چک شہزاد کے فارم ہائوس اورراولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں کیافرق ہے ؟یہ سمجھنے کے لئے فارم ہائوس اورجیل کے مابین فرق کوسمجھنا ہوگا۔پرانے وقتوں میںبادشاہ اورحکمران محلوں اورمضبوط قلعوں میں رہاکرتے تھے،جس میںعیش وعشرت اورحفاظت دونوںسہولتوں کا خیال رکھاجاتاتھا ۔جدید دور میںحکمرانوں کے لیے جملہ سہولتوں کا پیکج انہیں’’بلٹ پروف فارم ہائوس‘‘میں مہیا کیاجاتاہے۔ زمانہ جدید کی اس تعمیراتی ترقی سے فوجی اورسویلین دونوں اقسام کے حکمران مستفید ہوتے ہیں،فرق یہ ہے کہ سویلین حکمران صرف اپنے دور اقتدار میں بلٹ پروف محل میں قیام فرماتے ہیںجبکہ فوجی حکمران ریٹائرمنٹ کے بعد بھی قصر سلطانی سے ملتے جلتے فارم ہائوس سے تیارہوکر مقدمات کا سامنا کرنے کے لیے پیشیوں پرجاتے ہیں۔ فارم ہائوس اورجیل کے مابین فرق سے مجھے ’اسلامی جمہوریہ پاکستان ‘ کے سٹیج پر کھیلا گیا ،وہ روح فرسا ڈرامہ یاد آگیاجس کے اہم کرداروں میںاس وقت کے آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق اورمنتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شامل تھے۔ یہ معرکہ کارگل کے ہیرو’’ کمانڈو خان ‘‘اور رائے ونڈکے ’’کنگ خان ‘‘کے مابین لڑی گئی ’’پانی پت کی چوتھی جنگ ‘‘ سے پہلے کی بات ہے ۔ یہ 4جولائی 1977ء کی بات ہے ۔جی ایچ کیو میںآرمی چیف جنرل محمدضیاء الحق اپنے ساتھی جرنیلوں کے ساتھ رات کی تاریکی میںمنتخب حکومت کے خلاف سازش اورملک پر مارشل لا نافذ کرنے کی تیاری مکمل کرچکے تھے ،صرف اعلان ہونا باقی تھا ۔جنرل ضیااوران کے ہمنوائوںکا کہناتھاکہ ملک کا آئین توڑنے کے عمل کو مارشل لاکی بجائے ’’عارضی نظام برائے انتخابات‘‘ یا دوسرے الفاظ میں’’ انتظام برائے انتخابات‘‘ کا عنوان دینا چاہیے۔مارشل لانافذکرنے اورقانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے آئین اورقانون کے محافظ اورتشریح کے مجاز چیف جسٹس یعقوب علی خان کو بلایاگیا۔چیف جسٹس نے جرنیلوں کو مارشل لانافذ کرنے سے روکنے کی بجائے مشورہ دیا کہ آئین کو توڑنے کی بجائے عارضی طور پر معطل کردیاجائے۔جنرل ضیاالحق کا مسئلہ حل ہوگیالہٰذا وہ بطور مارشل لاایڈمنسٹریٹر ’’ میرے عزیز ہم وطنو‘‘ کہہ کر قوم سے مخاطب ہوئے اورگیارہ سال تک بلاشرکت غیرے حکمران بن گئے۔جنرل ضیا ء الحق اور ان کے ساتھی جرنیلوںنے اس وقت قوم پر مارشل لامسلّط کیاتھاجب بھٹو حکومت اورپاکستان قومی اتحاد کے رہنمائوں میںآئندہ انتخابات کے حوالے سے معاہدہ طے پاچکاتھا۔4جولائی کی رات ،یوں تو ملک کے آرمی چیف،جرنیلوں اورچیف جسٹس نے منتخب حکومت کو الٹنے کے ’’فول پروف‘‘ انتظامات کررکھے تھے ٗ مگر اس وقت کے سیکرٹری اطلاعات مسعودنبی سے ایک غلطی ہوگئی تھی جس کے باعث ریڈیو پاکستان سے مارشل لانافذ ہونے کی خبر صبح پانچ بجے کے بلیٹن کے بعد نشر کی گئی تھی۔ ملک کے نیک نام اوربزرگ ایڈووکیٹ یحییٰ بختیار مرحوم نے لکھاتھاکہ لاہور ہائی کورٹ نے ایک غیر معروف سیاسی مخالف کو قتل کرانے کی سازش کے الزام میں جناب بھٹو کو موت کی سزا کاحکم دیاتھا،اس سزائے موت کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میںجو اپیل دائر کی گئی تھی اس کی پیروی کے لیے انہوں نے مجھے وکیل ِصفائی مقرر کیاتھا۔ میں اپنے انتہائی محترم اورممتاز موکل کو بچانے میں کامیاب نہ ہوسکا ۔میرے ساتھ اہل اورمخلص وکلاء کی پوری ٹیم تھی جنہوں نے ان کی زندگی بچانے کی کوشش میں میری مدد کی ۔ اس عمل کے دوران ٹیم کے ایک رکن غلام علی میمن، بھٹو صاحب کی بے گناہی کے کیس کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کامقدمہ بھی ہار گئے تھے۔مارچ 1978ء سے لے کر مارچ 1979ء تک یحییٰ بختیارکی سربراہی میںقانون اورجمہوریت پسند وکلاکی ٹیم فوجی جرنیلوں اورججوںکے گٹھ جوڑ کے خلاف لڑتے رہے ۔اس جعلی مقدمہ میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کھل کر جانبداری کا مظاہرہ کرتے رہے۔اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق کو اس عہدے پر جنرل ضیاء الحق بطور خاص اس لیے لائے تھے کہ بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا دلواسکیں۔مولوی مشتاق کو بھٹو صاحب نے میرٹ کے خلاف ترقی دینے سے انکار کردیاتھا جس کے باعث وہ ان کے جانی دشمن ہوگئے تھے۔مؤرخین نے لکھا ہے کہ مولوی مشتاق ،قصوری قتل کیس میں بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا عدالت میںسنانے سے قبل اپنے ڈرائنگ روم میں کئی بار سنا چکے تھے۔ اکانومسٹ لندن نے 25مارچ 1978ء کے اپنے شمارے میںلکھا تھاکہ ’’چیف جسٹس مولوی مشتاق جس نے اس مقدمہ کی سماعت کی وہ ذاتی طور پر مسٹر بھٹو کے خلاف تھا‘‘۔امریکہ کے مسٹر ریمسے کلارک، کوپن ہیگن کے پروفیسر ایف سی کرون سمیت دنیا بھر کے وکیلوں کی نمائندہ تنظیموں نے بھٹو کیس کو قانون کا قتل قرار دیاتھامگر جنرل ضیاء الحق اوراسکے ہمنوائوں نے اسے قانون کی حکمرانی قراردیا۔چونکہ اس زمانے میں ابھی ٹاک شوز میںاینکر گری کا رواج نہیںتھا اس لیے ’’سب سے پہلے پاکستان ‘‘ اورقومی سلامتی کا یہ مشن’’ رائٹ ہینڈDRIVE پریس‘‘ میںبھرتی ہوئے دانشوروں کو سونپ دیاگیا۔متذکرہ مائی کے لال اورلالے بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی کی مخالفت قومی فریضہ سمجھ کر آج تک جاری رکھے ہوئے ہیں۔بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعدشاہ نوازبھٹو،مرتضی ٰ بھٹواوربی بی بے نظیر بھٹو کے قتل جیسے ’’سنگ میل‘‘طے کرکے قوم اب 2013ء کے عام انتخابات کی دہلیز پر کھڑی ہے،جہاں رائٹ ہینڈ DRIVEمیڈیا یہ تجزئیے پیش کررہاہے کہ پنجاب خصوصاََ لاہور سے پیپلز پارٹی کا ’’کریاکرم‘‘ (تجہیز وتکفین) کردیاگیاہے۔ داتا کی نگری میں پیپلز پارٹی کے خاتمے اور قومی سلامتی کے ’’ ترقیاتی پروگرام‘‘ کا آغاز جنگلہ بس کے اجراء اورانڈر پاسز کی تعمیر سے بہت پہلے کا ہے۔بھٹو صاحب نے ہائی کورٹ سے موت کی سزا پانے کے بعداپنی بیٹی بے نظیر بھٹوکوکال کوٹھڑی سے خط میں اس منصوبے کا انکشاف اوروجہ بیان کردی تھی ۔بھٹوصاحب نے لکھا تھاکہ’’1970ء میں،میں پنجاب کے ہرگائوں میںگیااوراس حکمران ٹولے کے غبارے میں سے ہوا نکال دی تھی۔میں پنجاب کابھی اسی طرح غیر متنازعہ لیڈر ہوں جس طرح کہ باقی ملک کا مصدقہ لیڈر ہوں۔یہی وجہ ہے کہ یہ ٹولہ مجھ سے نفرت اورحقارت سے پیش آتاہے ۔میں نے اُنہی کے گڑھ میں ان کی قلعی کھول دی ۔ میں نے پنجاب کے عوام کو ان لوگوں کو گردن سے پکڑنے کے لیے تیار کیا۔‘‘بھٹو صاحب نے بے نظیر بھٹو کو لکھے خط میں یہ بھی لکھا تھاکہ ’’ 1970ء کے انتخابات کے بعد جرنیلی جنتا میرے خون کی پیاسی ہوگئی تھی ٗ اس کااندازہ مجھے 4جولائی کی رات کو ہی ہوگیاتھاجب مجھے قتل کرنے کی بجائے زندہ گرفتار کیاگیاتھا تاکہ مجھے اذیت ناک موت سے دوچار کیاجاسکے ‘‘۔ ظاہری طور پر بھٹو صاحب کو ایک غیر معروف سیاستدان نواب محمد احمد خان کے قتل میں پھانسی کی سزا دی گئی تھی۔ نواب مرحوم جنرل مشرف فیم وکیل احمد رضا قصوری کے والد تھے ۔ احمد رضا قصوری جنرل مشرف کے خلاف ہر مقدمہ کے ’’ریڈی میڈ ‘‘ وکیل ہیں۔ عجب اتفاق ہے کہ موصوف بھٹو صاحب کے خلاف قتل کے مقدمہ کے مدعی اورجنرل مشر ف کے وکیل ہیں۔ ظاہری طور پر بھٹو صاحب کو نواب محمدا حمد خان قصوری کے قتل کے الزام میںپھانسی دی گئی لیکن درحقیقت انہیںفرانس سے ایٹمی ری پروسسینگ پلانٹ کا معاہدہ کرنے کی سزا دی گئی تھی۔بھٹو صاحب کی سزائے موت کا اعلان اس وقت کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے دھمکی کی صورت میں کردیاتھا۔ جس پر عمل درآمد کے انتظامات آرمی چیف جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے ہمنوا جرنیلوں اور ججوں کے ساتھ مل کر پایۂ تکمیل تک پہنچائے ۔ قومی سلامتی کے اس منصوبے پر رائٹ ہینڈ ڈرائیو میڈیا نے جنرل محمد ضیاء الحق کی کھل کر حمایت کی اورانہیں ’’مرد مومن ، مرد حق ِضیاالحق ‘‘قراردیا۔اسی میڈیاکے اساتذہ ٔفن نے جرنیلی نرسری میں پیدا کی گئی ’’فارمی لیڈر شپ‘‘ کو اصلی اصیل لیڈر شپ قرار دینے کے بعد جمہوری شیر اورببر شیر قراردے دیا۔ الیکشن 2013ء کی بابت اب ہمیں اسٹیبلشمنٹ کی نرسریوں میں پلے بڑھے فارمی ، ہومیوپیتھی اورآرڈر پر تیار کردہ ہینڈ میڈلیڈر ہی دستیاب ہیں۔ تاہم قائدین کا دعوی اوراصرار ہے کہ انہیں اصلی جمہوری اصیل لیڈر شپ لکھا اور پکارا جائے۔ محترمہ فاطمہ جناح کے بعد ہمارے ہر جمہوری لیڈر کی پرورش وپرداخت اسٹیبلشمنٹ کی گود میںہوئی۔ تاہم کمپنی کی مشہوری اورلاڈلی لیڈر شپ کو خوش کرنے کے لیے ’’شیر آیا،شیر آیا‘‘ کہنے میںکوئی حرج نہیں۔