"FBC" (space) message & send to 7575

اِسے قومی مفاد کا نام مت دیں

یہ قومی مفاد بھی کیا کمال کی چیز ہے جو ہمیں ہمیشہ کچھ بھی کرگزرنے کا شاندار جواز فراہم کرتا ہے۔ آئین سے کھلواڑ کرنا ہو یا کسی آمر کو راستہ مہیا کرنا ہو‘ مختلف پابندیاں عائد کرنا ہوں یا پھر کسی کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلنا ہو‘ ''قومی مفاد‘‘ ہمیں سب کچھ کرنے کی بھرپور اجازت فراہم کرتا ہے‘ بس آپ کا طاقتور ہونا ضروری ہے۔ ہم نے وہ وقت دیکھا تو نہیں لیکن سنا بہت ہے جب قومی مفاد کے نام پر مادرِ ملت کا خطاب حاصل کرنے والی محترمہ فاطمہ جناح تک کو غداروں کی فہرست میں ڈال دیا گیا تھا۔ یہ 1965ء کے صدارتی انتخابات کا موقع تھا جب ایک آمر ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناح ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ طاقت چونکہ ایوب خان کے ہاتھ میں تھی‘ سو مادرِ ملت کے ساتھ کیا کچھ نہ ہوا۔ حسبِ روایت تب کے بیشتر سیاسی خانوادے اور بااثر افراد طاقتور کے ساتھ تھے۔ شنید ہے کہ تب سوائے پیر صفی الدین کے‘ پنجاب کے بیشتر سجادہ نشینوں نے اپنی تمام تر طاقت ایوب خان کے پلڑے میں ڈال دی تھی۔ ایک پیر صاحب نے حضرت علی ہجویریؒ کے مزار پر مراقبہ کرنے کے بعد اعلان کیا کہ اُنہیں داتا صاحب نے ایوب خان کی حمایت کرنے کا حکم دیا ہے۔ ملک کے لگ بھگ سبھی جاگیرداروں کا وزن بھی ایوب خان کے پلڑے میں تھا۔ تب ایوب خان نے اپنے ہی بنائے ہوئے آئین میں یہ شق بھی شامل کر رکھی تھی کہ اپنے جانشین کے انتخاب تک وہ صدر رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اقتدار پر براجمان ایک شخص کے لیے تمام ریاستی مشینری بھرپورطریقے سے استعمال کی گئی اور یہ طریقہ آج بھی پورے زور و شور سے جاری ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھیوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کیے گئے۔ تب مادرِ ملت کے ساتھ اور کیا کچھ ہوتا رہا‘ پھر کبھی تفصیل سے اس پر بات کریں گے‘ قصہ مختصر یہ کہ صدر ایوب خان بھاری اکثریت سے انتخاب کامیاب ہو گئے۔
آنے والے ادوار کے دوران بھی ''قومی مفادات‘‘ کا یہ کھیل بھرپور طریقے سے کھیلا جاتا رہا۔ ایک اور آمر برسر اقتدار آیا تو اُس نے قومی مفاد کے پیش نظر سیاسی قوتوں کا زور توڑنے کے لیے کراچی میں ایک لسانی تنظیم کھڑی کر دی۔ اِس تنظیم کا قیام عمل میں آنے کے بعد جو کچھ اہلِ کراچی کے ساتھ ہوا‘ اُس کے تذکرے دہائیوں تک ہوتے رہیں گے۔ اِن صاحب نے قومی مفاد کے نام پر پورے ملک کو ایسی آگ میں جھونک دیا جو آج بھی اہلِ وطن کو جلا رہی ہے۔ ایک بڑی طاقت کو شکست دینے کے نام پر اپنا اقتدار مضبوط کیا‘ بے شمار دولت کمائی‘ ملک کے آئین کو چوں چوں کا مربہ بنا دیا‘ آوازِ حق بلند کرنے والے صحافیوں کو کوڑے مارے‘ ملک کے ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی پر چڑھایا۔ یہاں تک کہ مضبوطیٔ اقتدار کے لیے مذہب کو بھی نہ بخشا۔ اِن صاحب کا 19 دسمبر 1984ء کو منعقد کرایا گیا صدارتی ریفرنڈم مرتے دم تک یادداشتوں سے محو نہیں ہو سکتا۔ ریفرنڈم کے دوران عوام سے پوچھا گیا کہ وہ اسلامی نظام چاہتے ہیں یا نہیں؟ اب بھلا کون سا ایسا مسلمان ہے جو یہ کہے کہ وہ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ نہیں چاہتا۔ اگر تو آپ ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے ہیں تو پھر میں پانچ سال کے لیے ملک کا صدر ہوں۔ تب بے شمار احباب نے اپنے بچوں کو پولنگ سٹیشنز پر لے جاکر اِس بات کی خوب پریکٹس کرائی تھی کہ ووٹ کیسے کاسٹ کرتے ہیں۔ سائیں سائیں کرتے ہوئے پولنگ سٹیشنز سے بھی بھاری تعداد میں ضیاء الحق کی حمایت میں مہریں لگے بیلٹ پیپرز نکلے تھے۔ ہر کوئی یہ جانتا تھا کہ یہ کارنامہ مقامی ایس ایچ اوز نے انجام دیا تھا۔ ڈاکٹر عائشہ جلال نے اپنی کتاب ''دی سٹرگل فار پاکستان‘‘ میں اِس ریفرنڈم کے حوالے سے لکھا کہ کراچی سے خیبر تک عوام نے اِس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا، اِس ملک گیر بائیکاٹ سے یہ تاثر مضبوط ہوا کہ عوام نے آمر کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں فیصلہ سنایا ہے۔ یہ سب کچھ بھی ''قومی مفاد‘‘ کے نام پر ہوتا رہا۔ غیر آئینی طریقے سے اقتدار میں آئے شخص نے جس طرح چاہا‘ ملکی آئین کو پامال کیا۔
یہ تو صرف دو مثالیں ہیں‘ ورنہ تو یہاں اپنے جس بھی مخالف کو ملیامیٹ کرنا مقصود ہوا، اُسے سب سے پہلے 'غدار‘ کے لقب سے نوازا گیا اور پھر ''قومی مفاد‘‘ کے نام پر اُس کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ اِس میں صرف آمرانہ حکومتیں ہی نہیں بلکہ کئی سیاسی و جمہوری حکومتیں بھی پیش پیش رہیں۔ ہماری تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ زیادہ پیچھے کیا جانا‘ اِن دنوں بھی قومی مفاد کے نام پر کیا کچھ نہیں ہو رہا؟ جب تحریک انصاف کے غبارے میں ہوا بھری گئی‘ تب اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا‘ ہر وہ حربہ استعمال کیا گیا جس سے برسر اقتدار حکومت مفلوج ہو سکے۔ تب جو برسر اقتدار تھے‘ اُنہیں سکیورٹی رسک قرار دیا گیا۔ ایک ہمسایہ ملک کا وزیراعظم ہمارے وزیراعظم سے ملنے آیا تو آسمان سر پر اُٹھا لیا گیا۔ ہمارے اُس وقت کے وزیراعظم پر بھی غداری کے الزامات لگائے جانے لگے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب ''محب وطن‘‘ برسر اقتدار آئے تو اُنہوں نے ہمسایہ ملک سے بات چیت کرنے کے لیے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلے۔ جب ایک شخص خود چل کر ہمارے ملک میں آیا تو ہم نے اپنے ہی ملک کے وزیراعظم کو سکیورٹی رسک قرار دینا شروع کر دیا اور بعد میں اُس سے مذاکرات کے لیے پاپڑ بیلتے رہے۔ یہ سب کچھ ''قومی مفاد‘‘ میں ہی ہوتا رہا۔ اِس سے پہلے جب اٹل بہاری واجپائی بس میں بیٹھ کر پاکستان آئے اور مینارِ پاکستان گئے تو اُن کی طرف سے واضح طور پر یہ قرار دیا گیا کہ پاکستان ایک حقیقت ہے جسے وہ تسلیم کرتے ہیں۔ اُن کے اِس دورے کے دوران اور بعد میں جو کچھ ہوا‘ وہ بھی اب تاریخ کا حصہ ہے‘ اس بابت تفصیل سے اس لیے نہیں لکھا جا سکتا کہ اِیسی صورت میں ''قومی مفادات‘‘ کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
قومی مفادات کا یہی کھیل کھیلتے کھیلتے ہم آج دیوالیہ پن کے کنارے پر پہنچ چکے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پاکستانی پاسپورٹ دنیا کے کمزور ترین پاسپورٹس کی فہرست میں شمار کیا جا رہا ہے۔ قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت ہوچکا ہے۔ لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے، ایک طرف انڈسٹری بند ہو رہی ہے‘ لوگ بیروزگار ہو رہے ہیں تو دوسری طرف مہنگائی الگ سے عوام کی چیخیں نکلوا رہی ہے۔ کرپشن کے اعتبار سے بھی پاکستان کو دنیا کے انتہائی بدعنوان ممالک کی فہرست میں شامل کیا جا رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ فراہمیٔ انصاف کے حوالے سے بھی ہم 128 ممالک کی فہرست میں 120ویں نمبر پر کھڑے ہیں۔ قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ بھارت، نیپال اور سری لنکا جیسے ممالک بھی فراہمیٔ انصاف کے حوالے سے ہم سے کہیں آگے ہیں۔ معلوم نہیں کہ اِس ملکی صورت حال کو کیا نام دیا جائے اور اِس پر رویا جائے یا ہنسا جائے۔ ایک طرف ملک کی یہ حالت ہے اور دوسری طرف ''ملکی مفاد‘‘ کی خاطر تمام کی تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما ہیں۔ ایک ہڑبونگ مچی ہوئی ہے کہ بس کسی طرح سے اقتدار حاصل کر لیا جائے۔ اگر صرف پنجاب کی بات کی جائے تو پچھلے تین ماہ سے انتہائی غیر یقینی کی سی صورت حال ہے۔ پہلے چودھری پرویز الٰہی حمزہ شہباز کے حلف اٹھانے میں رکاوٹیں ڈال رہے تھے، اب شہباز شریف حکومت نے وہی حربے استعمال کیے۔ سرکاری ٹی وی تک پر اس اہم تقریب کی کوریج نہیں کی گئی۔ آئین میں سب کچھ واضح ہے لیکن اِس کے باوجود کچھ وقت گزرنے کے بعد کوئی نہ کوئی نیا آئینی بحران پیدا کر دیا جاتا ہے اور ہماری عدالتیں اس میں اُلجھ جاتی ہیں۔ ہر روز اراکینِ اسمبلی کی بولیاں لگتی ہیں۔ آئین کے ساتھ کھلواڑ کیا جاتا ہے اور پھر یہ دعویٰ بھی کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ ''قومی مفاد‘‘ کا تقاضا ہے۔ میں بس یہی اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ آپ سب اقتدار کا کھیل جس طریقے سے جی چاہے‘ کھیلیں لیکن خدارا! اِسے قومی مفاد کا نام ہرگز مت دیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں