔ کچھ اِس بات پر خوش دکھائی دیے کہ طالبان نے دنیا کی سب سے بڑی فوجی قوت کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا ہے جبکہ کچھ دوستوں کی طرف سے کہا گیا تھا کہ افغانوں پر پھر سے براوقت آرہا ہے کہ وہاں ہرطرف بے یقینی کی سی صورتِ حال پیدا ہوچکی ہے۔ اُن کے نزدیک طالبان جس تیزی سے پیش قدمی کرتے جارہے ہیں، اپنے مستقبل کے حوالے سے افغانوں کے خدشات میں اُتنی ہی تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ یہ خدشات بے جا بھی نہیں ہیں کہ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال آنے والے دنوں کی بخوبی عکاسی کررہی ہے۔ بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی تقریباً تمام رپورٹس خطرناک صورتحال کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ بے شمار ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں جن میں عام افغان عوام کے خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ افغانستان کی صورتحال پر وہاں کے رہنے والے ہی نہیں بلکہ اس کے ہمسایہ ممالک بھی پریشان ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں تو ماضی میں بھی افغانستان کی صورتحال سے سب سے زیادہ پاکستان ہی متاثر ہوا تھا۔ اب ایک مرتبہ پھر یہی خدشات سامنے آرہے ہیں کہ کہیں دوبارہ پاکستان کو بڑی تعداد میں افغان مہاجرین کی میزبانی نہ کرنی پڑ جائے۔ کچھ ایسے خدشات بھی موجود ہیں کہ آج پیش قدمی کرنے والی قوت کی طرف سے ہم نے ماضی قریب میں جس طرح آنکھیں پھیری تھیں‘ کہیں اب اُس کا بھی خمیازہ نہ بھگتنا پڑے۔ کیسی عجیب بات ہے کہ جس امریکا کے کہنے پر ہم نے طالبان کے حوالے سے اپنی پالیسی کو 180 ڈگری پر تبدیل کیا، انخلا سے پہلے اُسی نے طالبان کو اپنی آنکھ کا تارہ بنا لیا۔ افغان حکومت ابھی تک ششدر دکھائی دیتی ہے کہ آخر امریکا نے اُس کے ساتھ اتنی بے وفائی کیسے کردی۔ کیسے افغان حکومت کو بے یارومدد گار چھوڑ دیا گیا۔ حالات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے جیسے جان بوجھ کر خطے کے ممالک کو ایک خطرناک صورتِ حال سے دوچار کیا گیا ہے۔
جن طالبان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے امریکا نے افغانستان پر ہلّہ بولا تھا‘ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اِن کے رہنماؤں کو سہولتیں فراہم کی گئیں۔ اِن پر سے صرف سفری پابندیوںکا خاتمہ ہی نہیں کیا گیا بلکہ قطر میں سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دینے کے ساتھ ساتھ انہیں وی وی آئی پی پروٹوکول بھی دلوایا گیا۔ افغان حکومت کو مجبور کیا گیا کہ وہ جیلوں میں قید پانچ ہزار قیدیوں کو رہا کرے۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود طالبان سے افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے کوئی ضمانت نہیں لی گئی۔ امریکا تو طالبان سے ایک معاہدہ کر کے افغانستان سے نکل گیا لیکن افغانوں کو بیچ منجھدار میں چھوڑ گیا۔ افغان حکومت کا اس پر پریشان ہونا فطری ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ پاکستان، ایران اور وسطی ایشیا کی ریاستیں بھی کافی پریشان دکھائی دے رہی ہیں۔ آئے روز سینکڑوں افغان فوجی سرحد پار کرکے ازبکستان اور تاجکستان میں پناہ لے رہے ہیں۔ ایسی کچھ رپورٹس بھی میرے سامنے موجود ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ اِن دونوں ریاستوں نے افغانستان کے ساتھ ملحقہ اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانا شروع کردیا ہے۔ وسطی ایشیا میں تاجکستان‘ افغانستان کے ساتھ سب سے زیادہ طویل سرحد رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کابارڈر 1344کلومیٹر طویل ہے، اسی لیے تاجک صدر نے 5 جولائی کو مزید بیس ہزار فوجی سرحدوں پر تعینات کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ روس نے بھی سو ٹینکوں کے ساتھ اپنے سات ہزار فوجی روانہ کیے ہیں۔ ازبکستان کی طرف سے بھی ایسے ہی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اِن ریاستوں کو خدشہ یہ ہے کہ اگر طالبان افغانستان میں برسراقتدار آتے ہیں تو اِنہیں بھی اِس کے اثرات بھگتنا پڑیں گے۔ ترکمانستان تیسری وسط ایشیائی ریاست ہے جس کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں۔ اب اِن تینوں ریاستوں نے طالبان سے اپنے روابط استوار کرنے کے لیے کوششیں تیز کردی ہیں تاکہ کل کو وہ افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے خود کو محفوظ رکھ سکیں۔ اِس حوالے سے روس بھی مذکورہ تینوں ممالک کی مدد کررہا ہے۔ افغانستان میں صورتِ حال بگڑنے پر روس کی سربراہی میں قائم اجتماعی سکیورٹی معاہدے کے تحت بھی اِن تینوں ممالک کی مدد کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔
دوسری طرف ایران بھی افغانستان کے ساتھ کافی طویل سرحد رکھتا ہے۔ اگر افغان طالبان اور ایران کے درمیان تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو یہ ماضی میں کافی سرد مہری اور اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔ اگرچہ اپنے اپنے مفادات کے تحت اِنہیں بہتر بھی بنا یا جاتا رہا ہے اور اِن دِنوں بھی ایسی ہی صورتحال دیکھنے میں آرہی ہے۔ ماضی میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب طالبان حکومت نے کجکی ڈیم بند کرکے ایران کی طرف جانے والے پانی کی سپلائی میں قابلِ ذکر حد تک کمی کردی تھی۔ اِس اقدام کے نتیجے میں ایران کے علاقے سیستان میں پانی کی صورتحال بہت خراب ہو گئی تھی۔ اِس سے پہلے‘ 1998ء میں طالبان مخالف شمالی اتحاد‘ جس نے مزار شریف میں سینکڑوں طالبان کو موت کی نیند سلا دیا تھا‘ کو ایران کی پشت پناہی میسر تھی مگر جب افغانستان میں امریکا کی حلیف حکومت برسر اقتدار آئی تو ایران کو اس سے خدشات محسوس ہونے لگے۔ اُسے سب سے بڑا خطرہ دریائے ہلمندپر تعمیر کیے گئے کمال خان ڈیم سے محسوس ہوا۔ اِس کی تعمیر سے افغانستان کو ایران کی طرف جانے والے پانی پر کافی کنٹرول حاصل ہوگیا تھا۔ اِسی تناظر میں امریکا اور افغان حکومت کی طرف سے بارہا ایسے الزامات سامنے آئے کہ ایران، افغانستان کے ترقیاتی منصوبوں میں رکاوٹ پیدا کررہا ہے۔ اِس دوران طالبان اور ایران کے درمیان پوشیدہ تعاون موجود رہا۔ ایران پر طالبان کو ہتھیار فراہم کرنے کے الزامات بھی سامنے آتے رہے۔ غالباً ایران کی طرف سے پہلی مرتبہ 2018ء میں باقاعدہ اعتراف کیا گیا تھا کہ ایران طالبان کے نمائندوں کی میزبانی کرتا رہا ہے۔ محسوس یہ ہورہا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتحال میں بھی طالبان اور ایران کے مفادات کافی حد تک مشترکہ ہیں جس کے باعث دونوں نے ایک دوسرے کے بارے میں قدرے مفاہمانہ رویہ اختیار کررکھا ہے۔
رہی بات ہماری تو شاید ہم اِس وقت خود کو ایک بند گلی میں بند محسوس کررہے ہیں۔ ایک طرف جہاں یہ خدشہ ہے کہ کہیں طالبان بے وفائی کا بدلہ نہ لیں تو دوسری طرف طالبان کے برسراقتدار آنے کی صورت میں بھی ہمیں بین الاقوامی تنقید کا نشانہ بننا پڑ سکتا ہے۔ اِس کی وجہ غالباً یہ ہو سکتی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بڑی حد تک یہ تصور موجود ہے کہ پاکستان طالبان پر اثرو رسوخ رکھتا ہے۔ ہماری فورسز نے بڑی قربانیوں کے بعد ٹی ٹی پی کی سرگرمیوں کا قلع قمع کیا ہے، اب اگر یہ تنظیم دوبارہ متحرک ہوگئی تو ہمارے لیے کافی پریشان کن صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ دوسری طرف افغان حکومت بھی بلاجواز طور پر کھسیانی بلی کی طرح تمام غصہ پاکستان پر نکال رہی ہے حالانکہ افغانستان کو موجودہ صورت حال کا شکار پاکستان نے نہیں بلکہ امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے کیا ہے۔ دیکھا جائے تو افغانستان کی صورتحال مزید خراب ہونے پر سب سے زیادہ پاکستان کے ہی متاثر ہونے کے خدشات ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ امریکا نے جان بوجھ کر خطے کو جس آگ میں دھکیلا ہے، ہمسایہ ممالک ابھی سے اُس کی تپش محسوس کررہے ہیں۔ یہ صورتِ حال ہمارے لیے خصوصاً انتہائی دانشمندانہ راستہ اپنانے کی متقاضی ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ کہ جوکچھ بھی کیا جائے، اُس میں بہرصورت ملکی مفادات کو مقدم رکھا جانا چاہیے کہ ماضی میں کئی ایک مواقع پر عالمی دبائو قبول کر لیا گیا تھا جس کی وجہ سے ہمارے لیے افغانستان کے معاملے میں مشکلات پیدا ہوئیں اور جن کا خمیازہ بھی بھگتنا پڑا۔ چین اور بھارت اِس صورتِ حال کو کس نظر سے دیکھ رہے ہیں، اِس پر پھر بات کریں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں