"FBC" (space) message & send to 7575

کچھ تو خیال کریں

ایسی عادت تو رہی نہیں کہ ہم بولنے سے پہلے زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت ہی سوچ بچار کرنے کی زحمت کرلیں۔ یہاں تو رواج یہ ہے کہ جو منہ میں آئے بول دو اور بعد میں اپنے کہے ہوئے کی تاویلیں اور توضیحات پیش کرتے رہو۔ تاویل و توضیح بھی بس ایسے ہی تسلیٔ دل کے لیے‘ ورنہ تو اپنی غلطی تسلیم کرنے کا رواج ہی جیسے ختم ہوچکا ہے۔ مخالفین کے لتے لینے کے دوران ایسے ایسے الفاظ ادا کیے جاتے ہیں جو شاید گلی محلوں کی لڑائی میں بھی نہیں بولے جاتے ہوں گے۔ کبھی کبھار تو دل بہت دکھتا ہے کہ کیسے کیسے نابغے ہمارے اوپر مسلط کردیے گئے ہیں۔یہ سب کچھ آزاد کشمیر کی انتخابی مہم کے دوران بھی دیکھنے میں آتا رہا۔ کامیابی تو جس کے نصیب میں آئی ہے‘ اُس کی بابت سب کو علم تھا لیکن جلسوں کے دوران جس طرح کی زبان استعمال کی جاتی رہی، اُس نے تو ہرذی شعور شخص کو شرمندہ کردیا۔ اِن جلسوں کے دوران سب سے زیادہ زور اِس بات پر رہا کہ اپنے مخالفین کو غیر ملکی ایجنٹ قرار دیا جائے۔ ذرا سوچیں جب یہ تمام بیانات ہمارے مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے کانوں تک پہنچتے ہوں گے تو وہ ہمارے رہنماؤں کے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ مسلم لیگ کی ساری انتخابی مہم میں پی ٹی آئی حکومت بالخصوص وزیراعظم کو کشمیر فروشی کا طعنہ دیا جاتا رہا، انتخابی مہم کے اختتامی لمحات میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی اپنا حصہ ڈال گئے‘ اُن کی طرف سے کہا گیا کہ عمران خان تو نریندر مودی کے جیتنے کی دعا کرتے رہے تھے تو وہ کیسے کشمیریوں کے ہمدرد ہوسکتے ہیں۔ تحریک انصاف والے بھی ایک ہی بات دہراتے نظر آئے کہ نواز شریف نریندرمودی کے ساتھ تحائف کا تبادلہ کرتے رہے ہیں‘ وہ کیسے کشمیریوں کے خیرخواہ ہوسکتے ہیں۔ محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ نے تو یہاں تک کہا کہ انتخابی مہم کے دوران مریم نواز مودی کا بیانیہ سناتی رہیں۔اگر سب کے سب مودی کے دوست ہیں تو پھر کوئی ایسا بھی بچتا ہے جو واقعتاً اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ مخلص ہو؟
یہ ہیں وہ حالات‘ وہ گفتگو اور بیانات جن کی گرما گرمی آزاد کشمیر کی پوری انتخابی مہم کے دوران محسوس کی جاتی رہی ۔سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم اپنی بات شائستگی کے دائرے میں رہتے ہوئے کیوں نہیں کرسکتے۔ کیوں ہم ہروقت شعلے اُگلتے رہتے ہیں۔ ایک منٹ نہیں لگتا کہ سیاسی مخالفین کو جھٹ سے غیر ملکی ایجنٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ جو شخص تین مرتبہ ملک کا وزیراعظم رہ چکا ہو وہ بھی بھارت اور مودی کا ایجنٹ، جو موجودہ وزیراعظم ہے، اپنے مخالفین کی نظر میں وہ بھی بھارت اور موودی کے مفادات کا محافظ۔ ناقدین کی نظر میں پیپلزپارٹی بھی بھارت کی دوست‘ تو پھر ملکی مفادات کا محافظ کون ہے؟ اِس میدان کارزار میں وفاقی وزیرمملکت برائے اطلاعات کی نئی انٹری بھی خوب رنگ جما رہی ہے۔ ان کی طرف سے نئی منطق پیش کی گئی ہے ، کہا گیا کہ میاں نواز شریف نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مدد سے عمران خان کا فون ہیک کرنے کی کوشش کی ۔ کیا یہ بات قابلِ فہم ہے؟ تسلیم کہ میدانِ سیاست میں مخالفین کو نیچا دکھانا کھیل کا اہم حصہ ہوتا ہے لیکن ایسی بھی کیا بات کہ سبھی ایک دوسرے کو غیر ملکی ایجنٹ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ یہی صورتِ حال سرحد کے اُس پار بھی دکھائی دیتی ہے۔ وہاں بھی ایک دوسرے کو پاکستان کا ایجنٹ قرار دے کر مخالفین کے لتے لیے جاتے ہیں۔ وہاں کوئی بھی امن کی بات کردے یا ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی ضرورت واضح کرے تو مخالفین اُسے فوراً غیر ملکی بالخصوص پاکستان کا ایجنٹ قرار دے دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں تو اب انتخابی مہمات کے دوران انڈین فیکٹر کا استعمال زیادہ شدومد سے شروع ہوا ہے لیکن اس پار یہ سلسلہ عرصہ دراز سے جاری ہے۔ اب توبھارتی سیاست میں مذہب کا عنصر بھی بہت شدت سے داخل ہوچکا ہے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے جس طرح مذہبی کارڈ کے استعمال سے فائدہ اُٹھایا ہے، اُس کے بعد سے اب بھارتی سیاست میں یہ بہت اہمیت حاصل کرچکا ہے جس میں پاکستان مخالفت کا تڑکا بھی لگا دیا جاتا ہے۔ پورے خطے میں ہی یہ روش جڑ پکڑ چکی ہے۔ طرفین کی یہی سوچ ہے جو خطے میں مستحکم امن کے قیام میں بڑی رکاوٹ ہے۔ سچی بات ہے کہ اپنے مخالفین کو دشمن ممالک کا آلہ کار قرار دینے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ وہ بخوبی علم رکھتے ہیں کہ اُن کے ایسے بیانات پڑھنے والے بھی صرف مسکرا دینے پر ہی اکتفا کرتے ہیں یا پھر اِس پر دلچسپ تبصروں سے اپنا دل بہلاتے ہیں۔ اب ستر کی دہائی کے قارئین اور ناظرین تو رہے نہیں ۔ اب تو کسی ریڑھی والے کے پاس کھڑے ہو جائیں تو وہ بھی منٹوں میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کردیتا ہے۔ اُسے یہ تک معلوم ہوتا ہے کہ کس کی ڈوریاں کہاں سے ہلائی جا رہی ہیں۔ آج اگر کئی کئی جماعتیں تبدیل کرنے والے رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ہرنئی جماعت کاحصہ بننے والے بعد میں اپنے پرانے ساتھیوں کو ہی برا بھلا کہنا شروع کردیتے ہیںاور عوام کو درس دیتے ہیں اخلاقیات اور وفاداری کا۔ البتہ عوام کی بے بسی اپنی جگہ مسلم ہے کہ جب میدانِ سیاست میں نیا خون لانے کے دعوے کرنے والے بھی پرانے خون پر ہی اکتفا کرنے لگیں تو کیا کیا جاسکتا ہے۔ اگر سب نہیں تو عوام کی اکثریت اِس طرزِ سیاست کو سخت ناپسند کرتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کبھی بھی کچھ بھی ہوسکتا ہے لیکن ایسی بھی کیا اندھیر نگری کہ اپنے مفادات کے لیے دن کو رات اور رات کو دن ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی رہے۔ شاید اقتدار کا نشہ ہی ایسا ہے کہ تمام اخلاقیات بھلا دیتا ہے لیکن عوام ایسے بیانات کو پڑھنے یا سننے کے بعد کتنی اہمیت دیتے ہیں‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔
یہ اِسی آپا دھاپی کا نتیجہ ہے کہ ہرگزرنے والے لمحے کے ساتھ ہمارے لیے حالات خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو دشمن کا ایجنٹ قرار دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور دوسری طرف مخالفین ہمارے سکریو کستے چلے جارہے ہیں۔ داسو ڈیم والے واقعے نے ہمارے سب سے بہترین دوست کے ساتھ بھی تعلقات میں تناؤ پیدا کردیا ہے۔ جلد بازی میں پہلے اِس حادثے کو گیس لیکیج کا نتیجہ قرار دیا جاتا رہا لیکن حقیقت کب کسی سے چھپی رہ سکتی ہے؟ بھارت کے ساتھ تو خیر ہمارے تعلقات کبھی بھی معمول پر نہیں آسکے ۔ رہے ہمارے دیگر ہمسایہ ممالک تو کسی ایک ملک کا بتائیے جس سے ہمارے اچھے تعلقا ت ہوں۔ چھ ماہ گزرنے کو آئے‘ ابھی تک ہماری حکومت امریکی صدر جوبائیڈن کے فون کے انتظار میں ہے لیکن انتظار ہے کہ ختم ہونے میں ہی نہیں آرہا۔ ہمیں زعم تھا کہ امریکا ہماری حمایت کے بغیر افغانستان سے پُرامن طور پر اپنی افواج نہیں نکال سکتا ۔ یہ کام بھی ہوچکا۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ جیسے ہم اُلٹے قدموں چل رہے ہوں لیکن شاید ہی کسی کو کوئی پروا ہو۔ کہتے ہیں کہ زنجیر ہلاتے رہنا چاہیے ، سو اِسی کے مصداق سیاسی رہنماؤں سے یہ مودبانہ گزارش ہی کی جاسکتی ہے کہ اگر ملک کے لیے کچھ اچھا نہیں کرسکتے تو کم از کم اپنی اخلاقیات کو تو برقرار رکھیں۔ کیوں ایک دوسرے کو دشمن ممالک کا کارندہ قرار دے کر دوسروں کو خود پر ہنسنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔یہ کھیل پہلے کیا کم کھیلا جا رہا تھا جو اب سبھی اِس میدان میں کود پڑے ہیں۔ اگر دوسروں کو جائز، ناجائز تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے اپنے کارنامے، اپنی کارکردگی گنوائی جائے تو اِس کا سننے اور دیکھنے والوں پر زیادہ اثر مرتب ہوتا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ ایسا تو کسی کے بھی پلے نہیں ہے جسے اپنے قابلِ فخر کارنامے کے طور پر پیش کیا جا سکے سو ایسے میں دوسروں کو بے جا تنقید کا نشانہ بنانے کے پیچھے ہی پناہ لی جاسکتی ہے اور یہی سب کچھ ہورہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں