"TSC" (space) message & send to 7575

دوستوںکے شہر میں ’شاہ جی‘ زندہ ہوں گے

تاجپورہ کے عباس اطہر پارک میں ہی عباس اطہر صاحب کا جسد خاکی پڑا تھا۔ گذشتہ کئی ماہ سے شاہ جی کواپنی جان لیوا بیماری سے لڑتے دیکھ کر بھی مجھے یقین نہیںآرہاتھاکہ وہ ہم سے بچھڑ گئے ہیں۔ان کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات اورواقعات دماغ کے سلولائیڈ پر اُبھر رہے تھے۔ وہ مجھے اپنے آفس میں ایڈیٹر چیئر پر بیٹھے مخصوص انداز میںکالم لکھتے دکھائی دے رہے تھے،بال پوائنٹ ہاتھ میں تھامے رائٹنگ پیڈ پر جھکے‘ لکھنے میںمصروف ۔اکثر ایسا ہوتا کہ کالم لکھتے ہوئے وہ سگریٹ تو سلگاتے مگر لکھنے میںاس قدر گم ہوجاتے کہ سارا سگریٹ سلگ کر راکھ بن جاتا اور وہ دوسرا سگریٹ سلگاتے ۔ شاہ جی مجھے منوبھائی کے ساتھ باغ جناح میںجاگنگ کرتے دکھائی دے رہے تھے۔میں انہیںپریس کلب کے انتخابات کے لیے اپنے گروپ کے امیدواروں کے لیے کنویسنگ کرتے بھی دیکھ رہاتھا۔ مجھے یوں لگ رہاتھاکہ میںحسب معمول گاڑی چلارہاہوں اورشاہ جی ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے کہہ رہے ہیںکہ ’’ہیروصاحب گڈی تاج پورے ول موڑ لو‘‘(ہیروصاحب گاڑی تاج پورے کی طرف موڑ لیں)۔۔۔کاش ایسا ہوتاکہ شاہ جی مجھے ہیرو کہہ کرپکارتے ۔۔۔لیکن شاہ جی وفات پاچکے تھے ۔آج انہوں نے سفاری سوٹ کی بجائے کفن اوڑھ رکھاتھااورلوگ ان کا آخری دیدار کررہے تھے۔ میں اپنے پیاروں کا آخری دیدار نہیں کیاکرتا۔والد غلام سرورمیراوروالدہ ثریااختر مرحومہ کو لحدمیں اُتاراتھا‘ مگر آخری دیدار نہ کیا۔میںاپنے ذہن میںجانے والوں کا متحرک امیج ہی محفوظ رکھتاہوں۔اس احساس کے ساتھ کہ پیارے ہم سے بچھڑے ہیں ٗمرے نہیں۔ شاہ جی کے عزیز واقارب اورساتھی ان کا آخری دیدار کررہے تھے اورمیںمنیر نیازی کے اس خیال سے تسلی پانے کی کوشش کررہاتھاکہ ؎ وہ جو اس جہاں سے گزر گئے کسی اور شہر میں زندہ ہیں کوئی ایسا شہر ضرور ہے انہی دوستوں سے بھر ا ہوا شاہ جی سے میرے کئی رشتے تھے۔ وہ میرے بزرگ ،استاد ، رہبر،رہنما،محبوب اوریار بیلی تھے۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ شاہ جی مجھے اپنا BLUE EYED BOY(آنکھ کا تارا) کہا کرتے تھے۔ میںتوانہیںاپنا بزرگ اوراستادہی سمجھتاتھامگر یار بیلی میرے وہ خود بنے،بے تکلف لطائف اوراپنے ایسے قصے سناکر جنہیں بڑے بوڑھے اکثر بچوں سے چھپاتے ہیں۔اپنے کیرئیر میںمجھے دومختلف اخبارات میںان کی زیر ادارت کام کرنے کے مواقع میسر رہے ٗ جنہیںمیں ’’سنہری مواقع‘‘ سمجھتاہوں۔پہلی بار 90ء کی دہائی کے آغاز میں شاہ جی کی زیر ادارت روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں فلم اورٹی وی میگزین کا انچارج رہا۔یہ دور میاں نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کاتھا۔6نومبر 1990ء سے 18 جولائی 1993ء تک کایہ دور ہنگامہ خیز تھا۔یوں تو شاہ جی ایک بڑے صحافی تھے مگر سرخی کے فن کا تو انہیںدلیپ کمار ماناجاتاہے۔ نوّے کی دہائی میںمیاں نوازشریف کا دورسیاسی تنازعات سے اٹا رہا۔ اس دور میں نواز حکومت کی فوج اورعدلیہ سمیت دیگر ریاستی اورانتظامی اداروں کے ساتھ کھلی جنگ رہی ٗ ایک اعصاب شکن جنگ کے بعد جب صدر غلام اسحاق خان نے شریف حکومت کو برطرف کیاتو شاہ جی نے یہ سرخی جمائی تھی’’بدمعاش حکومت برطرف کردی گئی ‘‘۔کہتے ہیںمیاں نواز شریف حکومت برطرف کیے جانے کا غم شاید بھول گئے تھے لیکن انہیںشاہ جی کی سرخی بہت دیر تک یادرہی تھی۔متذکرہ اخبار میںہی جنرل جہانگیر کرامت کے غیر متوقع طور پر آرمی چیف منتخب ہونے پر صرف ایک لفظی سرخی۔۔۔۔ کرامت۔۔۔۔ صحافت میںشاہ جی کی کرامت بن کر ہمیشہ یاد رہے گی۔1971ء میں دو کشمیری حرّیت پسندوں ہاشم قریشی اورکزن ارشد بٹ نے بھارتی فضائیہ کا طیارہ گنگا ہائی جیک کرکے اسے تباہ کردیاتھا۔گنگا کے اغوااورتباہ کرنے کی تمام کہانی کو شاہ جی نے ۔۔۔ٹھاہ ۔۔۔کے عنوان سے موسوم کیاتھا۔یہ سرخی بھی تاریخ کا حصہ ہے۔۔۔اِدھر ہم ُاُدھرتم۔۔۔بھی شاہ جی کی جمائی سرخی تھی مگر ان کاکہناتھاکہ بھٹو صاحب کی تقریرمیںیہ اصطلاح کہیںبھی استعمال نہیںکی گئی تھی۔ بھٹو صاحب کے سیاسی مخالفین نے شاہ جی کی اس سرخی کی تشہیر ’’بغض ِمعاویہ ‘‘ کے تحت خوب سرانجام دی۔ نوّے کی دہائی میںشاہ جی کے ساتھ گزارے دنوں کو میں ’’مہکتے میٹھے من مانے زمانے‘‘کا عنوان دیتا ہوں۔ شاہ جی کے ساتھ زندگی اورصحافتی کیرئیر کے دوسرے سپیل کا آغاز 2006ء میںہواجب وہ ایک قومی اخبار کے گروپ ایڈیٹر بن کر آئے تھے۔ اس عرصہ میں ٗ میں بطور انٹر ٹینمنٹ ایڈیٹر اورکالم نگار اپنے فرائض سرانجام دے رہاتھا۔شاہ جی نے کالم نگاری کے سلسلہ میںمیری رہنمائی اورسرپرستی فرمائی۔ان کی نظر کرم اورتوجہ کا ثمر تھاکہ چند دنوں میںمیرا کالم ’’فٹ پاتھ‘‘ ادارتی صفحہ سے صفحہ 2 کی زینت بن گیا۔متذکرہ صفحہ پر میرا کالم شاہ جی اوربعض ایسے کالم نگاروں کے روبروتھاجو امیتابھ بچن اور کرینہ کپور المعروف بے بو کی طرح ہائسٹ پیڈ تھے۔ شاہ جی کو میرا کالم لکھنے کا انداز پسند تھا،وہ میرا کالم بطور خاص خود دیکھتے اوراس میںمناسب قطع برید بھی کیاکرتے تھے۔کالم نگاری کے فن سے متعلق وہ بوجھل ،بھاری بھر کم تراکیب اور خواہ مخواہ کی دانشوری کو پسند نہیںکرتے تھے ۔وہ اکثر کہاکرتے تھے کہ اخبارات میںزیادہ تر لکھنے والے ’’جوابِ آں غزل ‘‘ کی تکنیک پر ’’جوابِ آں مضمون ‘‘ لکھ کراخبار کی قیمتی جگہ ضائع کررہے ہوتے ہیں۔میرے نزدیک شاہ جی کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے دوستوں اورپیار کرنے والوں کی ٹانگ کھینچنے کی بجائے ان کی مدد کیاکرتے تھے۔کیرئیر سازی میںکوئی کسی کی مدد نہیںکرتا،آپ کی زندگی میں اگر کوئی یہ کارنامہ سرانجام دیتا ہے تو یقینا وہ آپ کے والدین ہوسکتے ہیںیاپھر کوئی شاہ جی۔ شاہ جی اورمیرے پیار اوراحترام کے رشتے میںبعض’’ کھل نائیک ‘‘بھی آئے۔لوسٹوری میںجب تک کھل نائیک یا ولن کی انٹری نہ ہو‘ فلم کا مزہ نہیںآتا۔ ’’کھل نائیک ایسوسی ایشن‘‘ اس تاک میںتھی کہ مجھ سے کوئی غلطی سرزد ہواوروہ شاہ جی کی اسمبلی میں میر ے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد پیش کریں۔پریس کلب کے ایک الیکشن میںمیری جارحانہ کمپین سے میرے ہاتھوں ایک عدد پدی اورایک عدد شوربے کا سیاسی کیرئیر ختم ہوگیا۔شاہ جی میری اس مہم جوئی پر مجھ سے ناراض ہوگئے مگر میرے اورشاہ جی کے مشترکہ دوستوں‘ جن میںسہیل احمد، سعید قاضی اورگلوکارجواداحمد شامل ہیں‘ نے مل کر میری شاہ جی سے دوبارہ ’’جادو کی جپھی‘‘ ڈلوا دی جس کے لیے میںان کاممنون ہوں۔ شاہ جی صحافت میںصحافیوں کے رومانس اورہزار داستان بن کرجئے ۔منوبھائی کاکہنا ہے کہ عباس اطہر 78سال کی عمر میںکئی صدیاں جئے۔عطاء الحق قاسمی انہیںایک شاندار انسان کہتے ہیں۔ نذیر ناجی انہیںایک ادارہ قرار دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کاخیال ہے کہ شاہ جی جتنے بڑے صحافی تھے اس سے کئی گنابڑے شاعر تھے۔ خود ان کا خیال تھاکہ صحافت کا گلیمر ان کے اندر کے شاعر کو کھا گیاتھا۔ شاہ جی کی تمنا تھی کہ ان کی شاعری کو موسیقی کی شکل میںگایااورمحفوظ کیا جائے۔ 2006ء میں انہوں نے اپنی اس خواہش کا اظہار مجھ سے کیاتو میں نے ان کی شاعری کو پاکستان اوربھارت کے نامور سنگرز سے گوانے کا عزم کیا۔ شاہ جی کے کلام کو ریکارڈ کرنے کیلئے میںدومرتبہ جالندھر،دہلی اورممبئی گیاجہاں دلیرسنگھ مہدی،ہنس راج ہنس اورسردول سکندر کو ریکارڈ کیاجبکہ ابرارالحق، جواد احمد، فریحہ پرویز، رفاقت علی خاں، شاہدہ منی ، نصیبولال، صنم ماروی، حمیراارشد،چھکوخاں اورجاوید بشیر کو پاکستان میںریکارڈ کیا۔ شاعری اورموسیقی کا یہ عجوبہ یو۔ٹیوب پر MAAYE NIکے عنوان سے محفوظ ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹوکی سیاسی جدوجہد کا احاطہ کرتی شاہ جی کی لکھی نظم ’’بھٹو دی بیٹی آئی جے‘‘ میں نے پروڈیوس کی جسے عالمی شہرت حاصل ہوئی اوراس پر انہیں پرائڈآف پرفارمنس ایوارڈ بھی دیاگیا۔شاہ جی نے اس نظم کا آئیڈیا دیہاتوں اورقصبوں میں بچیوں کے کھیل ’’راجے دی بیٹی آئی جے‘‘ سے مستعار لیا تھا۔شاہ جی نے دسمبر 2007ء میںیہ نظم لکھی تھی جسے میں نے موسیقار چھکوخان سے کمپوز کرایا تھا۔ 28دسمبر کو میںاورشاہ جی محترمہ بے نظیر بھٹو کو لاہور میںیہ سی ڈی الیکشن2008ء کے تحفہ کے طور پر دینے والے تھے۔ آئیڈیا یہ تھاکہ نظم کو تشہیری مہم کے طور پر نشر کیاجائے مگر 27دسمبر کی شام بی بی کو راولپنڈی میں قتل کردیاگیا۔ مجھے یاد ہے جب میں’’بھٹو دی بیٹی آئی جے ‘‘ کی سی ڈی ہاتھ میںتھامے شاہ جی کے کمرے میںداخل ہواتھاتو ٹی وی پر بی بی کے قتل کی خبرقیامت ڈھا رہی تھی۔شاہ جی اس جہان سے تو گزر گئے ہیںلیکن میرے دل ودماغ میںوہ منیر نیازی کے دوستوں سے بھر ے اس شہر میں زندہ ہوں گے جہاں مجھے بھی ایک دن ان سے ملنا ہے !!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں