"FBC" (space) message & send to 7575

خطۂ فلسطین پھر لہو لہو

اسرائیل کے عوام اپنے سالانہ ''سپرنووا فیسٹیول‘‘ کا بے صبری سے انتظار کر رہے تھے۔ یہ فیسٹیول یہودیوں کے مذہبی تہوار ''سوکوت‘‘ کے تناظر میں منعقد ہونا تھا اور اس کیلئے ہفتہ‘ سات اکتوبر کا دن مقرر کیا گیا تھا۔ فیسٹیول کے روز اسرائیل کے جنوبی صحرا میں کم و بیش ڈھائی ہزار لوگ جمع تھے جو جمعہ کی رات سے اس مقام پر اکٹھے ہو چکے تھے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سے اسرائیل کے اندر حماس کے حملوں کا آغاز ہوا۔ بین الاقوامی میڈیا کے مطابق حماس کے پچاس کے قریب جنگجو پیراگلائیڈنگ کے ذریعے اِس مقام پر اُترے اور وہاں فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بڑی تعداد میں فیسٹیول کے شرکا مارے گئے اور کافی تعداد میں اسرائیلیوں کو قیدی بنا لیا گیا۔ اِس کے ساتھ ساتھ اسرائیل پر راکٹوں کی بارش بھی شروع کر دی گئی۔ بلاشبہ یہ دن اسرائیلیوں کے لیے کسی بھیانک خواب سے کم نہیں تھا۔ اُنہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اُن کے ساتھ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے۔ اگرچہ اسرائیل صرف بائیس ہزار مربع کلومیٹر کا ایک چھوٹا سا ملک ہے لیکن اِس چھوٹے سے ملک نے 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مصر، اُردن اور شام کے خلاف فیصلہ کن کامیابی حاصل کی تھی۔ اِس نے تین بڑے عرب ملکوں کو شکست سے دوچار کیا تھا اور یہ پوری دنیا کے لیے حیران کن تھا۔ یہ جنگ کیوں شروع ہوئی اور اِس چھ روزہ جنگ کا آغاز کس کی غلطی سے ہوا‘ یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اِس جنگ میں اسرائیل نے پورے خطے پر اپنی مسلح افواج کی شاندار صلاحیتوں کی دھاک بٹھا دی تھی۔ اسرائیل کی افواج نے ناقابل یقین کارنامہ شام میں گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کرکے انجام دیا جو آج تک اس کے قبضے میں ہیں۔ اِن پہاڑیوں کا محل وقوع ایسا ہے کہ اِنہیں ناقابل تسخیر سمجھا جاتا تھا لیکن اسرائیل نے اِن پر بھی قبضہ کر لیا۔ اگرچہ اُس کے بعد 1973ء کی ایک اور عرب اسرائیل جنگ میں مصر اور شام نے یہودیوں کے تہوار ''یوم کپور‘‘ کے روز اسرائیل پر حملہ کرکے اِس کے ناقابل تسخیر ہونے کے تصور کو شدید زک پہنچائی لیکن جنگ کے اختتام تک امریکہ کی مدد سے اس کا پانسہ پلٹا جا چکا تھا۔ مصر اور شام کی بچت یوں ہوئی کہ سلامتی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد منظور ہونے پر جنگ ختم ہو گئی۔
اِن دو مواقع کے بعد اسرائیل کو پہلی مرتبہ اتنی بڑے حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے اور سخت ہزیمت بھی اُٹھانا پڑی ہے۔ ابتدائی طور پر حماس کے حملے نے اسرائیل کے بڑے حصے کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔ پورے اسرائیل میں افراتفری پھیل گئی اور پہلی مرتبہ اسرائیلیوں کو شدید ترین خوف میں مبتلا دیکھا گیا۔ اِس کامیاب حملے پر حماس کے رہنماؤں نے سجدۂ شکر بھی ادا کیا۔ حماس کی طرف سے داغے جانے والے ہزاروں راکٹوں نے اسرائیل کے مشہورِ زمانہ آئرن ڈوم دفاعی نظام کو غیر مؤثر کر کے رکھ دیا۔ آئرن ڈوم میزائلوں کا ایسا دفاعی نظام ہے جسے انتہائی مؤثر سمجھا جاتا ہے اور دنیا کے مختلف ممالک یہ سسٹم استعمال کر رہے ہیں۔ پے درپے راکٹ حملوں میں اِس کی افادیت کہیں دکھائی نہ دی۔ حملوں کے دوران حماس کے جنگجو متعدد مقامات سے سرحد عبور کرکے اسرائیل میں داخل ہو گئے جہاں اُنہوں نے مختلف کارروائیاں کیں۔ واضح رہے کہ جہاں اسرائیل تقریباً 22 ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل ہے‘ وہیں غزہ کا رقبہ صرف چار سو مربع کلومیٹر ہے جو فلسطینی ریاست کا ایک حصہ ہے۔ اسرائیل نے ایک معاہدے کے تحت 2005ء میں یہاں سے اپنے آبادکاروں کو نکال لیا تھا لیکن اِس کی فضاؤں، سمندر اور سرحدوں پر آج بھی اسرائیل ہی کا کنٹرول ہے۔ غزہ کو تیل، غذا، پانی اور ادویات سمیت ہر شے کی سپلائی اسرائیل کے راستے ہوتی ہے۔ اِس غزہ پٹی کا ایک حصہ مصر کے صحرائے سینا سے ملتا ہے جہاں حماس نے کچھ سرنگیں بنا رکھی ہیں تاکہ ایمرجنسی کی صورت میں ضروری اشیا مصر سے حاصل کی جا سکیں لیکن یہ کافی مشکل عمل ہے۔ یہیں سے اسرائیل پر راکٹوں کی بارش کی گئی اور ابتدائی طور پر اسرائیل کو مفلوج کرکے رکھ دیا گیا۔ یہ امر یقینی تھا کہ ابتدائی حملے کے نتائج سے نمٹنے کے بعد اسرائیل جوابی کارروائی کرے گا اور ایسا ہی ہوا۔ اب جو اسرائیل کی طرف سے جوابی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے تو سادہ ترین الفاظ میں اسے انتہائی وحشیانہ ردعمل کہا جا سکتا ہے۔ غزہ کی چھوٹی سی پٹی پر فضائی، بری اور سمندری راستوں سے قیامت برپا کی جا چکی ہے۔
قرائن بتاتے ہیں کہ یہ جنگ طویل عرصے تک چلنے والی ہے جس کے لیے اب اسرائیل نے اپنی مکمل منصوبہ بندی کر لی ہے۔ غزہ کو بجلی، گیس، ایندھن اور غذا کی سپلائی بند کر دی گئی ہے۔ فضا اور سمندر سے شدید حملے کیے جا رہے ہیں جن کی کہیں کوئی مزاحمت دیکھنے میں نہیں آئی۔ مزاحمت ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ حماس کے پاس نہ تو فضائی حملے روکنے کا کوئی نظام ہے اور نہ ہی کوئی بحریہ۔ دشمن کے ٹینکوں کو روکنے کا بھی کوئی نظام نہیں ہے‘ لہٰذا اِس صور ت میں سب کچھ اِس بات پر منحصر ہے کہ اسرائیل کب تک کارروائی جاری رکھتا ہے اور اِس میں کتنا نقصان ہوتا ہے۔ اس وقت غزہ کی صورتحال کچھ یوں ہے کہ پورا علاقہ کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ لوگ غذا کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں اور اِس دوران بھی اُن پر حملے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ لوگ محفوظ مقامات پر جانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن جب تمام سرحدیں بند ہوں اور آسمان سے مسلسل موت برس رہی ہو تو پھر کوئی کہاں پر چھپ سکتا ہے۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اب غزہ کے رہائشی مکمل طور پر اسرائیل کے رحم و کرم پر ہیں۔ فی الحال اسرائیل کو حماس کے حملوں کا کوئی خطرہ نہیں لہٰذا کوئی امکان نظر نہیں آتا کہ وہ اپنی کارروائیاں روکے۔ زمینی راستے سے حملے کی تیاریاں بھی مکمل ہو چکی ہیں اور شاید اِن سطور کی اشاعت تک حملہ کیا جا چکا ہو۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ جب بڑی تعداد میں انتہائی تربیت یافتہ اسرائیلی افواج جدید ٹینکوں کے ساتھ غزہ میں داخل ہوں گی تو اُنہیں کون روکے گا؟ کون جانتا ہے کہ وہ غزہ میں داخل ہونے کے بعد وہاں کے باشندوں سے کیا سلوک کریں۔ کسی کو کچھ علم نہیں کہ آنے والے دنوں میں اسرائیل اِس علاقے کے ساتھ کیا کرنے والا ہے۔ رہی بات مسلم ممالک کی تو اُن بیچاروں کے پاس اتنی جرأت ہی کہاں کہ وہ اپنے مسلم بھائیوں کے شانہ بشانہ کھڑے ہو سکیں۔ صرف ایران ہی واحد ملک ہے جس نے کھل کر حماس کی حمایت کی ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ اسرائیل پر حملہ کرنے والوں کو کیا اندازہ نہیں تھا کہ ردعمل کتنا شدید ہو سکتا ہے اور اِس کے نتیجے میں اُنہیں کتنے خوفناک نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟ یقینا اُنہیں یہ اندازہ ہو گا‘ پھر جوابی حملوں سے بچنے کے لیے کیا منصوبہ بندی کی گئی؟ جواب ندارد! کیا یہ بھی نہیں سوچا گیا کہ اگر اسرائیل غزہ پر قبضہ کر لیتا ہے تو وہاں کے بیس لاکھ سے زائد باشندوں کا مستقبل کیا ہو گا؟ اِس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل طویل عرصے سے فلسطینیوں پر مظالم ڈھا رہا ہے اور اُس نے بے شمار فلسطینیوں کو قید میں ڈال رکھا ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ ظلم برداشت کرنے کی بھی ایک حد ہوتی ہے لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اِس حملے کے بعد فلسطینیوں کے مصائب میں کمی آئے گی یا اضافہ ہو گا؟ سو فیصد اضافہ ہوگا اور خوفناک اضافہ ہو گا بلکہ ہو چکا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ فلسطینی آج سے نہیں بلکہ دہائیوں سے اسرائیل کے مظالم برداشت کر رہے ہیں اور اب وہ گھٹ گھٹ کر جینے کے بجائے لڑتے ہوئے مرنا چاہتے ہیں۔ اسرائیل کی انتہائی ظالمانہ کارروائیوں‘ جن کا فی الحال کوئی اختتام نظر نہیں آ رہا‘ پر حسبِ روایت مسلم ممالک کی طرف سے کوئی ٹھوس ردعمل نہیں دیا جا سکا۔ کئی مسلم ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں لیکن کسی ایک نے بھی اسرائیلی سفیر کو واپس بھیجا ہے نہ اپنے سفیر کو اسرائیل سے بلایا ہے۔ اس وقت سب سے بڑی فکر مندی اہلِ غزہ کے حوالے سے ہے کہ اُن پر اِس وقت کیا بیت رہی ہو گی۔ وہ کیسے آسمان سے برسنے والی موت سے بچنے کی کوششیں کر رہے ہوں گے۔ کہاں سے اپنے لیے خوراک حاصل کر رہے ہوں گے اور جب خدانخواستہ غزہ پر اسرائیل کا قبضہ ہو جائے گا‘ تب اُن کا کیا بنے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں