"FBC" (space) message & send to 7575

کون یقین کرے گا؟

حالات و واقعات سے ہم کتنا سبق سیکھتے ہیں؟ سچی بات یہ ہے کہ سیکھنے سکھانے کا عمل‘ عرصہ ہو اہم ترک کرچکے ہیں۔ جھوٹ اور فریب جیسی معاشرتی بیماریاں ہمارے اندر کچھ اِس انداز سے سرایت کرچکی ہے کہ کسی بھی معاملے میں ہم نے سچ نہ بولنے کی جیسے قسم کھا رکھی ہو۔ آج کل تو یوں بھی ایسی باتیں کچھ زیادہ ہی سننے میں آرہی ہیں۔ مہنگائی آسمان سے باتیں کررہی ہے، امن و امان کی صورت حال ہرگزرتے دن کے ساتھ بگڑتی جارہی ہے، ادویات کی قیمتوں میں آئے روز اضافہ ہورہا ہے، ایک کے بعد ایک سکینڈل سامنے آرہا ہے، میڈیا کی زبان بندی کے جتن کیے جارہے ہیں،مخالفانہ آوازوں کو خاموش کرایا جارہا ہے، مہنگائی کے ستائے لوگوں کی چیخ و پکار بلند تر ہوتی جا رہی ہے لیکن نوید ہے کہ ملک دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ 74سالوں کے دوران پہلی مرتبہ ملک کی صحیح سمت طے کی گئی ہے ورنہ پہلے والوں کے پاس تو وژن ہی نہیں تھا۔ ایک فوج ظفر موج ہے جو دن رات یہ باتیں قوم کے کانوں میں انڈیلنے میں مصروف ہے لیکن حقیقت کسی کی نظروں سے بھی اوجھل نہیں ہے۔ سچی بات ہے کہ اب تو یہی سب کچھ باقی رہ گیا ہے۔ اعلیٰ ترین سطح سے بھی یہی دعوے سامنے آرہے ہیں کہ حکومت بہت بڑے بڑ ے کام کررہی ہے لیکن معلوم نہیں یہ عوام کو دکھائی کیوں نہیں دے رہے۔وجہ اِس کی یہ بتائی جاتی ہے کہ دراصل حکومت کے کاموں کی تشہیر نہیں ہوپارہی۔ خدا جانے اتنے بڑے بڑے کاموں کو کون سی سلیمانی ٹوپی پہنائی گئی ہے کہ جو دکھائی ہی نہیں دے رہے۔ ہمارے بڑے آج بھی ایوب خان دور کی مثال دیتے ہیں کہ تب ملک میں بہت تیز رفتار ترقی ہورہی تھی۔ ڈیمز بن رہے تھے ، فیکٹریاں لگ رہی تھیں یہاں تک کہ دوسرے ممالک کے ماہرین ہمارے ملک کی ترقی کا راز جاننے کے لیے یہاں آیا کرتے تھے۔ یقینا تب کچھ نظر بھی آ رہا ہوگا جو پوری دنیا دیکھتی ہوگی اور سیکھنے کے لیے یہاں آتی ہو گی۔ معلوم نہیں کہ اب بڑے بڑے کام دنیا کو کیوں دکھائی نہیں دے رہے۔
بیشتر صورتوں میں اقتدار کی مجبوریاں کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ کام کوئی ہورہا ہو یا نہ ہو رہا ہو‘ دعوے بڑے بڑے ہی کرنا پڑتے ہیں۔ عوام کو یہی بتانا ضروری ہوتا ہے کہ ایسی حکومت تو اِس سے پہلے کبھی ملک میں برسراقتدار ہی نہیں آئی۔بھلے حکومت کے سب دعوے درست ہوں‘ وہ کام کر بھی رہی ہولیکن دیکھنا یہی ہوتا ہے کہ اِن سے عام آدمی کو کتنا ریلیف مل رہا ہے۔ عام آدمی کی سب سے بڑی ضرورت روٹی ہے اور اِسی کا حصول اُس کے لیے مشکل تر ہو چکا ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ تین سال پہلے 55 روپے کلو میں فروخت ہونے والی چینی آج 110 روپے فی کلو پہ فروخت ہورہی ہے۔گھی اور کوکنگ آئل کے نرخ تین سال پہلے تک 180 سے 2 سو روپے فی کلو تک تھے جن کے نرخ 340 سے 350 روپے فی کلو تک جاپہنچے ہیں۔ادویات کی بات کریں تو تین سالوں کے دوران مختلف ادویات کی قیمتوں میں تقریباً 40 فیصد تک اضافہ کیا جاچکا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں کم از کم 36 روپے فی لیٹر تک کا اضافہ ہو چکا ہے۔ کس کس بات کا رونا رویا جائے کہ غریب آدمی کے لیے جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنا کتنا مشکل ہوچکا ہے۔ بیس کلو کا آٹے کا تھیلا 1120 روپے میں فروخت ہورہا ہے جو تین سال پہلے تک اِس سے تقریباً نصف قیمت پہ ملتا تھا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ یہاں لوگوں کے لیے بنیادی اشیائے ضروریہ کا حصول مشکل تر ہوچکا ہے لیکن باتیں سنیں تو ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہر طرف بہار ہی بہار چھا چکی ہے‘ زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر پہنچ جانے کے باوجود 124 روپے والا ڈالر 167 روپے کے قریب پہنچ چکا ہے۔ یہ رواں مالی سال کے ابتدائی دوماہ کے دوران آٹھ روپے نو پیسے مہنگا ہوچکا ہے۔بجلی پر سبسڈ ی میں مزید 170 ارب روپے کی کٹوتی کا فیصلہ کیا جاچکا ہے‘ اِس سے پہلے بجلی کی قیمتوں میں 7 مرتبہ اضافہ کیا جاچکا ہے۔ تین سالوں کے دوران گردشی قرضوں میں 110 ارب روپے کا اضافہ ہوچکا ہے۔گڈگورننس کا یہ عالم ہے کہ ایل این جی کی تاخیر سے خریداری کے باعث ملکی خزانے کو ایک بار پھر 25 ارب روپے کا نقصا ن اُٹھانا پڑا ہے۔
ہمیں یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ اِس وقت ہم اخلاقیات کی پست ترین سطح پر ہیں۔ ہمیں یہ بھی ماننا ہوگا کہ بیشتر صورتوں میں صرف باتوں سے کام چلایا جارہا ہے۔ تین سالوں کے دوران چار مرتبہ وزیرخزانہ تبدیل کردیے جائیں تو معیشت کا وہی حشر ہو گا‘ جو ہوچکا ہے۔معیشت ہی کیا‘ کوئی ایک بھی شعبہ ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ جو تنزلی کا شکار نہ ہو۔ وزیراعظم صاحب خود کرکٹ کے اعلیٰ پائے کے کھلاڑی رہے ہیں لیکن اُن کے اپنے دور میں جب کرکٹ کی حالت بہتر نہیں ہوسکی تو دوسرے شعبوں میں بہتری کی امید کس برتے پر رکھی جائے؟
اس ضمن میں یہ دہراتا چلوں کہ جیسے بار ہا پہلے عرض کیا ہے کہ تین سال پہلے بھی ہمارے ہاں کوئی دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہتی تھیں لیکن حالات اتنے بھی خراب نہیں تھے۔ پیشہ ورانہ اُمور کی انجام د ہی کے دوران روزانہ کی بنیاد پر درجنوں لوگوں سے میل ملاقات رہتی ہے۔ یقین جانیے کہ اُن کے حالات سن کر رونا آتا ہے کہ وہ کس طرح جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔چھوڑیں اُن کو جو چور تھے‘ تسلیم کہ اُنہوں نے اور ان کے غلط پالیسیوں نے ملک کو اس نہج تک پہنچایا ہے لیکن آپ ہی کچھ ایسا کرلیں کہ ملک کا بیڑہ دوبارہ تیرنے لگے۔ اگر مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی اہلیت نہیں ہے تو کم از کم گورننس میں ہی بہتری لے آئیں۔ روٹی نہیں دے سکتے تو انصاف کے نظام میں ہی بہتری لے آئیں۔ قدم قدم پر دوسروں کے فراڈ کا نشانہ بننے والے داد رسی کے لیے خوار ہو رہے ہیں۔ حقدار کو اپنا حق حاصل کرنے کے لیے کئی دہائیوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ مقدمات بھگتتے بھگتتے وہ کنگال ہوکر رہ جاتا ہے۔ بظاہر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب اِسی طرح چلتا رہے گا،لوگ لٹتے رہیں گے لیکن کہیں بھی اُن کی داد رسی نہیں ہوسکے گی۔ تین سال ہو چلے ہیں‘ اب تک کسی ایک شعبے میں بھی بہتری دکھائی نہیں دے رہی۔ ادویات سکینڈل کے ذمہ دار سلاخوں کے پیچھے گئے نہ چینی چوروں کو اُن کے کیے کی سزا مل سکی اور اوپر سے مہنگائی اور بیڈ گورننس کا عذاب الگ سے بھگتنا پڑرہا ہے۔ اِن حالات میں بھی دعویٰ ہے ملک کو صحیح پٹری پر ڈال دینے اور عام آدمی کی زندگی کو تبدیل کر دینے کا۔ جب لوگوں کو جان کے لالے پڑے ہوں‘ تب یہ دعوے کرنا کہ حکومت بڑے بڑے کام کررہی ہے تو ایسی باتوں سے دھول ہی اڑے گی، کوئی تحسین تو ہو گی نہیں۔اگر کوئی بڑے کام ہوئے ہیں تو پھر اُن کی تفصیل بتانی چاہیے تھی تاکہ خوابیدہ قوم کی آنکھیں کھلتیں جو فی الحال تو اشک ہی بہاتی دکھائی دے رہی ہیں۔ حکومت گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی فروخت میں اضافے کی بنیاد پر عام آدمی کی خوشحالی کا کریڈٹ لے رہی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا ''خوشحال‘‘ آدمی موٹر سائیکل خریدتا ہے؟ اسے تو غریب کی سواری کہا جاتا ہے، اور گاڑیاں اگر خرید رہے ہیں تووہی جن کے پیٹ پہلے سے بھرے ہیں۔ عام آدمی کا تو یہی رونا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں طبقاتی تقسیم میں اضافہ ہو رہا ہے، سرمایہ دار طبقے کو امپورٹ‘ ایکسپورٹ پر ٹیکس چھوٹ دی جا رہی ہے جبکہ غریب کو ملنے والی سبسڈی ختم کی جا رہی ہے۔
معلوم نہیں کس نے ہمیں ایسی ٹرین پر چڑھا دیا ہے کہ جو بدعنوانی کی پٹری پر بگٹٹ بھاگی چلی جارہی ہے۔کچھ سمجھ میں نہیں آرہا کہ یہ ٹرین آخر کہاں جا کر رکے گی۔ صرف تین سالوں کے دوران 13 ہزار ارب روپے کے قرضے لیے جانے کے باوجود کوئی بڑا منصوبہ مکمل نہیں کیا جاسکا‘ بس باتیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ زبان بندی کے لیے اگرچہ بہت سے حربے استعمال ہونا شروع کیے جاچکے ہیں لیکن پھر بھی اتنی سی عرض ضرور کریں گے کہ لوگ ملک کے حالات دیکھ کر اب پچھلوں کو‘ ان کی مبینہ کرپشن کے باوجود‘ یاد کرنا شروع ہوچکے ہیں۔ نیز یہ بھی عرض کرنا چاہتے ہیں کہ لنگر خانوں اور پناہ گاہوں وغیرہ کے علاوہ ایسا کچھ دکھائی نہیں دے رہا جس سے عام آدمی کو ریلیف ملا ہو۔ جب اتنی ساری پریشانیوں کے باوجود یہ دعوے کرنا شروع کر دیے جائیں کہ بڑے بڑے کام ہورہے ہیں تو ایسی باتوں پر یقین کون کرے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں