"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی انج دا جادوکر سائیاں

حالات جیسے بھی ہوں‘ عید تو بہرحال عید ہوتی ہے۔ اِس لیے آپ جس بھی حال میں عید منا رہے ہیں، سب سے پہلے تو آپ کو ہماری طرف سے بہت عید مبارک! اب یہ الگ بات کہ بھلے عید پر مہنگائی نے آپ کے رہے سہے سب کس بل ہی کیوں نہ نکال دیے ہوں۔ کہنے کو تو عید سے پہلے ہی حکومتی سطح پر یہ اعلانات شروع ہو جاتے ہیں کہ عید پر کسی کو مقررہ نرخوں سے زائد پر اشیا فروخت کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ لیکن تاحال معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ کون ہیں جو اشیا کے نرخوں میں اضافے کے لیے حکام سے باقاعدہ اجازت طلب کرتے ہیں۔ کچھ اور نہیں تو کم از کم اپنے الفاظ میں ہی کوئی تبدیلی لے آئیں۔ وہی گھسے پٹے بیانات اور بچپن سے کانوں میں زہرگھولتے الفاظ۔ چند ماہ پہلے تک پیشہ ورانہ اُمور کی انجام دہی کے لیے لاہور کی ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطہ رہتا تھا۔ اکثر ہم مذاق میں ڈی سی صاحبان سے پوچھا بھی کرتے تھے کہ جناب! آپ اعلان کرتے ہیں کہ عید پر کسی کو مہنگائی کی اجازت نہیں دی جائے گی، کبھی اِس حوالے سے کوئی درخواست بھی آپ کے پاس آئی ہے کہ ہمیں بلاجواز مہنگائی کرنے کی اجازت دی جائے؟ اِس پر ظاہر سی بات ہے کہ سوائے ہنسی کے دوسرا کیا جواب ہوسکتا تھا، سو اِسی پر اکتفا کیا جاتا تھا۔ طویل عرصے سے ہرعید پر کچھ ایسی ہی صورتِ حال دکھائی دیتی ہے لیکن سچی بات ہے کہ گزشتہ تین سالوں سے جو کچھ ہورہا ہے‘ اُس کی شاید ہماری تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ مہنگائی کی اتنی شدید لہر کہ تین سالوں کے دوران بیشتر چیزوں کے نرخوں میں زیادہ نہیں تو کم از کم تین گنا تک اضافہ ضرور ہوچکا ہے۔ اِن حالا ت میں کہ جب چینی 65سے 110روپے کلو تک جا پہنچی ہو‘ آٹا 80روپے کلو اور گھی 340روپے کلو میں فروخت ہورہا ہو، دالوں کے دام 240روپے فی کلو تک جا پہنچے ہوں تو پھر جیسی عید منائی جاسکتی ہے، ظاہرہے ویسی ہی منائی جارہی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اِن حالات نے عید کی متعدد خوشیاں ہم سے چھین لی ہیں۔ وجہ بہت صاف ہے کہ روٹی کی فکر سب سے پہلے ہوتی ہے‘ باقی سب باتیں اُس کے بعد کی ہیں۔ جب پیٹ کی فکر سے ہی نجات نہ ملے تو باقی خوشیاں کیا معنی رکھتی ہیں؟ اِنہی حالات کے باعث اب اتنی آپا دھاپی پڑ چکی ہے کہ اکثریہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ عید آچکی ہے ۔
وہ وقت بیتے زیادہ عرصہ نہیں گزرا جب عید کی آمد سے کئی روز پہلے ہی اِس کا غلغلہ مچ جاتا تھا۔ عید الفطر کی تیاریوں کی تو خیر بات ہی اور ہوتی تھی لیکن عیدالاضحی پر بھی خاندان والے باہم مل بیٹھتے تھے۔ قربانی کے جانوروں کی خریداری کے لیے ایک دوسرے سے مشورہ کیا جاتا تھا۔ بیشتر صورتوں میں قربانی کا جانور عید سے کافی عرصہ پہلے ہی خرید لیا جاتا تھا۔ اکثر یوں ہوتا تھا کہ مل کر منڈیوں کا رخ کیا جاتا کہ اگر ایک ایک ساتھ زیادہ جانورخریدے جائیں گے تو قدرے سستے داموں مل جائیں گے۔ قبل از وقت خریداری کی وجہ یہ بھی ہوتی تھی کہ جانور کی اچھے سے خدمت کی جاسکے تاکہ جب اُسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کیا جائے تو اُس کی جدائی محسوس ہو۔ اب بیشتر صورتوں میں عید سے ایک آدھ روز قبل ہی جانور خریدا جاتا ہے اور پھر گھڑیاں گننے کا عمل شروع ہوجاتا ہے کہ کب عید آئے اور کب اِس کی دیکھ بھال سے جان چھوٹے۔ اب تو عید سے پہلے ایک دوسرے سے مشورہ کرنے کا رواج بھی تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ ہرکوئی اپنے اپنے گھر میں اپنی اپنی مصروفیات میں مگن ہے ۔
ہمیں یاد ہے کہ عید سے ایک روز قبل ہمارے والد صاحب اور چچا جان کے درمیان یہ طے ہوجاتا تھا کہ قربانی کس کے گھر میں کی جائے گی اور گوشت وغیرہ کہاں تیار ہوگا۔ جب قربانی کا عمل مکمل ہوجاتا تو پھر طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمارے یا چچا کے گھر‘اِس کا گوشت پکتا اور سب مل بیٹھ کر کھاتے۔ اِس عمل میں ہمسایوں کو خصوصی طور پر مدعو کیا جاتا تھا۔ یہی عمل ہمسایوں کے گھروں میں بھی دیکھنے میں آتا۔ ہم چاروں بھائیوں کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی تھی کہ کس نے کس کے گھر گوشت دینے جانا ہے۔ آج کی نسل کے لیے شاید یہ سب باتیں حیران کردینے والی ہوں مگر تب لوگ سادہ ہوتے تھے اوراُن کی تیاریاں بھی سادہ ہی ہوتی تھیں جن میں خلوص کا عنصر بہت واضح طور پر دکھائی دیتا تھا۔ البتہ بچوں کی خوشیاں دیکھنے کے قابل ہوتی تھیں۔ آج جب ہم اپنے بچوں کو بتاتے ہیں کہ ہمارے بچپن کی عید کتنی خوب صورت ہوتی تھی تو وہ انگلیاں دانتوں تلے داب لیتے ہیں۔ یہ سننے کے بعد اُن کی طرف سے یہ سوال سننے میں آتا ہے کہ اب ایسا کیوں نہیں ہوتا؟ اب اُنہیں بھلا کیا بتایا جائے کہ ہم نے خود ہی اپنے لیے یہ صورتحال پیدا کرلی ہے۔ ہرکوئی اپنی ہی دھن میں مگن دکھائی دیتا ہے۔
یہ سچ ہے کہ وقت کے ساتھ رونما ہونے والی تبدیلیوں کو روکا نہیں جاسکتا لیکن ماضی کی اچھی روایات کو تو ساتھ لے کر چلا ہی جاسکتا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ عیدین پر مہنگائی کی چھوٹی موٹی لہر کا آنا ہمیشہ کا معمول رہا ہے لیکن اب تو سب کچھ ہی اُلٹ پلٹ ہوکر رہ گیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے زندگی کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہی رہ گیا ہے۔ اگر سب نہیں تو بیشتر احباب اِسی فکر میں غلطاں رہتے ہیں کہ کس طرح زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جائے۔ یہ شاید ٹریکل ڈاؤن افیکٹ ہے جو اوپر سے نیچے منتقل ہو رہا ہے۔ جب ہم بااختیار لوگوں کو یہ سب کچھ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو پھر ہمارے اندر بھی یہ خواہش انگڑائیاں لینے لگتی ہے کہ کسی بھی طرح سے ہمارے بینک اکاؤنٹس میں اضافہ ہونا چاہیے۔ یہ موقع ایسی باتیں کرنے کا تو نہیں ہے لیکن جب کلیجے پر چوٹ پڑتی ہے تو آنکھوں میں آنسو آہی جاتے ہیں۔
کبھی کبھار یہ خیال بھی دل میں آتا ہے کہ کیا عید واقعتاً خوشیوں کا تہوار ہے؟اگر ایسا ہے تو پھر عید کی آمد پر بیشتر احباب کے چہرے کیوں اُتر جاتے ہیں؟کیوں ایسی سوچیں اُن کی جان کو آ جاتی ہیں کہ یہ موقع کیسے گزرے گا؟ کیوں وہ دن رات اِسی فکر میں رہتے ہیں کہ اپنے بچوں کی خواہشات کو کیسے پورا کریں گے؟یہ خوشیوں کا تہوار ہے تو باقی دنیا کی طرح کیوں ہمارے تاجر حضرات اپنے منافع میں کمی نہیں کردیتے؟ کیوں وہ اِس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اشیا کے دام مزید بڑھا دیتے ہیں؟ اکثر ایسے مواقع پر یہ سوچیں ذہن کے دامن گیر ہو جاتی ہیں لیکن پھر یہی خیال آتا ہے کہ عید تو عید ہے جسے بہرحال اپنی بساط مطابق بھرپور طریقے سے منانا چاہیے۔
ایک بات ضرور ہے کہ عید کو اِس کے شایانِ شان طریقے سے منانے کی ہمت بھلے نہ ہو لیکن یہ موقع ہم جیسوں کواُس دور میںضرور لے جاتا ہے جب حقیقتاً ہمارے لیے اِس سے بڑھ کر خوشی کا کوئی دوسرا موقع نہیں ہوتا تھا۔ اِس موقع پر وہ بھی یاد آتے ہیں جو ہمارے لیے اِن خوشیوں کو خوب سے خوب تر بنانے کے لیے اپنی خواہشات کی قربانی دیا کرتے تھے۔ آج اُن بڑوں میں سے بیشتر ہمارے ساتھ نہیں ہیں مگراُن کی یادیں اب بھی باقی ہیں۔ اب کے بھی عید یہی سب کچھ اپنے ساتھ لے کر آئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ سب کچھ جیسے کل کی بات ہو۔ ایسے میں یہ خواہش شدت سے دل میں ابھرتی ہے کہ کاش وہ وقت لوٹ آئے۔ کاش ایک مرتبہ پھر ہم اپنے بچپن میں لوٹ جائیں۔ ویسے ہی قربانی کے جانور کی رسی پکڑ کر اسے گلی میں لے جائیں۔ اُسے چارہ ڈالیں اور نہلائیں دھلائیں، اُس کی خدمت کریں۔ کہیں سے کانوں میں والدہ کی آواز پڑے کہ صبح وقت پر اُٹھ جانا تاکہ عیدکی نماز میں دیر نہ ہوجائے۔ کاش والد صاحب کہیں سے سامنے آجائیں اور ہمیں قربانی کے حوالے سے بار بار دی جانے والی ہدایات دہرائیں کہ دیکھو فلاں‘ فلاں کے گھر گوشت ضرور جانا چاہیے، اگر کوئی کوتاہی ہوئی تو تم لوگوں کی خیر نہیں! یہ فلاں‘ فلاں کون ہوتے تھے، وہی جو قربانی کی استطاعت نہیں رکھتے تھے۔ ایسے احباب کو سب سے زیادہ یاد رکھا جاتا تھا کہ کہیں وہ عید کی خوشیوں میں شامل ہونے سے محروم نہ رہ جائیں۔ کاش گزرا ہوا وقت کسی طرح واپس لوٹ آئے لیکن... گیا وقت کہاں ہاتھ آتا ہے۔ کہنے کو تو یہی کہا جاتا ہے کہ گزر گیا جو زمانہ اُسے بھلا ہی دو؍ جو نقش بن نہیں سکتا اُسے مٹا ہی دو؛ تاہم پھر بھی ؎
کوئی انج دا جادو کر سائیاں
میں یاد کراں ویلا مڑ آوے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں