"FBC" (space) message & send to 7575

ہمیشہ کی طرح ناخوشگوار صورتِ حال

1947ء سے لے کر اب تک‘ کتنی دہائیاں گزر گئیں لیکن ملکی سیاست میں استحکام کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ آج بھی ملکی سیاست میں وہی ہلہ گلہ جاری ہے جو ہمیشہ سے رہا ہے۔ نہ اخلاقیات کا کوئی پاس ہے نہ ملکی ساکھ کا کوئی دھیان۔ ''وہ کرپٹ ہے، وہ چور ہے، وہ چوہا ہے، سب کو ایک گیند سے شکار کیا جائے گا‘‘۔ جواب آں غزل کے طور پر دوسری طرف سے بھی ایسے ہی جملوں کا کثرت سے استعمال ہورہا ہے۔ اُن رہنماؤں کی زبانیں شعلے اُگل رہی ہیں جنہیں قوم کی رہنمائی اور تربیت کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ کوئی دھیان نہیں کہ امریکی کانگریس میں ایسا بل پیش کیا جاچکا ہے جس کے منظور ہونے کی صورت میں پاکستان پر انتہائی تکلیف دہ پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ بل میں واضح طور پر ملک عزیز کو دہشت گردی کی سرپرست ریاست قرار دینے کی بات کی گئی ہے۔ خاکم بدہن اگر یہ بل پاس ہوجاتا ہے تو ہمارے ملک پردفاعی آلات کی درآمد و برآمدت سمیت متعدد پابندیاں عائد ہوسکتی ہیں جن میں معاشی پابندیاں بھی شامل ہوں گی۔ گویا بل منظور ہونے کی صورت میں ہم ایران، کیوبا، شمالی کوریا اور شام جیسے ممالک کی فہرست میں شامل ہوجائیں گے‘ جو پہلے ہی ایسی پابندیوں کی زد میں ہیں۔ دوسری طرف ہماری بھرپور کوششوں کے باوجود فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) نے پاکستان کو بدستور گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگرچہ ہم نے ایف اے ٹی ایف کی شرائط کو پورا کرنے کی حتی الامکان کوششیں کی ہیں اور کئی عالمی ادارے اس فیصلے کو سیاسی فیصلہ قرار دے رہے ہیں مگر بات تبھی بنے گی جب ہم گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیابی حاصل کرپائیں گے۔ لاکھ یہ دعوے کرتے رہیں کہ ہم نے ایف اے ٹی ایف کی طرف سے دیے گئے تمام اہداف پورے کرلیے ہیں‘ لاکھ اپنے دشمن ممالک کو اس صورتحال کا ذمہ دار ٹھہراتے رہیں‘ اِس سب کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا۔ یہ بھی ابھی کی بات ہے کہ نیویارک میں ہمارے ایک بینک پر منی لانڈرنگ کے ضوابط کی خلاف ورزی کے الزا م میں 55ملین ڈالر جرمانہ عائد کیا گیا۔ غالباً یہ ہمارے ایسے ہی بیانیوں کا شاخسانہ ہے کہ فلاں شخص ملک سے دولت لوٹ کر لے گیا اور فلاں نے اتنی رقم غیرقانونی ذرائع سے بیرونِ ملک منتقل کی۔
ہم نے خود ہی اپنے آپ کو اتنا بدنام کرلیا ہے کہ کوئی ہمارا یقین کرنے کے لیے تیاردکھائی نہیں دے رہا۔ جب حکومت اور اپوزیشن کی صفوں سے ایک دوسرے پر چور‘ چور کے الزامات سنائی دیں گے تو پھر دوسرے ہمیں یہی کچھ سمجھیں گے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ ملکی سیاسی تاریخ کا کوئی بھی ورق پلٹ کر دیکھ لیں‘ کم و بیش ایک جیسے حالات دکھائی دیں گے۔ ایک دوسرے پر الزامات کی بھرمار اور خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی کوششیں۔ کیسی بدقسمتی ہے کہ قیام پاکستان کے ابتدائی سالوںکے دوران ہی یہ تمام سلسلہ شروع ہوگیا تھا‘ جو ہنوز جاری ہے۔ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی لیکن یہاں حکومتوں کو ہمیشہ اپنی بقا کے لالے پڑے رہے۔ اِن حالات میں برسرِاقتدار جماعتیں عوامی مسائل کی طرف کیا توجہ دیں گی؟ اُنہیں تو ہر وقت یہی خدشہ لاحق رہتا ہے کہ جانے کب اُن کا سنگھاسن ڈولنا شروع ہوجائے۔
ملک کے پہلے صدر اسکندر مرزا نے منصبِ صدارت سنبھالنے کے لیے جو پاپڑ بیلے وہ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ اس کے بعد جیسے اُنہیں 'ملکی مفاد‘ میں معزول کرکے بیرونِ ملک بھجوایا گیا‘ وہ بھی تاریخ کے پنوں میںمحفوظ ہے۔ اِس سے پہلے جو کچھ ہوتا رہا ‘ اُسے بیان کرنا بھی ہرگز فخر کی بات نہیں ہے لیکن اِس واقعے کے بعد تو ٹرین ایسی پٹڑی سے اُتری کہ آج تک ٹریک پر واپس نہیں آسکی۔ اسکندرمرزا کو معزول کرنے والے ایوب خان نے رختِ سفر باندھا تو اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر دیا۔ موصوف کے دور میں ملک دولخت ہوا اوربھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کو نظریۂ پاکستان کے حوالے سے دل کی بھڑاس نکالنے کا بھرپور موقع ملا۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی صورت میں ایک ایسی حکومت آئی جو بظاہر تو جمہوری تھی مگر جمہوریت کا گلا گھونٹنے میں اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی‘ نتیجہ وہی نکلا جو ان حالات میں نکل سکتا تھا۔ ملک دوبارہ ''میرے عزیز ہم وطنو!‘‘ کی بازگشت کی نذر ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو سے لاکھ اختلافات ہوسکتے ہیں لیکن بہرحال وہ عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آئے تھے لیکن جہاں طاقت کی زبان بولتی ہے‘ وہاں ووٹوں کی زبان بند ہوجاتی ہے۔ ہماری تاریخ کا یہ باب بھی انتہائی افسوس نا ک تھا۔
ملکی تاریخ کا شاید ہی کوئی ایسا باب ہوگا جسے ہم فخریہ طور پر بیان کرسکتے ہوں‘ ورنہ ایک جیسی باتیں اور ایک جیسے بیانات ہی ہمارا مقدر بن چکے ہیں۔ ہم خود ہی کوئی غلط کام کرتے ہیں اور پھر اُس کے مضمرات سے نمٹنے کی سعی شروع ہوجاتی ہے۔ جس شخص کو ملکی سیاست سے مائنس کرنے کے لیے اَن گنت پاپڑ بیلے گئے‘ آج وہ ایک مرتبہ پھر سیاسی طور پر انتہائی اہمیت کا حامل ہوچکا ہے۔ پہلے اُسے نکالنے کے لیے پاپڑ بیلے گئے‘ پھر اعتماد کی فضا بحال کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اِس تمام صورت حال کا وہی نتیجہ نکلا‘ جو نکل سکتا تھا۔ جوکچھ بھی حاصل حصول ہے‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ کوئی ایک شعبہ ایسا نہیں بچا جو اِس صورت حال کے مضمرات سے محفوظ رہ سکا ہو۔ عوام کا حال دیکھ لیں‘ ہرکوئی روتا ہوا ہی دکھائی دے گا۔ صدیوں پہلے کسی نے کہا تھا کہ ''ڈھڈ نہ پئیاں روٹیاں تے سبھے گلاں کھوٹیاں‘‘ مطلب اگر پیٹ میں روٹی نہ ہو تو سب باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ آج کسی سے بھی پوچھ لیں کہ دوجمع دو کتنے ہوتے ہیں‘ وہ کہے گا: چار روٹیاں۔ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف عام آدمی کے لیے آجا کے وہی طفل تسلیاں ہیں جو ہمیشہ اُس کا مقدر رہی ہیں۔ ایک آس‘ اُمید تھی کہ موجودہ حکومت انتخابی مہم کے دوران کیے گئے اپنے وعدے پورے کرے گی اور عام آدمی کی حالت میں نمایاں بہتری آسکے گی لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ یہ اِسی صورت حال کا نتیجہ ہے کہ وعدے تو پورے نہ ہوسکے اور اب مخالفین پر طعنہ زنی کرکے ''فیس سیونگ‘‘ کی جارہی ہے۔ حکومت کے لیے احسن بات یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنی کارکردگی پر بات کرے لیکن شاید موجودہ حکومت کے پاس اِس حوالے سے کہنے کو کچھ زیادہ نہیں‘ سو لفاظی کا سہارا لیا جارہا ہے۔ اپوزیشن کا حال بھی زیادہ مختلف نہیں ہے۔
ایک دوسرے پر ا لزامات کا ایسا طومار باندھا جارہا ہے کہ جیسے کسی گلی کے بچے ایک دوسرے سے نبردا ٓزما ہوں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ سیاسی منظر نامہ دیکھ کر عوام اپنے اپنے رہنماؤں کی پیروی نہ کریں؟ سو اِسی چکر میں نفرتوں کا یہ کاروباری عوامی سطح پر منتقل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف انتہائی ہتک آمیز ریمارکس ظاہر کررہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے کارکنان ایک دوسرے کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ اُنہیں اِس طرف راغب کرنے میں اُن کے رہنماؤں کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اب بھی اس آگ کو بجھانے کی کوئی کوشش نہیں کی جا رہی‘ سو ملکی حالات روز بروز بگڑتے جارہے ہیں۔ اِس وقت سب کا مقصد ایک ہی ہے کہ فلاں کو نہیں چھوڑنا‘ فلاں کو سبق سکھانا ہے۔ ہماری یہی باتیں بیرونی دنیا میں بھی ہمارے تشخص کو مزید مجروح کررہی ہیں۔ ہم خود دوسروں کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ ہمارے خلاف بل پیش کریں۔ ہم خود دوسروں کو موقع دے رہے ہیں کہ وہ ہمیں ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں برقرار رکھیں۔ سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اپنی کرنی کے لیے ہم ہمیشہ دوسروں کو کیوں موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ہمیں اپنی غلطیوں کو بھی کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے۔ ہمیں اپنے گریبان میں بھی جھانک کر دیکھنا چاہیے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسا کبھی نہ ماضی میں ہوا اور نہ ہی آئندہ ہونے کے امکانات نظر آرہے ہیں۔ گویا ''وہی چال بے ڈھنگی سی‘ جو پہلے تھی سو اب بھی ہے‘‘ والا ہی معاملہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں