"TSC" (space) message & send to 7575

پیپلز پارٹی اور ’’پلے بیک‘‘ لیڈر شپ

کراچی میں دوبارہ ہونے والے انتخابی میچ میں تحریک انصاف نے میدان مار لیاہے۔ 19مئی کی پولنگ کا ایم کیوایم نے بائیکاٹ کیاتھا اور اسے پیپلز پارٹی کی حمایت بھی حاصل تھی۔پیپلز پارٹی کبھی ملک کی سب سے بڑی جماعت تھی ٗ اب یہ شامل واجا بنتی جارہی ہے۔ حالیہ الیکشن میں اس کاسائز سکڑ کر اندرون سندھ اور کہیں کہیں پنجاب تک محدود دکھائی دیا۔پیپلز پارٹی کو شکست دینے کے لئے ’’فاتحین‘‘ نے اس پر اتنی حملے کئے جتنے سومنات پر کئے گئے تھے۔ان حملوں میں کراچی اورلاہور خاص اہداف رہے۔70ء کے انتخابات میںبھٹو صاحب اوران کی نئی نویلی جماعت پیپلز پارٹی ببر شیر کی طرح لاہور میں دھاڑی تھی‘ پھر اسے بکری بنانے کے پروگرام کے تحت لگڑ بگڑوںپر محنت کی گئی۔’’آپریشنز ‘‘ کے ذریعے پیپلز پارٹی کی جنس بدلی گئی اور پھر یہ شیر سے بکری بن گئی۔ کراچی کی بات کی جائے تو عروس البلاد میںمتحدہ سے الیکشن جیتنا ایسے ہی ہے جیسے کوئی عظیم برازیلی فٹ بالر پیلے(Pele)کی ٹیم سے فائنل میچ جیت جائے یا محمدعلی کلے سے کوئی باکسنگ کا میچ جیت جائے یا جیسے کوئی کوہ قاف کے شاہ ِجنات کوہرا دے۔ صدر آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے ’’پارٹ ٹائم‘‘ سرپرست ہیں ۔ اپنی پارٹی سے سوتیلوں جیسے سلوک کی وجہ ان کا وہ آئینی عہدہ ہے جس کے ہوتے ہوئے وہ سیاست میںحصہ نہیںلے سکتے… سبحان اللہ … ایک سیاسی صدر سیاست میں حصہ نہیں لے سکتالیکن باوردی صدورجملہ قسم کی سیاسی سرگرمیوں میںملوث پائے جاتے رہے ۔اقتدار کے کھیل میں باوردی صدور اپنے‘اپنے وقتوں میںکنونشن لیگ ، جونیجو لیگ،قاف لیگ ،عوامی لیگ سمیت مختلف ناپ اور ڈیزائن کی لیگیں بنانے میںمصروف رہے ہیں‘ لیکن سیاسی صدر پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی! یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب پیپلز پارٹی کے ’’ پلے بیک لیڈر‘‘ بن کر اپنی صدارت کی ٹرم گذارنے میںمصروف رہے ۔زرداری صاحب اس بار سنڈے منانے لاہور آئے جہاں انہوں نے صحافیوں سے ملاقات میںپیپلز پارٹی کے زوال کے اسباب پر روشنی ڈالی۔صدر زردای نے کہاکہ 11مئی کے الیکشن ریٹرننگ افسروں کے انتخابات تھے جس کا پنجاب میں بہت اہم کردار تھا‘ ہم انتخابات میںاپنی شکست تسلیم کرتے ہیں،2008ء میں ہم بی بی کی قربانی دے چکے تھے ،اب کس طرح ایک اوربھٹو کو قربان کردیتے۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف عدالتی احکامات کی وجہ سے الجھے رہے، یوسف رضا گیلانی انتخابات سے قبل اپنے مغوی بیٹے کی بازیابی کے حوالے سے پریشان اورمصروف رہے جبکہ ہائی کورٹ کے احکامات کی وجہ سے میں خود ایوان صدر کی چار دیواری تک محدودرہاجس کے باعث پیپلزپارٹی کو شکست ہوگئی۔انہوںنے کہاکہ ہماری 45سیٹیں چھین لی گئیں۔ ہمارا اندازہ تھاکہ نون لیگ 80سے90نشستیں جیتے گی مگر انہیںبہت زیادہ سیٹیں مل گئیں۔صدر صاحب نے فرمایاکہ پیپلز پارٹی غریب عوام کی جماعت ہے اوراسے عوام میں ہی واپس لے جاناہوگا۔ صدر صاحب نے پیپلز پارٹی کی واپسی کا تذکرہ کرتے ہوئے بیان نہیں کیاکہ کس ’’روٹ ‘‘ سے اسے عوام میںلایاجائے گا؟غریب عوام میںپی پی کی واپسی کے سفر کا ڈرائیور کون ہوگا؟ شکست خوردہ آصف علی زرداری یا تازہ دم بلاول بھٹو زرداری؟اگرتویہ سفر پرانے ڈرائیور نے ہی طے کرنا ہے تو پھر اقتدار تک پہنچنے کے ان لمبے روٹوں پر ان کے ساتھی وہی رحمان ملک ، ڈاکٹر عاصم ، ڈاکٹر قیوم سومرو سمیت دیگر گھاگ ’’کلینڈر‘‘ ہوں گے جو ان کی سنگت میںپچھلے پانچ سال ملکہ ترنم نورجہاں سے منسوب یہ گیت کورس کی شکل میںگاتے مزے لوٹتے رہے ہیں مینوں رکھ لے کلنڈر نال جی کرد اا ے چلاّں میں تیرے نال لمیاں روٹاں تے ہائے وے لمیاں روٹاں تے اس گیت کا سیاسی ترجمہ یوں ہوسکتاہے! اے اقتدار کے لمبے روٹوں کے مسافر! میراجی چاہتاہے میں اس سہانے سفر پر کلنڈر بن کر آپ کے ساتھ رہوں۔ غالب نے بھی کسی ایسے سفر کی روانگی پر حج کا ثواب نذر کرنے کی پیشکش یوں کی تھی: غالب گر اس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں حج کا ثواب نذر کروں گا حُضور کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کہاکرتے تھے کہ یہ غریبوں کی پارٹی ہے مگر بی بی کی شہادت کے بعد اسے ایک کارپوریٹ کمپنی کی طرح چلایاگیا۔پی پی کو اس انتظام وانصرام کے تحت چلانے کے احکامات ریاستی اداروں سے جاری ہوتے رہے۔بی بی کی شہادت کے بعد یہ پارٹی سیاسی ترکے کے طور پر جنہیںورثے میںملی ،موت کے بادل ان پر بھی چھائے رہے ۔اس لیڈر شپ کے پاس دوآپشن تھے۔ اوّل یہ کہ وہ عوام سے رابطے کی مہم میں کسی نوعمر خودکش کے روپ میںآئے اور موت کے فرشتے سے گلے مل لے۔ دوم یہ کہ وہ ایوان صدر میںبیٹھ کر اپنی ٹرم اورمحفوظ زندگی کے دن گنتے رہتے۔ہمارے خیال میںان کی پاس تیسری آپشن بھی موجود تھی جس کی طرف دھیان نہیںدیاگیا۔وہ آپشن یہ تھی کہ سیاست جیسے سفاک اورشطرنج کے کھیل میںشاطروں کے ساتھ ساتھ ایسے نظریاتی ساتھیوں کو بھی میدان میںاتارا جاتاجو بھٹو کے اس فلسفے پر یقین رکھتے کہ ’’طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔‘‘افسوس کہ پارٹی کے اس بنیادی فلسفے کو بھلاکر صرف یہ سمجھ لیاگیاکہ ایک قومی سیاسی پارٹی کو میڈیائی مشیروں کے مشوروںسے چلایاجاسکتا ہے۔کہاں ڈاکٹر مبشر حسن اورکہاں ڈاکٹر عاصم‘ کہاں جے اے رحیم اورکہاں رحمان ملک‘ کہاں خورشید حسن میر اورکہاں جہانگیر بدر‘ کہاں شیخ رشید(بابائے سوشلزم) اورکہاںراجہ ریاض!! بھٹو کے صحافتی مشیروں میںحنیف رامے جیسے کہنہ مشق شامل تھے جبکہ زرداری صاحب کے مشیروں میں بعض صحافتی نابالغوں اورتشہیری ایجنسیوں کے اشتہاری دماغوں کے سوا کوئی ایساشخص نہیںجو پارٹی کے بنیادی فلسفے سے آشنا ہو۔زرداری صاحب اپنے ان انوکھے لاڈلے مشیروں سے بھی چھٹکارا حاصل کریں جنہوں نے پیپلز پارٹی کے بنیادی اصولوں والا’’قاعدہ ‘‘ بالکل بھی نہیںپڑھا۔ اسفندیار ولی خان نے کہاہے کہ انہیں شکست کسی سیاسی جماعت نے نہیںبلکہ حکیم اللہ محسود نے دی ہے۔مارچ سے لے کر گیارہ مئی تک عوامی نیشنل پارٹی کے ساٹھ سے زائد کارکن ،جن میں رہنما بھی شامل تھے ،شہید کردئیے گئے۔زرداری صاحب بھی کہتے ہیںکہ وہ ایک اور بھٹو کی قربانی نہیںدینا چاہتے تھے‘ اس لیے شکست ا ن کا مقدر بنادی گئی۔اس بار انتخابات میںپہلوانی تکنیک استعمال کی گئی ۔اس پہلوانی تکنیک میںپہلوان سجی (دائیںبازو والی ) دکھاکر کھبی(بائیںبازو والی ) استعمال کرتاہے۔انتخابات 2013ء میں بھی ایسا ہی ہوا ہے… سجی دکھاکر کھبی آزمائی گئی۔انتخابات سے صرف دوتین روز قبل میاں نوازشریف نے کہاکہ وہ بھارت کو فیورٹ نیشن قراردیںگے، کارگل کمیشن کی شفاف انکوائری کے ذریعے ذمہ داروں کاتعین کیاجائے گااورکمیشن رپورٹ بھارت کو بھی ارسال کی جائے گی ،فوج اورآئی ایس آئی کو پارلیمنٹ کے ماتحت کریںگے ۔الیکشن سے صرف چند گھنٹے قبل میاں صاحب کے اس بیان کو پہلوانی دائو ’’ سجی ‘‘ کہاجاسکتاہے۔جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین تواتر سے کہہ رہے ہیںکہ حالیہ انتخابات شطرنج کی اس بساط کی طرح ہوئے ہیںجس میں مہرے مرضی سے ادھر ادھر کردئیے گئے ہیں۔جسٹس صاحب کاکہناہے کہ سندھ میں پی پی کو جتواکر ،نون کو پنجاب میںکلین سوئپ کراکراور خیبر پختونخوا سے پی ٹی آئی کامینڈیٹ کم کر اکر من پسند بساط بچھائی گئی ہے ۔ پیپلز پارٹی اس کھیل میں مہرہ اپنی مرضی سے ہی بنی ہے لیکن دیکھنا یہ ہوگاکہ وہ اور اس کی پلے بیک لیڈر شپ اس شہ مات کو جیت میں کیسے بدلتی ہے؟؟؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں