"FBC" (space) message & send to 7575

اگر اب بھی سنجیدہ نہ ہوئے تو…

13 جنوری 1948ء کو بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اسلامیہ کالج پشاور میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ''ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے بنیادی اصولوں کو آزمایا جا سکے‘‘۔ اِس بات کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں کہ ہمارا ملک اسلام کی تجربہ گاہ بنا یا نہیں؛ البتہ یہاں دیگر ایسے بے شمار تجربات کیے گئے اور مسلسل کیے جا رہے ہیں جن کی وجہ سے حالات اس نہج کو پہنچ چکے ہیں کہ آج لاکھوں پاکستانی غیر ملکی سفارتخانوں کے سامنے ویزے کے حصول کے لیے کھڑے ہیں۔ تلخ ترین حقیقت یہ ہے کہ ہم نے وقتی مفادات کے لیے مذہب کے استعمال سے بھی گریز نہیں کیا۔ افغانستا ن پر سوویت یونین کا حملہ ہوا تو اِس کی مزاحمت کرنے کے لیے جو کچھ کیا گیا وہ آج تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ دوسرے ملک کی جنگ کو دعوت دے کر اپنے ملک تک لایا گیا اور ہمارا وطن آج تک اُس دور کے اقدامات کا خمیازہ بھگت رہا ہے۔ یہی وہ دور تھا جب ایک طرف مختلف تنظیموں کو اسلحہ تھما کر اور منشیات کے ذریعے فنڈنگ سے ان کی آبیاری کی جا رہی تھی تو دوسری جانب ملک کے سابق وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ حسب روایت اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے آئین و قانون کے ساتھ وہ کھلواڑ کیا گیا کہ خدا کی پناہ۔ اس دور کا خاتمہ ہوا تو ہمارے دامن میں منشیات اور کلاشنکوف کلچر کے سوا کچھ نہ تھا۔ جیسے تیسے جمہوریت بحال ہوئی تو امید تھی کہ سیاسی جماعتیں بالغ نظری کا مظاہرہ کریں گی اور ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کریں گی مگر جمہوریت بحال ہونے سے بھی جمہور کی زندگی میں کوئی فرق نہ پڑ سکا اور جمہوریت کے نام پر بلی چوہے کا کھیل شروع ہو گیا، اگر ایک جماعت انتخابات میں جیت کر اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہوتی تو سال‘ ڈیڑھ سال بعد ہی ہلچل شروع ہو جاتی اور دوسری جماعت اقتدار کے فراق میں بے قرار ہو جاتی۔ ایک دہائی کے اس عرصے میں ملک نے چار جمہوری اور تین عبوری حکومتیں بھگتائیں۔ دو سیاسی جماعتوں کی ذاتی مخاصمت نے حالات کو اس نہج پر پہنچا دیا تھا کہ ملک جب ایک بار دوبارہ آمریت کی نذر ہوا تو لوگوں نے اس پر سکھ کا سانس لیا اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔
اکتوبر 1999ء میں ایک منتخب حکومت کو‘ جو خود بھی آمریت کی راہ پر چل رہی تھی‘ برطرف کر کے جب اقتدار سنبھالا گیا تو اس بار کے آمر مطلق نے اپنے پیش رو آمر کے برعکس خود کو روشن خیال ثابت کرنے میں عافیت جانی اور ہر وہ کام کرنے کی کوشش کی کہ جس سے دنیا تک یہ پیغام جا سکے کہ ہم بہت لبرل ہیں۔ اسی دور میں نیٹو فورسز نے افغانستان پر حملہ کیا تو ملک کو حملہ آور قوتوں کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا۔ یہ تک سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کی گئی کہ کون سی بات ہمارے ملک کے مفاد میں ہے اور کون سی ملکی مفاد کے خلاف۔ مقصد بس ایک ہی تھا کہ کسی طرح بڑی عالمی طاقتوں کو خوش کیا جائے اور یقینا اِس کے عوض ذاتی مفادات بھی حاصل کیے گئے۔ اِس سابق حکمران نے اپنی کتاب میں جو اعترافات کیے ہیں‘ اب ان کا ذکر رہنے دیتے ہیں کہ وہ جہانِ عدم سدھار چکے۔ وگرنہ حقیقت یہ ہے کہ اس دور کے اقدامات کا خمیازہ ابھی تک بھگتا جا رہا ہے۔ دو دہائیوں سے زائد پہ محیط اس جنگ کے بعد امریکہ اور اُس کے اتحادی تو افغانستان سے نکل چکے لیکن اِس کے اثرات ہم تاحال بھگت رہے ہیں اور نجانے کب تک بھگتتے رہیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر کسی نے اپنے اقتدار کو دوام دینے کی خاطر ملک و قوم کے مستقبل سے کھلوار میں کوئی عار نہیں جانی۔
اِنہی کھیل تماشوں کے باعث اب عالم یہ ہو گیا ہے کہ ہم اپنی بقا کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ ہمارا وہ مشرقی ہمسایہ‘ جس سے ہم ہر چیز میں موازنہ کرتے تھے‘ اب چاند پر پہنچ چکا ہے۔ جب چاند پر بھیجے جانے والے اُس کے پہلے دو مشن ناکامی سے دوچار ہوئے تو یہاں بہت سے حلقوں نے خوشی سی بغلیں بجائیں لیکن یہ سوچنے تک کی زحمت بھی گوارا نہ کی گئی کہ کامیاب وہی ہوتا ہے جو کوشش کرتا ہے۔ ایسا ہی ہوا اور تیسری مرتبہ وہ کامیاب ہو گیا۔ اب وہ چاند پر مشن بھیجنے والا دنیا کا چوتھا ملک بن چکا ہے اور پہلا ایسا ملک ہے جس نے چاند کے جنوبی قطب کو اپنا ہدف بنایا۔ اب ہمارے پاس کہنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ چاند کے علاوہ وہ سورج کی جانب بھی ایک مشن روانہ کر چکا ہے جبکہ اب وہ انسان بردار ''سمندریان‘‘ مشن شروع کرنے والا ہے جس میں ایک آبدوز کو سمندر کی چھ ہزار میٹر کی گہرائی تک بھیجا جائے گا۔ ہمارا روایتی حریف افلاک کی وسعتوں کے ساتھ ساتھ سمندر کی گہرائیوں کو بھی تسخیر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، معاشی طور پر اپنے آپ کو دنیا کے لیے ناگزیر بنا رہا ہے مگر ہماری ترجیحات کیا ہیں؟ وہاں منعقد ہونے والی جی ٹونٹی سربراہی کانفرنس ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔ دنیا کی تمام بڑی معیشتوں کے سربراہان بھارت آئے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت اِس کانفرنس سے کتنے معاشی اور سفارتی فوائد اُٹھائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے دیرینہ دوست اور برادر ملک سعودی عرب نے بھارت کے ساتھ مشترکہ مفادات کے پچاس معاہدوں اور سمجھوتوں پر دستخط کیے ہیں۔ ہم ابھی تک سو ارب ڈالر ملک میں لانے کے لیے پلاننگ ہی کر رہے ہیں جبکہ دوسری طرف بھارت میں ایک سو ارب ڈالر کی محض سعودی سرمایہ کاری کے لیے مشترکہ ٹاسک فورس بنانے پر اتفاق ہو گیا ہے۔ سعودی عرب بھارت میں سو ارب ڈالر کی سرمایہ کرنے جا رہا ہے اور ہم دو‘ تین ارب ڈالر کے پیکیج کے لیے آئی ایم ایف کی ہر جائز و ناجائز شرط تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔جن شرائط پر یہ قسطیں مل رہی ہیں‘ ان کے نتیجے میں معیشت تو کیا سنبھلنا تھی‘ الٹا ملک میں مہنگائی کا نیا طوفان آیا ہے۔دنیا تیزی سے بدلتی جا رہی ہے‘ نئے معاشی اتحاد اور بلاک معرضِ وجود میں آ رہے ہیں، نئے اکنامک کوریڈورز کی باتیں ہو رہی ہیں مگر ہم ابھی تک اپنی ہی دھن میں مگن ہیں۔ ہمارے آج بھی سب سے بڑے مسائل یہ ہیں کہ الیکشن کی تاریخ کا اعلان صدر کا اختیار ہے یا الیکشن کمیشن کا، آئینی میعاد میں الیکشن کا انعقاد ممکن ہو سکے گا یا نہیں۔ بھارت میں منعقدہ جی ٹونٹی اجلاس کی سب سے نمایاں بات بھارت کو ایک اکنامک کوریڈور کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ کے راستے یورپ سے جوڑنے کا اعلان ہے ۔ اس اکنامک کوریڈرو کی تعمیر سے ایک نیا معاشی بلاک وجود میں آ جائے گا۔ امریکہ اور یورپ کی سرپرستی بھارت کی معیشت کو کہیں سے کہیں پہنچا دے گی۔ ایک طرف یہ عالم ہے تو دوسری طرف ہماری غیر سنجیدگی ہی ختم ہونے میں نہیں آرہی۔
اندرونِ ملک بجلی کی چوری،کھاد، آٹے اور ڈالر وغیر ہ کی سمگلنگ روکنے کی خاطر اب حکومت کچھ فعال ہوئی ہے اور کریک ڈائون کیے جا رہے ہیں۔ یہ مہمات کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ چینی اور آٹے سمیت کھاد کے نرخ کچھ نیچے آگئے ہیں جبکہ ڈالر کی قیمت میں بھی مسلسل کمی ہورہی ہے لیکن سوال وہی ہے کہ ایسی مہمات کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟ یہ کام تو مستقل بنیادوں پر کسی پریشر اور دبائو کے بغیر جاری رہنا چاہیے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر مستقل طور پر ان سوراخوں کو بند نہ کیا گیا تو ان وقتی مہمات کے مثبت نتائج برآمد نہیں ہوں گے۔کام کرنے کاسب سے بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی اپنی ذمہ داریوں کو پہچانے اور اپنے دائرۂ کار میں رہتے ہوئے فعالیت کا مظاہرہ کرے۔
دہائیوں سے جو وقتی اقدامات اور ذاتی مفادات کے بیج بوئے جا رہے تھے اب ان فصلوں کی کٹائی کا وقت آ گیا ہے۔ اب حقیقت ہم پر واضح ہو جانی چاہیے کہ ہم فقط سراب کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ یہ دنیا اپنے مفادات کو مقدم رکھ کر چلتی ہے۔ جب تک ہماری سٹریٹجک لوکیشن میں مغربی دنیا کو اپنا مفاد نظر آ رہا تھا‘ ہم لاڈلے بنے ہوئے تھے، اب انہیں بھارت کی بڑی کنزیومر مارکیٹ لبھا رہی ہے۔ اگر ہم اب بھی سنجیدہ نہیں ہوتے تو حالات مزید تباہی سے دوچار ہوں گے لیکن اگر اب بھی اپنی سمت درست اور معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کا کڑوا گھونٹ بھر لیں تو بہتری کی کچھ امید کی جا سکتی ہے؛ اگرچہ اس کے آثار بہت کم ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں