پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اگر موروثی سیاست کی روایت موجود نہ ہوتی تو پاکستان پیپلزپارٹی کا تشویش میں مبتلا کارکن اس وقت قیادت کے لیے محترمہ بینظیر بھٹو کے ان تین بچوں کی جانب نہ دیکھ رہا ہوتا جو اپنی ٹین ایج کے دور سے گزر رہے ہیں اور سیاسی بالغ نظری سے بہت دور ہیں۔ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد، اس خلا کو آصف علی زرداری نے اس قدر محسوس کیا کہ اپنے تینوں بچوں کے ناموں کے ساتھ لفظ، زرداری سے پہلے لفظ بھٹو کا اضافہ کردیا کیونکہ انہیں اس حقیقیت کا ادراک تھا کہ پیپلزپارٹی کے ورکر کو سیاسی طواف کے لیے ’’بھٹو‘‘ ناگزیر ہے۔ مگر اس غیر قدرتی حکمت عملی نے کچھ زیادہ کام نہیں کیا۔ آصف علی زرداری نے نوجوان بلاول کو پارٹی کا چیئرمین بنا دیا اور خود پارٹی کے سارے معاملات چلانے کے باوجود شریک چیئرمین کا عہدہ قبول کیا۔ بلاول زرداری، جنہیں اب بلاول بھٹو بھی کہا جاتا ہے، عمر کے اس دور میں ہیں جس میں اگر ان کی پاکستان کے گھمبیر سیاسی مسائل میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر ہے تو یہ کچھ اچنبھے کی بات نہیں۔ بلاول بھٹو ابھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے مرحلے میں ہیں۔ سیاسی اور پارٹی امور میں بلاول کی عدم دلچسپی حالیہ الیکشن کے دوران بھی واضح نظر آئی جب بلاول نے کسی بھی جلسۂ عام سے خطاب نہیں کیا۔ اس میں اگرچہ سکیورٹی مسائل بھی موجود ہیں مگر اپنے ویڈیو خطابات میں بھی بلاول کا انداز بیان ایسا نظر آیا جیسے اس پُرجوش تقریر کی انہیں باقاعدہ تربیت دی گئی ہے کیونکہ پیپلزپارٹی کا ورکر بھٹو اور پھر محترمہ بینظیر بھٹو کے شعلہ بیان، پرجوش طرز خطابت کا عادی ہے۔ اپنی عمر کا زیادہ عرصہ پاکستان سے دور رہ کر گزارنے والے بلاول بھٹو، اگر ویڈیو خطاب میں سر پر سندھی ٹوپی اوڑھ کر، اپنے نانا اور والدہ کے انداز بیان کو کاپی کرکے، بھی پیپلزپارٹی کے ورکرز کو قائل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو یقیناً پارٹی قیادت کو سوچنا ہوگا۔ الیکشن مہم کے عروج پر پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت، کا نوجوان چیئرمین، بلاول بھٹو، مہم کو ادھورا چھوڑ کر بیرون ملک چلا جاتا ہے ،اس سے بھی سیاسی امور میں ان کے عدم دلچسپی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ مجھے ذاتی طور پر ایسا لگتا ہے کہ اگر محترمہ بینظیر بھٹو کے بچوں میں سے کوئی ان کا سیاسی وارث ہے تو وہ ان کی سب سے چھوٹی صاحبزادی آصفہ زرداری ہیں۔ اس بات کو شاید آصف علی زرداری بھی محسوس کر چکے ہیں۔ اسی لیے وہ ارادی طور پر آصفہ کی سیاسی تربیت میں مصروف ہیں۔ ہمارے ہاں روایت کے مطابق تو بیٹا ہی اپنے والدین کی وراثت کا امین سمجھا جاتا ہے مگر جب بات سیاسی وراثت کی ہو تو پھر اس وراثت کو سنبھالنے والے کے لیے صرف بیٹا ہونا کافی نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو ذوالفقار علی بھٹو کی سیاسی وارث ان کی صاحبزادی بینظیر بھٹو نہ ہوتیں بلکہ مرتضیٰ بھٹو یا شاہنواز بھٹو میں سے یہ ذمہ داری کسی کے سر ڈالی جاتی۔ اس وقت جب بھٹو ٹرائل کے مشکل دور سے گزر رہے تھے وہ اپنی صاحبزادی بینظیر بھٹو کو یہ باور کروا چکے تھے کہ تم ہی اس سیاسی وراثت کی امین ہو۔ بینظیر کے نام خطوط میں بھٹو کی یہ خواہش واضح نظر آتی ہے۔ کس طرح اپنی بیٹی کو آنے والے حالات کے لیے تیار کررہے تھے۔ بعد ازاں سیاسی حالات کے اتار چڑھائو، جلاوطنی کے مشکل حالات اور پھر سکیورٹی کے خطرات کے باوجود پاکستان واپسی کے فیصلے نے یہ ثابت کردیا کہ بینظیر بھٹو ہی اپنے والد کی سیاسی وراثت کو سنبھالنے کی اہل تھیں۔ بطور وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو نے کامیابی سمیٹی یا پھر وہ ایک ناکام وزیراعظم تھیں اس پر دو رائے موجود ہیں، مگر بطور پارٹی لیڈر کے ان کی بہادری اور اعتماد کو آج دنیا تسلیم کرتی ہے۔ 18اکتوبر کو سانحہ کارساز کے باوجود راولپنڈی کے جلسہ عام سے خطاب کرنا، اور پھر ہزاروں کے مجمع کے سامنے خودکش حملے میں اپنی جان دے کر پارٹی کو ایک نیا خون اور نئی توانائی دینا یہ سب پاکستان کی سیاسی تاریخ کاحصہ ہے۔ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال میں بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست کرنا آسان نہیں بلکہ صورتحال یہ ہے جس کو ہے جان و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں! بھٹو بھی کوئے یار سے سوئے دار تک پہنچے اور سیاسی تاریخ کا افسانوی کردار بن گئے۔ بینظیر بھٹو نے اپنے والد کی سیاسی وراثت سنبھالی تو ان کا راستہ بھی کوئے سے سوے دار تلک گیا اور آج سیاسی غلطیوں، کوتاہیوں کے باوجود وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا قابل احترام کردار ہیں۔ یوں بینظیر بھٹو نے ذوالفقار بھٹو کی سیاسی وارث ہونے کا حق ادا کردیا۔ آج کی پیپلزپارٹی بینظیر بھٹو کی پیپلزپارٹی ہے۔ حالیہ الیکشن میں زبردست شکست کے بعد پارٹی قیادت کے بحران سے دوچار ہے اور شاید کچھ عرصہ تک یہ بحران حل نہ ہوسکے کیونکہ پارٹی ورکر موروثی سیاست کے تسلسل میں بے نظیر بھٹو کی اولاد میں سے ہی کسی ایک کو پارٹی کی قیادت کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے۔ چند برس کے بعد جب آصفہ زرداری اپنی تعلیم مکمل کر لیں گی تو حالات جانے کیا ہوں گے مگر یہ حقیقت ہے کہ آصفہ زرداری اپنی والدہ اور نانا کی طرح سیاست سے دور نہیں رہ سکتیں۔ وہ ابھی بھی اپنی والدہ کے انداز اور دوپٹہ اوڑھنے کے سٹائل کو بخوبی کاپی کرتی ہیں۔ ماں سے مشابہت، سر پر سفید دوپٹہ اور کاندھے پر ماں کی طرح شال ڈالے وہ اب بھی کبھی کبھی چھوٹی بینظیر بھٹو نظرآتی ہیں۔ سیاسی امور میں آصفہ کی دلچسپی قدرتی دکھائی دیتی ہے۔ بہرحال اس کا فیصلہ تو آنے والا وقت ہی کرے گا کہ پیپلزپارٹی کی سیاسی قیادت کس کے پاس جاتی ہے۔ مگر یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ پاکستان جیسے روایتی ملک میں سیاسی وراثت کے لیے بیٹیاں بھی موزوں امیدوار نظر آتی ہیں اور اس کی ایک مثال محترمہ مریم نواز شریف بھی ہیں جو اپنے بھائیوں حسن نواز اور حسین نواز کی موجودگی میں اپنے والد وزیراعظم میاں نوازشریف کی سیاسی وراثت کو سنبھالنے کے لیے تیار ہیں۔ محترمہ مریم نوازشریف اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور حالیہ الیکشن مہم میں ان کے انداز خطابت اور سیکورٹی کی پرواہ کیے بغیر پارٹی جلسوں میں ان کی شرکت نے ثابت کیا کہ سیاست کے جراثیم ان میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ میاںنوازشریف بھی اپنی قابل صاحبزادی کو اپنا سیاسی وارث سمجھ کر ان کی تربیت میں مصروف ہیں۔ مریم نواز کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دن کا بیشتر حصہ اپنے والد کے ساتھ گزارتی ہیں اور سیاسی معاملات کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگرچہ سیاسی وراثت کو خاندانی وراثت کی طرح منتقل نہیں ہونا چاہیے اور سیاسی پارٹیوں میں الیکشن کروانا چاہییں مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی وراثت کی روایت موجود ہے مگر پھر بھی یہ اپنی خواہش کے مطابق کسی کو سونپی نہیں جاسکتی۔ جو اس بار کو اٹھانے کا اہل ہوتا ہے یہ خود بخود اس کے پاس چلی جاتی ہے کیونکہ روشنی کا فیصلہ ہوائوں کے اختیار میں ہے جس دیے میں جان ہوگی وہی جلتا رہے گا۔