ڈیرہ اسماعیل خان کی جیل پر ہونے والا دہشت گردوں کا سنگین حملہ اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ پچھلے دس، گیارہ سال سے دہشت گردی کی صورت میں ہونے والی تباہی، قتل و غارت اور بربادی سے ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ دہشت گردوں کے مقابلے میں ہمارے امن و امان قائم کرنے کے انتظامی ادارے مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ دہشت گردی اس ملک کا پہلا اہم مسئلہ ہے، مگر اس کے باوجود اس کے حل کے لیے اور اس عفریت سے بچائو کے لیے قومی اور صوبائی سطح پر کوئی پالیسی، کوئی لائحہ عمل طے نہیں کیا گیا۔ کوئی ایسی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی جو اس مسئلے کے حل کے لیے کی گئی ہو۔ ہر بڑے حملے، ہر بڑے سانحے کے بعد، مذمتی بیانات کی ایک نہ ختم ہونے والی قطار اور کچھ تبادلے۔ چند معطلیاں۔ اللہ اللہ خیر صلّا۔ دوسری جانب دہشت گرد دن بدن مضبوط اور مربوط ہوتے نظر آتے ہیں۔ ہر نیا حملہ پہلے والے حملوں کی سنگینی اور بربادی کو بھلا دیتا ہے اور ہم نئے حملے کا ماتم کرنے لگتے ہیں۔ پھر چند ہی روز میں اس کو فراموش کر دیا جاتا ہے۔ ہاں وہ خاندان جن کے پیارے دہشت گردی میں مارے جائیں وہ تا عمر اس نقصان کا ماتم کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ عذاب جو ہم پر مسلط ہوچکا ہے کیا امن و امان کے ذمہ دار اداروں کو اس کی سنگینی کا ادراک ہے؟ حفاظتی قافلوں کے حصار میں سفر کرنے والے اہل اقتدار کو کیا اس بات کا احساس ہے کہ آئے روز ہونے والی دہشت گردی سے امن و امان کی صورتحال کتنی مخدوش ہو چکی ہے۔ بدامنی کی اس کیفیت میں ایک عام آدمی خوف اور سہم کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اسپتال، مارکیٹیں، کالج، شاپنگ پلازے کچھ بھی تو محفوظ نہیں رہا۔ ہاں اگر کچھ محفوظ ہے تو وہ دہشت گرد ہیں جو ہر کارروائی کے بعد امن و امان کے ذمہ داروں کی آنکھ میں دھول جھونک کر محفوظ پناہ گاہوں میں واپس پہنچ جاتے ہیں۔ ایک قیامت برپا ہوتی ہے اور پھر، غفلت اور فراموشی۔ یہاں تک کہ ایک اور سانحہ جنم لیتا ہے۔ امن و امان قائم کرنے والے ادارے جتنے بوگس، سست اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں دہشت گرد ان کے مقابلے میں اتنے ہی تربیت یافتہ نظر آتے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان پہلی بار دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنا۔ آئے دن یہاں کوئی نہ کوئی واقعہ ہوتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود انتظامیہ نے جس غفلت کا مظاہرہ کیا وہ افسوس اور حیرت کا باعث ہے۔ لگتا ہے کہ انتظامیہ خود بھی شریک جرم رہی ہے‘ ورنہ کیسے ممکن ہے کہ 16گاڑیوں، درجنوں موٹرسائیکلوں پر سوار ہو کر سو سے زائد مسلح دہشت گرد شہر میں داخل ہوتے ہیں اور سنٹرل جیل ڈی آئی خان پر ہر رکاوٹ عبور کرکے حملہ کرتے ہیں۔ جدید ترین دھماکہ خیز مواد سے جیل کی بیرکوں کو اڑا دیتے ہیں۔ میگا فون پر اپنے قیدی دہشت گردوں کے نام لے کر انہیں اطلاع کرتے ہیں اورپھر، ڈھائی سو کے قریب قیدیوں کو چھڑوا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ ان ڈھائی سو قیدیوں میں 30انتہائی خطرناک دہشت گرد بھی شامل ہیں۔ دہشت گردی کے اس کامیاب حملے نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی قلعی کھول دی ہے۔ جو کہانی اخبارات کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے، اس کو پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ جیسے جیل کی حفاظت پر مامور گارڈز کے ہاتھوں میں یا تو کھلونا بندوقیں تھیں یا پھر ان کے ہتھیاروں کو زنگ لگ چکا تھا۔ بوسیدہ تربیت کے حامل اہلکاروں اور افسران پر غفلت کی نیند کاغلبہ تھا اور کسی بھی حملے کے جواب میں ہونے والا کمزور ترین Respond System بھی ناکارہ ہوچکا تھا۔ تین گھنٹے تک حملہ آوروں نے سکون اور آزادی سے شہر کی سب سے اہم جیل کو تختۂ مشق بنائے رکھا اور پھر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ناکارہ پن کا مذاق اڑاتے ہوئے اسی شہر کے اُنہی راستوں سے واپس چلے گئے۔ ایک خبر کے مطابق، جیل اہلکاروں نے بین السطور یہ اعتراف کیا ہے کہ دہشت گردوں کے جدید اسلحے کے مقابلے میں ان کے پاس بہت محدود اسلحہ تھا اور شاید یہی دیکھ کر نفسیاتی طور پر انہوں نے اپنی شکست مانتے ہوئے مقابلہ کرنے سے ہی گریز کیا۔ یہ شعر بھی کس موقع پر یاد آیا ؎ نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے یہ بازو مرے آزمائے ہوئے ہیں اس سانحے سے سوالوں کا ایک لامتناہی سلسلہ جنم لے رہا ہے۔ سب سے پہلا اور اہم سوال تو یہ ہے کہ خطرناک اور انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو اتنے ناقص حفاظتی انتظامات کی حامل جیل میں کیوں رکھا گیا اور اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ اگر ان دہشت گردقیدیوں کے خلاف دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شواہد موجود تھے تو پھر انہیں اب تک عبرت ناک سزائیں کیوں نہیں دی گئیں۔ معصوم اور بے گناہ لوگوں کے قتل میں ملوث ایسے درندوں کو تو فوری طور پر پھانسی پر لٹکا دینا چاہیے۔ اس وقت بھی پاکستان کی کئی جیلوں میں خطرناک دہشت گرد موجود ہیں۔ ان کی موجودگی ہی شہر کے امن و امان کے لیے سنگین خطرہ ہے۔ بنوں جیل پر حملے کے بعد، ڈی آئی خان سنٹرل جیل پر حملہ دوسرا واقعہ ہے۔ اگر ان دہشت گردوں کو اسی طرح عام جیلوں میں رکھا گیا تو پھر ایسے مزید حملوں کو ہونے سے کون روکے گا؟ ٹھوس شواہد مل جانے پر دہشت گرد کی سزا موت ہونی چاہیے۔ جیلوں میں بند کرکے امن و امان دائو پر لگانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ دہشت گردوں نے پورا ملک یرغمال بنا رکھا ہے۔ عوام کی نفسیات میں خوف اور سہم نے بسیرا کرلیا ہے۔ ملعون دہشت گرد تو اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں جبکہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے، انتظامی امور کی دیکھ بھال پر مامور اہلکار و افسران اپنے ناکارہ نظام اورزنگ آلود ہتھیاروں کے ساتھ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی نوزائیدہ حکومت کے لیے دہشت گردی ایک بڑا سنگین چیلنج ہے۔ تبدیلی محض نعرہ نہیں ہے۔ حقیقی تبدیلی کے لیے ٹھوس اقدامات کریں۔ دہشت گردوں کے سر کو کچلنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے نظام کو جدید خطوط پر استوار کریں۔ جدید تکنیکی سہولتوں سے بہرہ مند ہو کر ہی دہشت گردی کے مربوط نیٹ ورک پر کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے۔ مذہبی بیانات کا وقت گزر گیا۔ اب عمل اورصرف عمل کا وقت ہے۔