"FBC" (space) message & send to 7575

قانون پسندوں کے دیس میں

بلند بانگ نعروں میں قانون کی حکمرانی کے جو دعوے کیے جاتے تھے، اب اُن کے نتائج سامنے آنا شرو ع ہوگئے ہیں۔ 126 دنوں کے دھرنے میں جہاں ہم سے ایک کروڑ نوکریاں دینے‘ پچاس لاکھ گھر بنانے ، بیرونی ممالک کے بینکوں میں موجود2سو ارب ڈالر لا کر دینے کے سبز باغ دکھائے گئے‘ وہیں نوے دنوں میں نہ صرف کرپشن کا خاتمہ کرنے کا اعلان کیا گیا بلکہ قانون کی حکمرانی کا خواب بھی دکھلایا گیا۔ اب ان دعووں اور وعدوں کے نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور ملک تیزی کے ساتھ ہرشعبہ ہائے زندگی میں ''ترقی‘‘ کررہا ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی نئی رپورٹ کے مطابق ہمارا ملک قانون کی حکمرانی کے اعتبار سے139ممالک میں سے 130ویں نمبر پر کھڑا ہے۔ قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کے لیے اتنی تیز رفتار پیش رفت وہی حکمران یقینی بنا سکتے تھے جن کے دور میں لوگ دوسرے ممالک سے نوکریوں کے لیے پاکستان آنا شروع ہوچکے ہیں۔ جن کے ساڑھے تین سالہ دور میں کوئی ایک بھی سکینڈل سامنے نہیں آیا، جن کے دور میں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی رہے ہیں، جن کے دور میں ہر طرف دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہوچکی ہیں، جن کے دور میں بجلی اور پٹرول کے نرخوں میں اضافے کی رِیت ختم کر دی گئی ہے، جو آئی ایم ایف کے پاس جا کر ملکی آزادی گروی رکھنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اس شانداردور میں ترقی تو بہت ہورہی ہے لیکن آنکھیں رکھنے کے باوجود عوام اِس ترقی کو دیکھ نہیں پارہے۔ اس دور میں سابق حکومت کی نسبت تین گنا زیادہ شاہراہیں اور موٹر ویز بنائی گئی ہیں، بدعنوان اور کرپٹ مافیاز کے وجود کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا ہے، سی پیک سمیت تمام جاری ترقیاتی منصبوے پہلے سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے مکمل ہورہے ہیں، مہنگائی کا جڑ سے خاتمہ کردیا گیا ہے اور عوام کو ہر چیز سستے داموں مل رہی ہے۔ اگر کوئی کسر باقی رہ گئی ہے تو عوام کو گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ وزیراعظم صاحب نے ہدایت کردی ہے کہ فی الفور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے نیا سبسڈی پروگرام لایا جائے۔ اسی دورِ حکومت میں جادو کی ایسی چھڑی گھمائی گئی ہے کہ قانون کی حکمرانی کے حوالے سے خطے میں صرف افغانستان ہی ہم سے کچھ پیچھے رہ گیا ہے۔ افسوس کہ سب خواب نہ صرف یہ کہ خواب ہی رہے بلکہ ان کی تعبیر بھی اب ہمارے وہم و گمان میں نہیں رہی۔ امیدوں کا شیرازہ ہے کہ بکھرتا چلا نہیں جارہا بلکہ بکھر چکا ہے۔ لے دے کے ایک یہی توقع تھی کہ اگر مہنگائی حکومتی کنٹرول سے باہر ہے، عالمی وجوہات ، کورونا اور انٹرنیشنل مارکیٹ کی وجہ سے چیزیں مہنگی ہو رہی ہیں تو اور کچھ نہیں‘ کم از کم قانون کی بالادستی کوہی یقینی بنا دیا جائے گا۔ آخر کچھ تو ایسا ہونا چاہیے جسے آئندہ انتخابی مہم کے دوران عوام کے سامنے پیش کیا جاسکے۔ افسوس کہ یہ توقع بھی پوری نہ ہو سکی۔
ورلڈ جسٹس پروجیکٹ دنیا کا ایک ایسا معتبر ادارہ ہے جو دنیا کے مختلف ممالک پر اِس حوالے سے نظر رکھتا ہے کہ وہاں قانون کی حکمرانی کی کیا صورتِ حال ہے۔ یہ ادارہ قانون کی حکمرانی کا معیار 8نکات کے مطابق طے کرتا ہے۔ اِن نکات میں یہ پیش نظر رکھا جاتا ہے کہ کسی ملک میں حکومتی اختیارات کی کیا صورتِ حال ہے، شفاف حکمرانی کا تصور کس حد تک پایا جاتا ہے، عوام کو بنیادی حقوق حاصل ہیں یا نہیں۔ غیرجانبدارانہ احتساب ہوتا ہے یا نہیں، امن و امان کی صورتِ حال کیسی ہے اور یہ کہ وہاں عدالتی نظام عوام کو انصاف فراہم کرنے میں کس حد تک کامیاب ہورہا ہے۔ گزشتہ حکومتوں کے دوران ہماری رینکنگ‘ کم از کم آج جیسی پستی کا شکار نہیں تھی۔ اب سامنے آنے والی رپورٹ نے تو تمام برتن ہی اُلٹے کردیے ہیں۔ حالیہ رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان میں بنیادی انسانی حقوق نہ ہونے کے برابر ہیں، ادارے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہیں، سلامتی اور امن و امان کی صورتِ حال مخدوش ہے، نگران ضابطوں کا نفاذ نہ ہونے کے برابرہے اور کرپشن بہت زیادہ ہے۔ یہ سب کچھ اُس ملک میں ہورہا ہے جہاں کی برسرِ اقتدار جماعت آئی ہی اِس دعوے پر تھی کہ وہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنائے گی لیکن عملی میدان میں جو کچھ کیا گیا ہے‘ وہ اس رپورٹ کی صورت میں سب کے سامنے ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ کے مطابق قانون کی حکمرانی کے حوالے سے حسبِ معمول اِس مرتبہ بھی سیکنڈے نیوین ممالک ہی سرفہرست ہیں۔ یہ افسوس کی بات نہیں تو اورکیا ہے کہ ہمارا دین سب سے زیادہ زور انصاف پر دیتا ہے، قرآن مجید ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اگر ہمارا کوئی سخت مخالف بھی ہمارے مقابل ہو‘ تب بھی عدل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے مگر اس کے باوجود قانون کی حکمرانی اور عدل و انصاف کی فراہمی میں مسلم ممالک دور دور تک نظر نہیں آتے۔ اس فہرست میں پہلا مسلم ملک متحدہ عرب امارات ہے جو 37ویں نمبر پر ہے۔ رہی بات ہماری تو قانون کی حکمرانی کے حوالے سے نیپال، بھارت، سری لنکا، مالدیپ، برما اور بنگلہ دیش‘ سب کے سب ہم سے آگے ہیں اور کافی نمایاں فرق کے ساتھ ہم سے آگے ہیں۔ شاید مرحوم منیرنیازی سچ ہی کہا کرتے تھے کہ
منیرؔ اِس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کے کام پر نہیں محض دعووں پر نظر رکھی جائے۔ محض حکمرانوں کی بات نہیں‘ قانون کے رکھوالوں کی باتیں سنیں تو بھی یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہاں شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے ہیں حالانکہ لوگ ناکردہ گناہوں کی سزا میں دہائیوں تک جیلوں میں بند رہتے ہیں اور پھر اُنہیں بے گناہ قرار دے کر معذرت کرلی جاتی ہے۔ ملک بھر کی عدالتوں میں ہزاروں نہیں لاکھوں مقدمات فیصلوں کے منتظر ہیں اور وہ افراد بھی جن کی قسمت اِن مقدمات سے جڑی ہوئی ہے۔ کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ ہم اپنے گریبان میں جھانکیں؟ اب دعووں سے گریز کرتے ہوئے کچھ عمل کرکے دکھایا جائے۔ ہم خم ٹھونک کر کہتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے انکار ہے مگر عملی صورتحال سب کے سامنے ہے۔
'سماجی انصاف، معاشی انصاف، معاشرتی انصاف‘؛ یہ حکمران جماعت کا منشور اور سلوگن ہے، آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ جماعت اپنے سلوگن پر کس حد تک عمل پیرا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہم ایسی رپورٹس سے کچھ سیکھنے کے بھی روادار نہیں ہیں۔ انصاف تو کسی بھی معاشرے کی بقا کا سب سے اہم جزو گردانا جاتا ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ حکومتیں کفر پر تو قائم رہ سکتی ہیں لیکن ناانصافی اور ظلم پر نہیں۔ اگر ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے رول آف لا انڈیکس برائے 2020ء کا جائزہ لیا جائے تو علم ہوتا ہے کہ 128ممالک میں پاکستان 120ویں نمبر پر تھا، 2015ء کے انڈیکس میں 102 ممالک کی فہرست میں انصاف کی دستیابی کے حوالے سے درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر 98واں تھا۔ 2017-18ء میں 113 ممالک میں ہمارا نمبر 105واں تھا۔ یعنی ہم اب بھی اسی پوزیشن پر کھڑے ہیں بلکہ شاید کچھ تنزلی آئی ہے۔ اندازہ لگائیے کہ گھانا اور ہنڈراس جیسے ممالک بھی اپنے شہریوں کو انصاف کی فراہمی میں ہم سے آگے ہیں۔یوگنڈا، نائیجریا اور ایتھوپیا جیسے انتہائی غیر ترقی یافتہ ممالک بھی ہم سے اوپر کھڑے ہیں۔ اب اس پر مزید کیا کہا جا سکتا ہے؟ حکومتوں کی عمومی روش ہوتی ہے کہ وہ ایسی رپورٹس پر تنقید کر کے سب اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر ان رپورٹس سے ہٹ کر آپ معاشرے میں ہی دیکھ لیجئے کہ انصاف کی فراہمی کی کیا صورتحال ہے۔ کیا یہ امر کوئی ڈھکا چھپا ہے کہ ہمارے ہاں تھانوں کچہریوں میں کیا ہوتا ہے؟ بہت سے باتیں تو واضح ہیں، یہ الگ بات کہ ہم انہیں غیروں کی سازشوں کا نتیجہ کہہ کر ان کو پس پشت ڈال دیتے ہیں وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ یہی رپورٹس ہمارے معاشرے کا مجموعی چہرہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں