"SQC" (space) message & send to 7575

ترجیحات کی فہرست دوبارہ بنانا ہو گی

لمحوں نے خطائیں کیں اور آج صدیاں سزا بھگت رہی ہیں۔ تاریخ ہمیشہ اس سوال کی کھوج میں رہے گی کہ آخر کیوں پاکستان نے جنگی جنون میں مبتلا عالمی طاقتوں کی پراکسی وار کا آلۂ کار بننا قبول کیا۔ دہشت گردی، جس کی آگ میں آج ہمارا مستقبل جل رہا ہے‘ اسی پراکسی وار کا بائی پراڈکٹ ہے۔ اب نہ بچے سکولوں میں محفوظ نہ رہے عمر کی سنہری دہلیز پر خواب دیکھتے ہوئے نوجوان یونیورسٹیوں میں محفوظ ہیں۔ چار سدہ جیسے روایتی اقدار کے حامل پسماندہ شہر میں یونیورسٹی کا قیام یقیناً روشن امکانات کی دلیل ہے مگر 20جنوری کی یخ بستہ صبح ‘ عِلم کے اس مرکز پر جس طرح سفاک دہشت گردوں نے حملہ کیا اس سے دلوں میں ایک جانب درد اور رنج اترا تو دوسری جانب ہر پاکستانی کی زندگی میں ایک بار پھر عدم تحفظ کا احساس بڑھ گیا۔
ہر شخص کی زندگی میں یونیورسٹی میں گزارا ہوا وقت زندگی کا سنہری دور ہوتا ہے کیونکہ نوجوان اسی دور میں زندگی کو بہت سے نئے حوالوں سے دیکھتے ہیں۔ شعور اور عِلم کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دِل اُمیدوں سے بھرا ہوتا ہے‘ آنکھیں البیلے خوابوں سے سجی ہوتی ہیں۔ عملی زندگی سے چند قدم کے فاصلے پر زندگی حسین ہی حسین نظر آتی ہے۔ زندگی کے ایسے منظر نامے کو لہو رنگ کر دینا گویا پھولوں کی کیاری کو بارود سے اڑا دینے کی کوشش ہے ۔ اور اس روز جب حملہ ہوا تو یونیورسٹی میں ایک امن مشاعرہ منعقد ہونے جا رہا تھا۔ مشاعرے میں زندگی‘ امن اور اُمید کی باتیں ہونا تھیں لیکن اس صبح کو طالب علموں کے بے گناہ 
خون سے رنگ دیا گیا۔ کیمسٹری کے جواں سال اسسٹنٹ پروفیسر حامد حسین کی شہادت کا تذکرہ ضروری ہے جنہوں نے حملے کی اطلاح ملنے کے باوجود فوراً اپنی زندگی کو محفوظ کرنے کا نہیں سوچا بلکہ ایک جانب دہشت گردوں پر اپنی پسٹل سے جوابی فائرنگ کی اور دوسری جانب اپنے طالب علموں کو محفوظ مقام کی جانب بھاگنے کا موقع دیا۔ آج ان کے طالب علم اپنے بہادر اور جاں فروش استاد کی یاد میں روتے ہیں۔ انتہائی شاندار تعلیمی کیرئیر کے حامل حامد حسین نے برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی سے آرگینک کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کی۔ اس دھرتی کے بیٹے کا حق ادا کرتے ہوئے برطانیہ کی محفوظ فضائوں میں اپنا مستقبل تلاش کرنے کے بجائے واپس اپنے ملک آ کر باچا خان یونیورسٹی سے منسلک ہوگئے۔ ابھی تین سال ہی گزرے تھے کہ دہشت گردں کی سفاکیت کا نشانہ بن گئے۔ اُمید ہے حکومت پاکستان اس سرفروش اور بہادر استاد کی عظیم قربانی کو خراج عقیدت کرنے کے لیے سرکاری اعزاز کا اعلان کرے گی اگرچہ کوئی بھی سرکاری اعزاز کسی جان کی تلافی نہیں کر سکتا۔ پیچھے رہ جانے والے دو معصوم بچے شاید بڑا ہونے پر یہ ضرور سوچیں گے کہ اُن کا باپ دھرتی کی محبت میں واپس تو آیا تھا مگر یہ دھرتی اُس کی جان کی حفاظت نہ کر 
سکی۔ جب ہمارے وزیر اعظم عالمی اقتصادی فورم پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو ہر طرح کی سکیورٹی دی جائے گی اور وہ انہیں باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ سرمایہ کاروں کے لیے پاکستان محفوظ ملک ہے‘ تو حیرت ہوتی ہے کہ ہم سکولوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے نوجوانوں اور بچوں کی حفاظت تو کر نہیںکر سکے‘ہمارے سکول اور اب یونیورسٹی طالب علموں کے لہو سے سرخ ہو گئی‘ کتابوں کے صفحات بارود کی آگ میں جھلس گئے‘ سفاک درندوں نے عِلم کی شمعیں بجھادیں گھروں کے چراغ گل کیے‘ مائوں کے آنگن اجاڑ دیے۔ آہ میرے وطن کی وہ دکھی مائیں جو اپنی گودوں کے پالے سنہرے بدن تابوتوں میں بند دیکھتی ہیں اور دُکھ سے کُرلاتی ہیں:
مائیں اپنے جگر کے ٹکڑوں کو...کس طرح ٹکڑے ٹکڑے دیکھتی ہیں
بھائیوں کی تلاش میں بہنیں...ننگے پائوں نکلتی ہیں گھر سے
بوڑھے باپ اپنا پیارا مستقبل...اپنے ہاتھوں سے دفن کرتے ہیں
ہر کفن میں ہیں کتنی اُمیدیں...بند تابوت میں کئی نسلیں
دہشتوں کا سفر نہیں رُکتا...نفرتوں کا گزر نہیں رُکتا
یہ چند مصرعے کہنہ مشق صحافی محمود شام کی ایک دلگداز نظم کے ہیں جو انہوں نے چارسدہ یونیورسٹی پر حملے کے بعد کہی۔ ہر پاکستانی اس وقت دکھ میں ہے اور سب سے بڑھ کر عدم تحفظ کا احساس گھر کی چار دیواری میں بھی ہراساں کیے رکھتا ہے نہ جانے موت‘ بارود‘ خوف اور دہشت کا یہ سفر کب رُکے گا۔ یقیناً آپریشن ضرب عضب میں پاک فوج بہادری سے قربانیاں دے رہی ہے۔ اس کا احساس اور اس کی پذیرائی عوام میں موجود ہے لیکن یہ روایتی جنگ کی طرح صرف سرحدوں پر لڑی جانے والی لڑائی نہیں‘ یہ بے چہرہ جنگ تو گلی کوچوں‘بازاروں‘ مسجدوں میں لڑی جا رہی ہے اوراب اس کے شعلے سکولوں اور یونیورسٹیوں تک آن پہنچے ہیں۔ حالت جنگ میں مبتلا ملک کے معاشرے کا جو اجتماعی احساس اور سوچ ہونی چاہیے وہ ہمارے ہاں ناپید ہے۔ ایک ملک جو حالت جنگ میں ہو اور جنگ بھی انتہائی گمبھیر اور پیچیدہ‘نہ اُس کے حکمران ایسے ہوتے ہیں نہ اُس کے عوام ۔ یہاں دہشت گردی کے عفریت سے نمٹنے کو کبھی پاکستان کا نمبر ایک ایشو نہیں سمجھا گیا۔ دشمن جس طرح سے ہمارے اداروں کے اندر گھس کر خون کی ہولی کھیل جاتا ہے‘جس طرح ماضی میں جی ایچ کیو جیسے انتہائی اہم اور حساس اداروں کی سکیورٹی Breakہوئی‘ اُس سطح کا احساسِ ذمہ داری اور احساس زیاں نہ حکمرانوں میں پیدا ہوا نہ عوام میں۔ ادھر ایک سانحہ ہوا اُدھر بیانات ‘عزائم اور تجزیوں کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ دفاعی ماہرین سے لے کر گلا پھاڑ پھاڑ کر بولنے والے نیوز اینکرز پروگراموں کا پیٹ بھرنے کے لیے تجزیوں کی دیگ پکاتے ہیں ‘حکمران افسردہ چہروں کے ساتھ جائے وقوعہ اور متاثرین کے گھروں کا دورہ کرتے ہیں‘امدادی رقوم کا اعلان ہوتا ہے‘ چند دن یہی خبریں اخباروں اور ٹی وی چینلز پرچلتی رہتی ہیں‘ ہم جیسے لوگ ایک آدھ دکھ بھرا کالم لکھ کر اپنا فرض ادا کرتے اور پھر بھول جاتے ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جو حالت جنگ میں ہے۔ اس کے شہروں‘ سکولوں اور بازاروں تک جنگ کے شعلے پہنچ چکے ہیں۔ آج کل حکمرانوں کی ترجیحی فہرست میں نمبر ون مسئلہ اقتصادی اصلاحات ہیں۔ یقین نہ آئے تو ڈیُوس میں عالمی اقتصادی فورم میں وزیر اعظم نواز شریف کی وہ تقریر سن لیں جو انہوں نے چار سدہ یونیورسٹی پر حملے کے روز کی اور کہا کہ ہماری حکومت کی پہلی ترجیح معاشی استحکام ہے۔ دوسرے نمبر پر انہوں نے کچھ اور کہا اور پھر تیسرے نمبر پر دہشت گردی کے خاتمے کی بات کی۔ وزیر اعظم صاحب! دہشت گردی کو شکست دینے کے لیے آپ کو ترجیحات کی فہرست دوبارہ بنانا ہو گی!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں